نواز شریف خرابیٔ صحت کے باعث ایک بار پھر ہسپتال پہنچ چکے ہیں جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آصف علی زرداری بھی پمز اسلام آباد داخل ہو چکے ہیں۔ نواز شریف کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد گر کر 20000 تک پہنچ گئی ہے اور اس طرح خون کافی پتلا ہو چکا ہے۔ پلیٹ لیٹس کا گرنا اور خون کا پتلا ہونا کسی بھی مریض کے لیے ''الارمنگ‘‘ صورتحال ہوتی ہے۔ نواز شریف کا خون کتنا پتلا ہوا ہے، کتنے پلیٹ لیٹس گرے ہیں اور یہ کب تک گاڑھا ہو جائے گا‘ یہ ڈاکٹرز کا کام ہے اور وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ 17 جنوری 2019ء کو نواز شریف کو سینے میں تکلیف شروع ہوئی تھی۔ اس وقت وہ جیل میں تھے اور اس بیماری کا ڈراپ سین 70دن میں ہوا تھا۔ اس دوران تین میڈیکل بورڈ بنے، تین ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے گئے لیکن نہ تو مریض کو معالجین پر اعتبار تھا... اور نہ ہی علاج کروانے والوں کو ان کی بیماری کا یقین... ان 70 دنوں میں نواز شریف کی بیماری کو لے کر جو سیاست ہوئی وہ ایک لمبی تفصیل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کی بیماری کا یہ اُونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کا خون گاڑھا ہو یا پتلا عوام کے حق میں ہمیشہ سفید ہی ثابت ہوا ہے۔
عوام کو سبز باغ دِکھانے والے حکمران سابق ہوں یا موجودہ، ان کی رگوں میں دوڑنے والے سفید خون کا گروپ بھلے کوئی بھی ہو، پلیٹ لیٹس کی تعداد چڑھی ہو یا گری ہو، ان کا خون گاڑھا ہو یا پتلا، اس کے اثراتِ بد سے عوام نہ کل محفوظ تھے اور نہ ہی آج محفوظ ہیں۔ جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح فیصلے اور نتائج حکمرانوں کی نیتوں اور ارادوں کا پتہ دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کے سبھی حکمرانوں نے آئین سے قوانین تک... نیت سے معیشت تک... بدانتظامی سے بدعنوانی تک... بدعہدی سے خود غرضی تک... وسائل کی بربادی سے ذخائر کی بندر بانٹ تک... کوئی موقع ہاتھ سے جانے ہی نہیں دیا۔
ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر آج تک... تمام حکمرانوں میں ایک قدر ہمیشہ مشترک رہی ہے... اور وہ ہے‘ ووٹ دینے والوں کو ان کی اوقات یاد دلاتے رہنا... انہیں ان کی غلطی کی سزا روزانہ کی بنیاد پر دینا... یہ حکمران ایک دوسرے کے حلیف ہوں یا بدترین حریف... جس عوام کے ووٹ کی بدولت اقتدار کے سنگھاسن پر آ بیٹھے ہیں تو پھر انہی عوام پر عرصہ حیات تنگ کرتے چلے جاتے ہیں... انتخابی مہم میں جس عوام کے میلے کچیلے کپڑوں سے انہیں خوشبو آتی تھی‘ اقتدار میں آتے ہی انہی کپڑوں سے انہیں گھن آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ووٹ کے حصول کیلئے جن کے گھروں کے چکر لگاتے نہ تھکتے تھے الیکشن جیتتے ہی سب سے پہلے اپنے ڈیروں، دفاتر اور کوٹھی بنگلوں کے دروازے انہی عوام پر بند کیے جاتے ہیں۔ جن کی غربت دور کرنے کے لمبے چوڑے بھاشن دئیے جاتے تھے انہی عوام کی غربت میں اضافہ کرکے ذلت اور پچھتاوے کا بونس بھی دے دیا جاتا ہے۔
حکمران کوئی بھی ہو... دور کسی کا بھی ہو... ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک کہنے سے بھی دریغ نہ کرنے والے سیاست دانوں کے اقتدار کے ادوار میں ایک قدر ہمیشہ مشترک رہی ہے۔ ذاتی خواہشات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں... غیر منصفانہ اور غیر منطقی فیصلوں کے ''اثراتِ بد‘‘ ملک کے طول و عرض میں جابجا ہر سو، ناچتے نظر آتے ہیں۔ ماضی کے حکمران تو کل کا بویا آج کاٹ ہی رہے ہیں اور اِن کے ''اعمالِ بد‘‘ کا شکار عوام اِن کی نیتوں اور طر ز حکمرانی کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہیں‘ لیکن موجودہ حکمران آج جو کچھ بو رہے ہیں اس کی کھیتی کل ضرور کاٹیں گے۔ یہی مکافات عمل اور یہی قانون فطرت ہے۔
مردم شناسی ایک ایسا ہنر اور صلاحیت ہے جو انسان کی سو خامیوں پر پردہ ڈال سکتی ہے... کسی حکمران میں اگر سو خوبیاں ہوں لیکن مردم شناسی نہ ہو تو ساری خوبیاں کس کام کی؟ کسی لیڈر یا حکمران کا اصل کام اہداف کے حصول کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب ہے... یعنی ''رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کے تصور کو قائم رکھنا ہی کسی لیڈر کی کامیاب حکمتِ عملی ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی شخص چاہے وہ حکمران ہو یا لیڈر‘ سارے کام خود نہیں کر سکتا۔ ہر کام میں اس کی مہارت ممکن نہیں۔ اس کی اصل کامیابی اُس ٹیم کی تشکیل ہے جو اپنے لیڈر کے ویژن اور ایجنڈے کی عملی تصویر بن کر آ سکے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کو آج تک ایسا کوئی حکمران نصیب نہیں ہوا جو مردم شناسی کے ہنر سے آشنا ہو۔ ذاتی مفادات اور خواہشات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل اور تکمیل کے لیے انہیں ذاتی رفقاء اور مصاحبین کے سوا کچھ دِکھائی نہیں دیتا۔
