بعض موضوعات اس قدر پریشان کن ہوتے ہیں کہ ان پر نہ چاہتے ہوئے بھی لکھنا پڑتا ہے۔ بلکہ ان پر جتنا بھی لکھا جائے کم پڑتا چلا جاتا ہے۔ یہ موضوعات روزانہ کی بنیاد پر نہ صرف اخبارات کے صفحات پر بلکہ ٹی وی چینلز پر بھی حکومتی دعوؤں اور گورننس کا منہ چڑاتے پھرتے ہیں۔ بعض اوقات ان پر لکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے ہی کسی کالم کا چربہ لکھ رہا ہوں یا پھر کالم موضوع کی تکرار کا شکار ہے۔ آج کسی ایک مخصوص موضوع پہ لکھنے کے بجائے جابجا ہرسو بکھرے واقعات پر بات کریں گے ‘جن کا براہِ راست تعلق عوام کے ان مسائل سے ہے جن کا سامنا کرتے کرتے وہ نڈھال اور بدحال ہو چکے ہیں۔
ڈینگی کے شکار مریضوں اور ان کی ہلاکتوں میں اضافہ بھی تو تشویشناک حد تک بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ہسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر آنے والے مریضوں اور ہلاکتوں کی خبر اور اَپ ڈیٹ دینا جس طرح اخبارات اور ٹی وی چینلز کی مجبوری ہے اسی طرح مچھر کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والوں کا نوحہ کالم کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ملک بھر میں ڈینگی اور حکومتی ڈینگوں کے درمیان مقابلہ تاحال جاری ہے۔ ڈینگی کا مچھر فتح کے نشے میں چور‘ اُڑتا پھر رہا ہے اور حکومتی دعوے اور اقدامات دھرے کے دھرے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح مہنگائی کا آسیب شہریوں کو نفسیاتی اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر چکا ہے۔ اچھا خاصا آدمی جھنجھلاہٹ اور چڑچڑے پن کا مریض نظر آتا ہے۔
سبز مرچ 450روپے کلو‘ ہرا دھنیا 350روپے کلو اور پیاز 100 روپے کلو فروخت ہو رہا ہو تو باقی سبزیوں اور دالوں کی قیمتوں کا کیا عالم ہوگا؟ یاد رہے ابھی کچھ عرصہ پہلے تک سبز مرچ اور ہرا دھنیا سبزی کے ساتھ مفت یعنی اعزازی طور پر ملا کرتا تھا۔ جس طرح سموسے کے ساتھ چٹنی گاہک کا حق ہے‘ اسی طرح سبزی خریدنے والے اپنے حق سے ہرا دھنیا اور سبز مرچ طلب کیا کرتے تھے۔ انصاف سرکار نے سبزیوں سمیت دالوں اور مرغی کے گوشت کی قیمتوں کو ایسی آگ لگائی ہے کہ عام آدمی جھلس کر رہ گیا ہے۔ کم آمدنی والاطبقہ تنگ دستی اور فاقہ کشی کے ہاتھوں مجبور ہے جبکہ حکومتی چیمپئنز معیشت کے استحکام کے دعوے کرتے نہیں تھکتے۔
تاجروں کے بعد پاور لومز ہڑتال پر اُتر آئی ہیں‘ ٹیچنگ ہسپتالوں کے ملازمین ہڑتالوں‘ احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں کی ابتدا کر چکے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج معالجہ محال ہو گیا ہے۔ گزشتہ تین یوم کے دوران 2100آپریشنز ملتوی ہو چکے ہیں۔ آؤٹ ڈورکے دروازے مریضوں پر بند ہیں جبکہ ایمرجنسی میں بھی سروس ڈلیوری کا معیار ثانوی سے زیادہ نہیں۔ ایسے حالات میں بھی انصاف سرکار کا دعویٰ ہے کہ مریضوں کو ہسپتالوں میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں۔
لاہور جیسے شہر میں مزدوری مانگنے پر الیکٹریشن پر شیر چھوڑنے کی خبر سن کر یوں لگتا ہے یہ صوبائی دارالحکومت نہیں بلکہ کوئی جنگل ہے جو اندھیر نگری چوپٹ راج کا منظر پیش کر رہا ہے۔ غضب خدا کا گھر سے بچوں کی روزی کمانے کے لیے نکلنے والا الیکٹریشن جب کام سے فارغ ہو کر اپنی مزدوری طلب کرتا ہے تو اسے بھوکے شیر کے آگے ڈال دیا جاتا ہے جو اس محنت کش کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اس واقعہ پر حکومتیں اور گورننس خدا جانے کہاں سوئی پڑی ہیں؟ صوبائی دارالحکومت کی اہم شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر کھنڈرات اور گڑھوں میں تبدیل ہوتی چلی جارہی ہیں۔ شہر لاہور کی سڑکوں کا یہ عالم ہے تو صوبے کے دیگر شہروں کی حالتِ زار کیا ہوگی اس کا اندازہ ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ان سڑکوں پر نہ صرف روزانہ حادثات ہوتے ہیں بلکہ عوام کی گاڑیوں کا بھی ستیاناس ہورہا ہے۔
یوں لگتا ہے گورننس کے کنویں میں نااہلی اور بدنیتی کا کتا گر گیا ہے۔ اس کنویں سے چند نمائشی بوکے نکالنے سے کام نہیں چلے گا۔ جب تک یہ کتا نہیں نکالا جائے گا نہ کنواں صاف ہو گا اور نہ مثالی گورننس کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوگا۔ کتے سے یاد آیا لاڑکانہ کے بعد کراچی میں بھی باؤلے کتوں کا راج دِکھائی دیتا ہے۔ ان کتوں نے پولیس انسپکٹر اور بچوں سمیت دو درجن سے زائد افراد کو کاٹ لیا ہے۔ ان کتوں کی سرکوبی کے لیے رینجرز کی خدمات طلب کر لی گئی ہیں۔ رینجر کے آنے کے بعد اُمید کی جاسکتی ہے کہ یہ باؤلے کتے جلد ہی کیفر کردار کو پہنچ جائیں گے۔
شیخوپورہ کے علاقے نارنگ میں گولیاں‘ ٹافیاں چرانے کے الزام میں کمسن بچوں کے سر مونڈنے اور تشدد کرنے کے واقعہ پر آر پی او کے سخت نوٹس کے بعد بچوں پر تشدد کرنے والوں پر مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جس معاشرے میں کمسن بچوں کے سر مونڈ کر ان پر تشدد کرنے والوں کے ہاتھ نہ کانپیں اس معاشرے کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ کمسن بچوں کے ساتھ ظلم و تشدد کرنے والے انسان نہیں بلکہ انسان نما درندے ہیں جو ہمارے معاشرے کا چہرہ بنتے چلے جارہے ہیں۔ ایسے چہرے مسخ کرنا ہوں گے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر میں ڈی پی او شیخوپورہ متاثرہ بچوں کو ٹافیاں اور بسکٹ کھلا رہے ہیں۔ کاش یہ رویہ اور رسپانس ہماری پولیس کا مستقل رویہ بن جائے۔
90ء کی دہائی میں ملک کے سب سے بڑے مالیاتی سکینڈل کا ذمہ دار محکمہ کوآپریٹو آج کل ان بے وسیلہ اور محنت کش خواتین کی زندگی اَجیرن کیے ہوئے ہے جنہوں نے 20ہزار روپے فی کس قرضہ حاصل کیا تھا کہ کوئی چھوٹا موٹا کام کاج کر کے گھر کا خرچہ چلائیں گی۔ یہ قرضہ ان خواتین کے لیے دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی بن چکا ہے۔ 2005-06ء میں محکمہ کوآپریٹو نے محنت کش خواتین کا معیارِ زندگی بہترکرنے کے لیے 20 ہزار روپے قرضہ دیا تھا۔ قرضے کی اقساط ادا کرنے کے باوجود سود قرضے کی رقم سے بھی کئی گنا بڑھ چکا ہے اور اب اس کی ادائیگی ان بے وسیلہ خواتین کے لیے ممکن نہیں‘ جس ملک میں کوآپریٹو سکینڈلز بنتے ہوں‘ بینک بنا کر عوام کو ان کی عمر بھر کی کمائی اور جمع پونجی سے محروم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ کی جاتی ہو‘ اصل رقم کا پچیس فیصد دے کر کل رقم کی وصولی پر دستخط کروائے جاتے ہوں‘ اس کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ کا ان خواتین کو ذلیل و رسوا کرنے پر'' شاباش ‘‘تو دی جانی چاہیے۔ جس ملک میں کروڑوں‘ اربوں روپے کے قرضے لے کر معاف کروانے کا رواج ہو وہاں بے وسیلہ اور محنت کش خواتین سے بیس ہزار کے قرضے کی وصولی کے لیے سرکاری مشینری کا بے رحم استعمال تو ''بنتا ‘‘ہے۔
ملک بھر میں رئیل اسٹیٹ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اتھارٹی قائم کر دی گئی ہے‘ جبکہ نیب پہلے ہی سخت ریگولیٹر کی صورت میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ صوبائی سربراہ میجر ریٹائرڈ سلیم شہزاد نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی آڑ میں عوام کو لوٹنے اور جمع پونجی سے محروم کر کے پلاٹ نہ دینے والی 14 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف ریفرنس داخل کر دئیے ہیں ‘جبکہ ان فراڈ کرنے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوںکے ذمے متاثرین کے 26اَرب روپے واجب الادا ہیں جو انہوں نے پلاٹ کا جھانسہ دے کر انہیں چونا لگایا ہے۔ 54 ہزار سے زائد متاثرین کی ریکوری کے لیے 6ارب 47کروڑ روپے کی پلی بارگینگ کی جاچکی ہے اور 3ارب 22کروڑ روپے ملزمان سے وصول کر کے متاثرین میں تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ اسی طرح نیب پنجاب کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیں تو گزشتہ اڑھائی سال میں 17 سالہ کارکردگی کا ریکارڈ توڑا جاچکا ہے۔ کرپشن کے مختلف کیسز میں 2017ء سے تاحال مجموعی طور پر 1کھرب 6ارب روپے کی ریکوری ممکن بنانے کے لیے اقدامات کیے جاچکے ہیں۔ جس کی تفصیل آئندہ کسی کالم میں شیئر کرونگا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں ماں‘ بہن‘ بیٹی اور بیوی کو جائیداد میں حصہ نہ دینے والوں کے خلاف قانون پاس کر دیا گیا ہے۔ کاش ہماری اسمبلیاں کوئی ایسا قانون بھی منظور کر لیں جو عوام کو اُن کے بنیادی حقوق اور سہولیات سے محروم کرنے والوں کے خلاف ہو... مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ کوئی اپنے ہی خلاف قانون بنائے اور منظور کرے۔