"AAC" (space) message & send to 7575

ٹاپ سٹوری

نواز شریف کی بیماری چند روز سے ٹاپ سٹوری بنی ہوئی ہے۔ سیاسی اُفق پر کھڑکی توڑ ہفتہ جاری ہے۔ تشویشناک حد تک گرتے ہوئے ان کے پلیٹ لیٹس نے انصاف سرکار کی دوڑیں لگوا دی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سرکار کے اپنے پلیٹ لیٹس گرنا شروع ہو گئے ہیں۔ نواز شریف کی بیماری کو ڈھونگ اور ہریسہ، پائے، نہاری جیسی مرغن غذاؤں سے منسوب کرنے والے حکومتی چیمپئن غیر سگالی کرتے نہیں تھک رہے۔ وزیر اعظم سمیت وزیر اور مشیر سارے ہی یکسر بدلے بدلے نظر آتے ہیں۔ نواز شریف کو قومی مجرم اور چور قرار دینے والے وزیر اعظم خود کو سیاسی اختلافات تک محدود کرکے فرماتے ہیں کہ ''سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صحت کے حوالے سے انتہائی فکرمند ہیں‘‘۔ 
اکثر وزراء اور مشیر اپنی شعلہ بیانیوں اور نواز شریف کی بیماری پر جاری کردہ سخت بیانات پر یوٹرن لے چکے ہیں۔ ''واہ ری سیاست... تیری ہر بات ہی نرالی ہے‘‘ گویا ''وہ جو ناخوب تھا...وہی خوب ہوا‘‘ کے مصداق انصاف سرکار کے سارے چیمپئن اخلاقیات اور غیر سگالی کا جھنڈا اُٹھائے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی دوڑمیں شریک ہیں۔ وزیراعظم نے تو اپنے تمام چیمپئنز کو نواز شریف کے بارے میں منفی بیانات جاری کرنے سے بھی روک دیا ہے جبکہ گورنر پنجاب کو خصوصی ہدایات ہیں کہ وہ شریف فیملی کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ یوں لگتا ہے‘ انصاف سرکار کی شدید خواہش ہے کہ نواز شریف جلد از جلد صحت یاب ہو جائیں یا پھر علاج کے لیے بیرون ملک چلے جائیں کیونکہ وہ جب تک حکومتی تحویل میں رہیں گے ان کی بیماری اور بڑھتے ہوئے خطرات حکومت کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
انصاف سرکار تو واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ عدالت نواز شریف کی ضمانت منظور کر لے یا انہیں علاج کے لیے باہر بھجوا دے ہمیں نہ کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی اس میں کوئی رکاوٹ ڈالی جائے گی۔ ایک طرف نواز شریف کی تشویشناک حالت اور دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کی طرف سے آزادی مارچ کی کال انصاف سرکار کی حالت پتلی کیے ہوئے ہے۔ یعنی یک نہ شد دو شد... نواز شریف کی بیماری اور مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ‘ دونوں کی ٹائمنگ سرکار کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
مولانا ہیں کہ آزادی مارچ ملتوی کرنے کے سارے امکانات مسترد کرتے چلے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف خدانخواستہ صحت یاب نہ ہوئے اور ہسپتال سے کوئی بری خبر آ گئی تو یہ آزادی مارچ انصاف سرکار کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں آزادی مارچ کو روکنا یا کنٹرول کرنا حکومت کے بس میں نہ رہے گا۔ انہیں وسوسوں اور خدشات کے پیش نظر وزیر اعظم سمیت ان کے سارے چیمپئنز کے بیانیے میں حیرت انگیز تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ وزیر اعظم نے خصوصی طور پر حکم جاری کیا ہے کہ مریم نواز کو اپنے والد کے پاس رہنے دیا جائے۔ ان حالات میں نواز شریف کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ''جو بیزار تھے مجھ سے‘ مجھے ان کا سلام آیا‘‘۔ پوری انصاف سرکار نواز شریف کی بیماری اور آزادی مارچ کی کال کے درمیان فٹ بال بنی ہوئی ہے۔ 
اُدھر اسلام آباد میں آصف علی زرداری بھی ہسپتال میں آرام پذیر ہیں۔ اُن کے بھی تشخیصی ٹیسٹ جاری ہیں۔ اُن کی شوگر سے لے کر بلڈ پریشر تک اور دیگر فٹنس معاملات کے حوالے سے لمحہ بہ لمحہ عوام کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔ کاش! انصاف سرکار اسی توجہ‘ دلچسپی اور بے چینی کا مظاہرہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد عوام کے لیے کرتی تو شاید نہ شریف فیملی کے آگے پیچھے پھرنے کی ضرورت پیش آتی اور نہ ہی آزادی مارچ کچھ بگاڑ پاتا۔ عوام کے لیے ہسپتالوں میں مسلسل ہڑتالیں... ہزاروں آپریشن منسوخ... مریضوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق... لیکن نواز شریف اور آصف زرداری کے لیے ساری حکومت ہاتھ باندھے تمام تر وسائل لیے حاضر... واہ! کیا کھلا تضاد ہے۔ 