ہر دور میں عوام کو گمراہ کُن اعدادوشمار اور دل فریب وعدوں سے خوشحالی کی نوید دے کر حکمران اپنی اپنی باریاں لگا کر آتے جاتے رہے۔ اقتدار میں آنے والے حکمران سابقہ حکمرانوں کو موردِ الزام ٹھہراتے رہے اور عوام کو جھوٹے وعدوں، دلاسوں اور جھانسوں سے بہلا کر معاشی انقلاب کی خوشخبریاں سناتے رہے۔ خوش کن اعدادوشمار اور زبانی جمع خرچ کا یہ گورکھ دھندا چلتا رہا اور عوام بے وقوف بنتے رہے۔ الغرض دھوکہ اور جھانسہ ہر حکومت کا نصب العین رہا۔
بدقسمتی سے یہ گورکھ دھندا آج بھی جاری و ساری ہے۔ حکومتی ''چیمپیئنز‘‘ کی انقلابی اور معاشی پالیسیوں نے بادلوں میں پہلے سے چھپے اور آنکھ مچولی کھیلتے ''معیشت کے چاند‘‘ کو ''گرہن‘‘ لگا کر ہی دَم لیا۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل حکومتی ''چیمپیئنز‘‘ عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ تا حدِ نظر اُجاڑے ہی اُجاڑے... مہنگائی اور گرانی سمیت گورننس اور میرٹ کی تباہی اور بربادی کا ایسا ایسا منظر کہ الامان و الحفیظ۔
انتہائی تشویش کا مقام ہے کہ انصاف سرکار نے ایک سال میں ہی سابقہ حکمرانوں کے کئی ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ نیت سے معیشت تک... اقربا پروری سے کنبہ پروری تک... بے احتیاطی سے بدانتظامی تک... گورننس سے لے کر میرٹ تک... سبھی کا وہ حشر نشر کیا کہ یوں لگتا ہے موجودہ حکومت اگلے چار سال پورے کرنے کے بجائے واپسی کے سفر پر گامزن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ چہ میگوئیاں اور یہ بحث زور پکڑتی چلی جارہی ہے کیا یہ طرز حکومت اور موجودہ حکمران ڈلیور کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں یا انہیں کام نہیں کرنے دیا جارہا؟ ان سوالات کی شدت اور تقویت میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے کہ سیاستدانوں کو کہیں ناکام اور نااہل قرار دے کر آئین کو ''ریسٹ‘‘ پر تو نہیں بھیجا جا رہا؟ کوئی متبادل قیادت یا کوئی متبادل نظام آنے والا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو آنیوالا طرز حکمرانی کیسا ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو گزشتہ کئی ماہ سے ہر آنے والے دن کے ساتھ شدت اور اہمیت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔
بتدریج یہ تاثر بھی تقویت حاصل کرتا جا رہا ہے کہ دھرنے اور طویل سیاسی جدوجہد کرنے والی تحریک انصاف بکھر چکی ہے۔ اس کے اصل چہرے پس منظر میں اور قصہ پارینہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ صورتحال تحریک انصاف کے اندر بے چینی اور بد دلی کا باعث بھی ہے۔ تحریک انصاف کے دیرینہ قائدین اپنی اپنی نجی محفلوں میں اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں‘ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ 'منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘۔
انصاف سرکار کے سقراطوں اور بقراطوں نے روزِ اوّل سے کسی نہ کسی آزمائش، سُبکی اور بدنامی سے دوچار ہی رکھا ہے۔ بڑے بول اور بلند بانگ دعوؤں پر مبنی سارے بیانیے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ذاتی مصاحبین اور رفقاء کسی صورت امور حکومت اور خود وزیر اعظم کے لیے کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوئے۔ یہ سبھی وزیراعظم کی معاونت اور رہنمائی کے بجائے ان سے تعلق کی قیمت وصول کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔
دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ آئندہ چند ماہ کسی ایک پارٹی کے حوالے سے نہیں بلکہ وطن عزیز کے سارے سیاستدانوں کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے مستقبل کا اہم ترین فیصلہ اسی دورانیے میں آنے کو ہے۔ عوام سے طرز تغافل برتنے والے سیاستدانوں سے چھٹکارا اور چارج شیٹ آنے کو ہے۔ گویا بدعہدی اور ملک و قوم کے مفادات سے متصادم طرزِ حکمرانی کا طویل عہد اپنے انجام کو ہے کیونکہ چارا بو کر کپاس یا گندم نہیں کاٹی جا سکتی ہے۔