نواز شریف ضمانت پر رہائی پا چکے ہیں جبکہ آصف علی زرداری بھی اسی ماڈل کو اپناتے ہوئے طبی بنیادوں پر ریلیف کے لیے پرتول رہے ہیں۔ ان سماج سیوک نیتائوں کے لیے اسیری اور رہائی گیم پلے کا حصہ اور ادھر ڈوبے اُدھر نکلے والا معاملہ ہے۔ یہ تو ڈوب کر نکل آتے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں ڈوبے عوام کہیں بھنور میں ہچکولے کھا رہے ہیں تو کہیں غوطے پر غوطے کھائے چلے جارہے ہیں۔ نواز شریف کی ضمانت تو ہوگئی‘ زرداری بھی آج نہیں تو کل طبی بنیادوں پر باہر آکر چلتے پھرتے نظر آسکتے ہیں‘ لیکن نصیبوں جلے عوام کی ضمانت تاحال ضبط ہے ۔ بے کس اور لاچار عوام بھی رہائی چاہتے ہیں اورپوچھتے پھرتے ہیں کہ وہ اپنی رہائی کے لیے کونسی زنجیر عدل ہلائیں کہ ان کی سیاہ بختی اور ذلتِ جاریہ کا سلسلہ کچھ تو کم پڑے۔کہیں تو اس کا زور ٹوٹے اور عوام کے اوسان اور سانسیں بحال ہوںاور یہ محسوس کرسکیں کہ وہ بھی حضرت انسان کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ‘ان کے بھی کوئی حقوق ہیں جن سے انہیں سوچی سمجھی سکیم کے تحت تاحال محروم رکھا گیا ہے۔
نواز شریف اور زرداری اینڈ کمپنی سب کچھ کرکے معصوم بن کر ضمانتیں مانگتے پھرتے ہیں‘ لیکن بیچارے عوام نے تو کچھ بھی نہیں کیا ‘وہ پھر بھی ضمانت پر رہائی کے طلبگار بنے پھرتے ہیں۔وہ ان حکمرانوں کے اس شکنجے سے رہائی مانگتے ہیں جو اِن کے طرز حکمرانی کے نتیجہ میں عوام کوجکڑے ہوئے ہے۔اس طوق سے نجات مانگتے ہیں جو ان کی گردنوں میں مینڈیٹ کی صورت میں پڑ چکا ہے۔ کوئی روٹی کے ہاتھوں تو کوئی علاج معالجہ کے ہاتھوں‘کوئی عزت نفس کے ہاتھوں تو کوئی سماجی انصاف کے ہاتھوں‘ان حکمرانوںکے ہاں گروی پڑا نظر آتا ہے۔
یہ عوام آخر کب تک محصور اور یرغمال رہیں گے؟ یہ اب رہائی مانگتے ہیں ۔ یہ بھی جینے کا حق اور دو وقت پیٹ بھر روٹی کے طلبگار ہیں۔ یہ بھی علاج معالجہ کا وہی بنیادی حق رکھتے ہیںجن کے حقدار نواز شریف اور زرداری سمیت تمام اشرافیہ اور دیگر کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ معصوم اور کم سن بچے ننھے منے ہاتھوں میں وائپر پکڑے سڑکوں اور چوراہوں پر گاڑیوں کے شیشے چمکانے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔اس کے عوض جو کچھ انہیں ملتا ہے اس سے گھر کا چولہا تو نہیں البتہ دل اور خون ضرورجلتا ہے۔ انصاف سرکار کے لنگر خانے اور پناہ گاہیں بھی انہیں پناہ دینے سے قاصر ہیں‘ کیونکہ پناہ گاہیں نہ صرف ٹوٹ پھوٹ کا شکار بلکہ ان کے ملازمین بزدار سرکار سے پناہ مانگتے پھرتے ہیں کہ خدا کے لیے ہماری تنخواہیں اور واجبات دے دو۔ گویا پناہ گاہیں بھی پناہ مانگتی پھرتی ہیں۔ایسے میں سڑکوں پر کھلے آسمان تلے رل کر پلنے والے ان معصوموں کو پناہ گاہ کیسے میسر آسکتی ہے۔
تھانہ ‘پٹوار اور ہسپتال سے لے کر ایوان اقتدارتک کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ بے حسی‘ ڈھٹائی اور ذلت کے سارے مناظر روز اول سے لمحۂ موجود تک جوں کے توں جاری ہیں۔ جیلوں میںاسیر نہ جانے کتنے ایسے ہیں جو ہیپاٹائٹس ‘ٹی بی اور سرطان جیسے مہلک امراض لیے اپنی اسیری کے دن پورے کررہے ہیں۔ ان کے لیے ادویات اور علاج معالجہ تو درکنار صاف پانی اور محفوظ خوراک تک میسر نہیں۔ وہ بھی ان جان لیوا بیماریوں سے پناہ مانگتے ہیں ‘وہ بھی جینا چاہتے ہیں۔کیا انہیں بھی کوئی ریلیف‘ کوئی ضمانت مل سکتی ہے جس پر وہ رہائی پاکر یا دوران اسیری علاج کروا سکیں؟ہرگز نہیں‘انہیں یہ ضمانت اس لیے نہیں مل سکتی کہ ان کا تعلق اشرافیہ سے نہیں بلکہ کرموں جلے بدنصیب عوام سے ہے۔انہیں اسی گلے سڑے نظام میں سڑنا ہوگااور سڑ سڑ کر ہی مرنا ہوگا۔عوام کی سیاہ بختی کی رات اتنی تاریک اور رُلا دینے والی ہے کہ عوام بے اختیار یہ کہنے پرمجبور ہیں کہ