بالآخر عمران خان صاحب بھی اسی کلچر اور مخصوص سوچ کے حامل نکلے جس کے خلاف وہ 22 سال جدوجہد کرتے رہے۔ اسی وی آئی پی کلچر کے خلاف وہ لمبے چوڑے بھاشن، جلسے، جلوس اور دھرنے دے کر کنٹینر پر سوار رہے۔ اگر اس 22 سالہ جدوجہد کا ڈراپ سین اس ''ستائشِ باہمی‘‘ پر ہونا تھا تو پھر ''ہو گیا احتساب... مل گیا انصاف اور چل گئی حکومت‘‘۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کو علاج معالجہ کی سہولیات ضرور ملنی چاہئیں کہ ہر مریض کا یہ بنیادی حق ہے لیکن جن حق داروں کو تحریک انصاف نے 22 سال سے سماجی انصاف، معاشی انقلاب اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کا چکر دے رکھا ہے ان کا علاج معالجے اور ملتوی ہونے والے آپریشنز سے زندگیوں کو لاحق خطرات کا ذمہ دار کون ہو گا؟ مسلسل ہڑتالوں کی وجہ سے ہسپتالوں میں عوام کو درپیش مسائل پر نہ تو کسی وزیر کو کوئی پشیمانی ہوئی اور نہ کسی مشیر کو عوام کا درد جاگا۔ جیلوں میں بھی ناجانے کتنے گھن گیہوں کے ساتھ پسے بیٹھے ہیں۔ علاج معالجہ سے لے کر بنیادی انسانی سہولیات تک، انہیں میسر ہی کیا ہے؟ دھرنوں اور انتخابی تحریکوں میں کیے گئے وعدے اور دعوے کہاں رہ گئے۔ انصاف سرکار کو آخر پیٹی بھائیوں کا درد جاگ ہی اٹھا۔ 
نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز مرحومہ کی بیماری کا تمسخر اُڑانے والے سارے حکومتی چیمپئنز کس ڈھٹائی اور بے حسی سے بیان دیا کرتے تھے کہ کلثوم نواز کی بیماری نواز شریف کا سیاسی ڈرامہ ہے۔ چند دن پہلے تک نواز شریف کی بیماری کو بھی غیر سنجیدہ لیتے رہے ہیں۔ سالِ رواں کے اوائل میں نواز شریف کو 70 دن ہسپتالوں میں رولنے کے بعد دوبارہ جیل بھجوا دیا گیا تھا۔ اب نواز شریف کے گرتے ہوئے پلیٹ لیٹس کے ساتھ خود حکومت کو اپنے پلٹ لیٹس کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اس ملک میں جو طرز سیاست ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے وہی رہے گا۔ نہ کوئی تبدیلی آئے گی اور نہ ہی کوئی انقلاب‘ یہ دعوے اور وعدے یونہی منہ چڑاتے نظر آئیں گے۔ کرموں چلے عوام کی سیاہ بختی یونہی جاری رہے گی‘ نہ ماضی میں کبھی ان پر کسی کو رحم آیا اور نہ ہی انصاف سرکار ان کی حالتِ زار پر رحم کھانے کو تیار ہے۔ 
جو سلوک جنرل ضیاء الحق نے آئین، جمہوریت اور نفاذ شریعت کے ساتھ کیا اور وہی سلوک انصاف سرکار احتساب، میرٹ اور گورننس کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔ آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھنے والے ضیاء الحق کے دور میں جمہوریت کی جو پنیری لگائی گئی آج وہ کوڑھ کی کاشت ثابت ہو چکی ہے‘ جس نے سیاست سے لے کر ریاست تک... اخلاقیات سے لے کر معاشیات تک... سماجیات سے لے کر عقائد تک سبھی کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ احتساب‘ میرٹ، گورننس اور سماجی انصاف کا جھنڈا اٹھا کر 22 سال جدوجہد کرنے والی تحریک انصاف جب برسرِ اقتدار آئی تو یوں لگا: ؎
اس کو رسمیں نگل گئی ہوں گی 
وہ بھی دنیا کا ہو گیا ہو گا
یعنی وہ بھی ان رسوم و رواج کے مہلک اثرات سے نہ بچ سکے جو ماضی کے تمام ادوار میں کارِ بد کی صورت میں رائج تھیں۔ میرٹ اور گورننس تو ناجانے کدھر رہ گئے‘ احتساب بھی مخصوص افراد سے آگے نہ جا سکا۔ صورتحال یہ ہے کہ کوئی احتساب کو مطلوب ہونے کے باوجود کابینہ میں پناہ گزین ہے تو کوئی وزیر اعظم ہاؤس کو محفوظ پناہ گاہ بنائے بیٹھا ہے۔ کوئی برسرِ اقتدار پارٹی کے عہدے کو اپنے لیے ڈھال سمجھتا ہے تو کوئی وزیر اعظم سے ذاتی تعلق کی بنا پر مصاحبین کی فہرست میں شامل ہے اور بات کرتے ہیں کہ احتساب کا ادارہ بااختیار اور خود مختار ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو احتساب کا دائرہ ان تک کیوں نہ پہنچ سکا‘ جو سرکار کے پروں میں چھپے بیٹھ ہیں۔ آخری اطلاعات یہ ہیں کہ ہائیکورٹ نے طبی بنیادوں پر نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کر لی ہے؛ تاہم ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ وہ علاج کے لیے باہر جاتے ہیں یا ملک میں ہی اپنا علاج کرواتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں