لاڑکانہ سمیت سندھ بھر میں بھٹو تاحال زندہ ہے... جسم میں کیڑے پڑنے پر ہسپتال انتظامیہ نے مریض کو ایمولینس میں ڈال کر سڑک پر پھینکوا دیا‘ جبکہ بروقت طبی امداد نہ ملنے پر ایک اور مریض کی ٹانگ میں کیڑے پڑ گئے تو ہسپتال انتظامیہ نے اسے بیڈ سے اٹھا کر فرش پر ڈال دیا‘ جس کی ویڈیو وائرل ہونے پر ڈی جی رینجرز سندھ نے نوٹس لیا اور مریض کو سکھر منتقل کر دیا گیا‘ جہاں اس کا باقاعدہ علاج شروع کیا گیا ہے۔ علاج معالجہ کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے اس قسم کے خوفناک کیسز سامنے آ رہے ہیں‘ مگر یہ کیڑے مریضوں کے جسم میں نہیں بلکہ اس نظام میں پڑ چکے ہیں۔ اس طرزِ حکمرانی میں پڑنے والے کیڑے آج عوام کے جسموں سے نکل رہے ہیں۔ یہ کیڑے ان حکمرانوں کے بلند بانگ دعووں میں پڑے ہیں جو گلے پھاڑ پھاڑ کر جلسوں اور اسمبلیوں میں بھاشن دیتے ہیں کہ انہوں نے عوام کے لیے بہترین اور مثالی سہولیات فراہم کر کے بھٹو کو سندھ بھر میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ کیڑے ان حکمرانوں کے گھوڑوں اور کتوں کو نہیں پڑتے‘ کیونکہ وہ سندھ کے غریب عوام سے کہیں زیادہ بہتر اور آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان وڈیروں اور جاگیرداروں کے کتوں اور گھوڑوں کو جو خوراک میسر ہے ‘سندھ کے غریب عوام ا س کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایسے حالات میں عوام کے جسم میں کیڑے پڑ جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ان حکمرانوں کی نظر میں عوام کی حیثیت بھی ان کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ ہرگز نہیں۔
چند روز قبل ہی لاڑکانہ میں کتے کا شکار ایک کمسن بچہ ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر محض اس لیے جان دے چکا ہے کہ وہاں کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہ تھی۔ ذرا اندازہ تو کریں اس ماں پر کیا گزری ہوگی جس کی گود ہی اپنے بیٹے کی قبر بن گئی۔ اس منحوس واقعے کا ذمہ دار بھی جاں بحق ہونے والے بچے کے ماں باپ کو ہی ٹھہرایا گیا کہ انہوں نے اپنے بچے کا خیال کیوں نہ رکھا۔ ان حکمرانوں کو اب کون بتائے کہ جس شہر میں کتوں کا راج ہو اور وہ چلتے پھرتے راہگیروں کو بھنبھوڑ ڈالیں تو کون سے ماں باپ اپنے بچوں کو بچا سکتے ہیں؟ ویسے بھی ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کرجان دینے والے بچے کا قصور یہ تھا کہ وہ اس ملک میں پیدا ہوا۔ زندگی کی بازی تو وہ لاڑکانہ میں جنم لیتے ہی ہار گیا تھا۔ خشک سالی کے نتیجے میں سندھ میں ہونے والی ہلاکتوں اور بدحالی کے ذمہ دار حکمران جیل میں بھی ایئرکنڈیشنڈ کمرے اور دیگر مراعات کس ڈھٹائی سے مانگتے پھرتے ہیں۔ یہ واقعات تو نمونے کے چند دانے ہیں‘ ایسے درجنوں واقعات سندھ بھر کے مختلف علاقوں میں صبح و شام دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔
نحوست کا یہ آسیب صرف سندھ میںنہیں‘بلکہ پورے ملک میں پاؤں پسارے اور بال پھیلائے دھاڑ رہا ہے۔ کہیں زرداریت تو کہیں بزداریت کا دور دورہ ہے۔ چند ماہ قبل لاہور میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ (جسے عرف عام میں پاگل خانہ کہا جاتا ہے) میں ایک ذہنی مریض کو اتنی بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ چار دن سروسز ہسپتال میں تڑپتا رہا اور پھر ان حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھ کر منوں مٹی تلے جا سویا۔ غضب خدا کا‘ ایک ذہنی مریض کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے والوں سے بڑا پاگل اور درندہ کون ہو سکتا ہے؟ یہ کوئی نئی بات نہیں‘ مینٹل ہسپتال میں ایسے واقعات معمول کا حصہ ہیں۔ کبھی کسی ذمہ دار نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ''ان دیوانوں پر کیا گزری ہے‘‘۔ کہیں آتشزدگی کی وجہ سے ہسپتالوں کی نرسری میں نومولود بچے راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں تو کہیں آکسیجن اور دیگر سہولیات کی عدم فراہمی سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
کبھی کبھی یوں گمان گزرتا ہے کہ اس ملک میں پیدا ہونا ہی بازی ہار جانے کے مترادف ہے۔ ایسا ایسا غیر انسانی منظر راتوں کی نیند اور دن کا چین برباد کیے رہتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ کہیں سڑکوں پر تو کہیں ہسپتال کے فرش پر زچگی ہو جاتی ہے تو کہیں بے وسیلہ مریض علاج کی تمنا لیے نامراد ہی خالقِ حقیقی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ سماجی بگاڑ اور حکمرانوں میں ویژن کے فقدان کی وجہ سے کمسن بچوں کے اغوا‘ درندگی اور ہلاکتوں کے واقعات رکنے میں نہیں آرہے۔ حکمران ان واقعات کو لا اینڈ آرڈر کی ناکامی قرار دینے پہ بضد ہیں‘ جبکہ زمینی حقائق اور اصل اسباب کی طرف توجہ کرنے سے مسلسل گریزاں ہیں۔ ماضی کے حکمران ہوں یا عہد ِحاضر کے حاکم‘ کسی کو نہ کبھی کوئی فرق پڑا ہے اور نہ ہی آئندہ فرق پڑنے کی کوئی اُمید نظر آتی ہے۔ عوام اسی طرح مرتے رہیں گے اور یہ نوٹس لے کر انکوائریاں اور تحقیقات کا حکم دیتے رہیں گے۔
پناگاہوں کے بعد انصاف سرکار کی ایک اور فخریہ پیشکش متعارف کروائی جا چکی ہے۔ عوام کے لیے پہلا لنگر خانہ شروع کر دیا گیا ہے۔ جب عوام حکمرانوں کی نظر میں محض ''ڈنگر‘‘ ہی ہوں تو ان کے لیے کارخانے نہیں‘ لنگر خانے ہی بنائے جاتے ہیں‘ تاکہ وہ لنگر کا کھانا کھائیں اور موج اُڑائیں۔ ؎
جینے کا ڈھنگ سیکھئے میرے اَمیر سے
لنگر سے کھانا آئے گا پانی سبیل سے
عوام کو باعزت روزگار دینے سے قاصر انصاف سرکار مفت خوری کو فروغ دینے جارہی ہے۔ جس ملک میں روزگار کے مواقع ناپید ہو جائیں تو وہاں کے محنت کش لنگر پر ہی پلتے ہیں۔ دن میں لنگر سے کھانا کھاؤ اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے ''چوریاں چکاریاں کرو... تے موجاں اُڑاؤ‘‘۔ انصاف سرکار نے برسرِ اقتدار آتے ہی خاتونِ اوّل کی خواہش پر نادار اور بے سہارا لوگوں کے لیے پناہ گاہیں قائم کرنے کا آغاز کیا تھا۔ لاہور میں پہلی پناہ گاہ کا افتتاح وزیراعظم نے خود کیا تھا اور اس کے بعد دیگر پناہ گاہیں بزدار سرکار کی نگرانی میں قائم ہوتی رہیں۔ ذرا پتہ تو کریں وہ پناہ گاہیں اب کیا منظر نامہ پیش کر رہی ہیں۔ کہاں گئی دادرسی اور کفالت‘ وہ مثالی سہولیات کہاں رہ گئیں جو اِن بے کسوں اور ناداروں کو فراہم کرنا تھیں۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار پناہ گاہوں کے ملازم تنخواہیں نہ ملنے پر نوکریاں چھوڑ کر جا چکے ہیں ‘وہاں ناداروں کے بجائے ویرانیاں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہیں۔
یہ کہنا بھی قطعی بے جا نہ ہو گا کہ یہ پناہ گاہیں بھی اب پناہ مانگتی پھرتی ہیں۔ وزیراعظم نے لنگر کا آغاز کر کے عوام کی ایک اور مشکل آسان کر دی‘ یعنی پناہ گاہوں کے بعد اب شکم سیری کا بھی بندوبست کر دیا گیا ہے۔ تعجب ہے کارخانے دھڑا دھڑ بند ہو رہے ہیں اور لنگر خانے بنائے جا رہے ہیں ۔اس پر بھی وزیراعظم کو شکوہ ہے کہ عوام تیرہ ماہ بعد ہی سوال کر رہے ہیں کہ نیا پاکستان کدھر ہے؟ وزیراعظم نے مزید فرمایا کہ عوام میں صبر کا فقدان ہے۔ ریاستِ مدینہ بھی چند دن میں نہیں بنی تھی... عوام کو صبر کرنا ہوگا۔ ؎
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
ریاستِ مدینہ مساوات اور سماجی انصاف پر قائم کی گئی تھی‘ وہاں کسی زلفی اور کسی بزدار کو سرکاری خزانے پر نہیں پالا جاتا تھا۔ وہاں نعیم الحق نہیں صرف حق ہی حق تھا۔ وہاں احترامِ آدمیت سے لے کر رائے عامہ تک سبھی کا احترام کیا جاتا تھا۔ اکثریت کی رائے ہی فیصلہ ہوا کرتی تھی۔ پورا پنجاب چیخ اٹھا ہے کہ اس صوبے سے کون سا انتقام لیا جا رہا ہے۔ جس شخص کو بڑی محنت اور لگن سے بنائے گئے ہسپتال کا منتظم بنانے کا وہ رِسک نہیں لے سکتے‘ اسے پورا صوبہ کیونکر سونپ دیا گیا ہے؟ سرکاری اخراجات پر ضد اور شوق پورا کرنے کی روایت نئی نہیں ہے۔ اقوام ہوں یا حکام اپنی غلطیوں سے نہیں بلکہ اپنے غلط فیصلوں پر ضد اور اصرار سے تباہ ہوتے ہیں۔
اس مملکت کے عوام نے بھی کیا عجیب قسمت پائی ہے۔ یہ کیسا سیاہ بخت خطہ ہے‘ جہاں کوئی ضابطہ‘ کوئی آئین اور کوئی قانون اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ ہی نہیں ہو سکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نہ تو فلاحی معاشرے کے فوائد سے بہرہ مند ہو سکے اور نہ ہی جمہوریت سے فیض یاب ہو سکے‘ البتہ جمہوریت کا راگ الاپتے الاپتے ہم اس نہج پر ضرور پہنچ چکے ہیں کہ یہ مملکت نہ جمہوری رہی اور نہ ہی فلاحی۔ اگر ہمارے سماج سیوک حکمران اس ملک و قوم کی مزید خدمت سے باز ہی آجائیں تو یہ نہ صرف ان کی بہت بڑی خدمت ہو گی بلکہ آئندہ نسلوں پر احسانِ عظیم بھی ہو گا۔