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
کوئی تو انصاف کرے
کوئی تو سچ بولے
کوئی تو اس سچ کو تسلیم کرے
یہ کیسا سیاہ بخت خطہ ہے کہ
جہاں کوئی ضابطہ حیات ہے
نہ ہی کسی آئین و قانون کی پاسداری
ہرطرف نافرمانی اور روگردانی کا دوردورہ ہے
نہ تو کوئی اسلامی معاشرہ تشکیل پا سکا
نہ ہی جمہوریت سے فیض یاب ہوسکے
نہ کوئی ضابطہ حیات نافذ کرسکے
اور نہ ہی کوئی ضابطہ اخلاق وضع ہوسکا
جو حشر نشر یہ حکمران مملکت خداداد کا کر چکے ہیں اس کے چلتے پھرتے شرمناک اور زندہ مناظرجا بجا ‘ ہرسو‘ صبح شام ان کی طرز حکمرانی کا منہ چڑاتے پھرتے ہیں۔ 22سال سے سماجی انصاف ‘ احتساب‘ گورننس اور میرٹ کاڈھول پیٹنے والوں پر جب وقت عمل آیا اور انہیں رب کائنات نے گورننس عطا کی تو انہوں نے رب کی اس عطا کوعوام کی خطا ہی تصور کرلیا۔ وہ خطا جو عوام نے انہیں مینڈیٹ دے کر کی تھی۔ اس خطا کی سزا عوام نہ جانے کتنے ادوار سے پہلے ہی بھگت رہے ہیںاور بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ انصاف سرکار کے راج میں آج پھر بھگتنے پر مجبور ہیں۔ گورننس کے نام پر مملکت خداداد اور اس کی مخلوق کا جو حال یہ کرچکے ہیں‘ اس سے کوئی بھی ناواقف نہیں۔ تباہی اور بربادی ہونے کے باوجود بھی میں نہ مانوں کا راگ جاری ہے۔اکثر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے چیمپئن گورننس اور میرٹ کے معنی سے بھی واقف نہیں۔
اے رب کائنات!
عادل بھی تو ہے
اور بلاتاخیر عدل بھی تو تجھ سے ہی منسوب ہے
تیری اس صفت کا اطلاق وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے
احتساب تو سزا اور جزا کے عمل کا نام ہے
اس عمل کو بھی انہوں نے آلودہ کرڈالا ہے
اپنی نیتوں سے ‘ اپنے ارادوں سے
صاف نظر آتا ہے ۔
یہ کیا کرسکتے ہیں۔
عوام کو بدحالی کے ابھی کتنے گڑھوں میں گرنا ہے؟
ذلت ‘ دھتکار اور پھٹکار کے کتنے دور ابھی باقی ہیں؟
میرے مالک!یہ تو ہی بہتر جانتا ہے
ان کی نیت بد سے شروع ہونے والا کاربد
کہاں ختم ہوگا...کب ختم ہوگا؟
کیا عوام کو اس طرز ِحکمرانی
اس گلے سڑے اورفرسودہ نظام سے
کبھی نجات مل بھی پائے گی؟
کیا عوام کو بھی ان حکمرانوں سے رہائی مل سکے گی؟
کیا یہ عوام بھی کبھی ضمانت حاصل کر پائیں گے؟
اے رب کعبہ!
تجھے شاہ مدینہ کا واسطہ
تجھے اپنی کریمی کا واسطہ
تجھے اپنی ان تمام صفات کا واسطہ
جو تمام جہانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں
کرموں جلے بدنصیب عوام کی سیاہ بختی کو خوش بختی میں بدل دے
تیرے خزانے میں کیا کمی ہے؟
انصاف سرکار کے حواسوں پہ سوار احتساب کا نشہ توہرن ہوہی چکا ہے۔ان کی شعلہ بیانیاں اور اصولی موقف بھی کھل کر سامنے آچکے ہیں ۔ ان کی طرز حکمرانی کا شکار عوام انہیں مینڈیٹ دینے کے بعد بال نوچتے اور سرپیٹتے نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رومانس میں مبتلا ہوکر جھانسہ اور دھوکا کھانے والے عوام کی حالت زار کی بھرپور عکاسی کیلئے برادرم شعیب بن عزیز کا یہ شعر حسب حال ہے۔
خبر ہم کو بھی تھی‘ مرنا پڑے گا عشق میں لیکن
ہمیں اس نے توقع سے زیادہ مار ڈالا ہے