قومی اخبارات کی پرانی فائلوں کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ اگست 2014ء کے ایک اخبار پر نظر اٹک کر رہ گئی۔ آئیے قارئین اس اخبار کے صفحہ اوّل کی شہ سرخی اور کچھ دیگر سرخیوں کی طرف چلتے ہیں۔ عمران خان کے حوالے سے شہ سرخی کچھ اس طرح ہے ''میرا دِل چاہتا ہے کہ وزیر اعظم کو گریبان سے پکڑ کر باہر پھینک دوں... یہ پارلیمنٹ جعلی ہے... میں سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ گیس، بجلی، پانی کے بل اور ٹیکسوں کی ادائیگی بند کر دیں... حکومت کو دو دِن کی مہلت دیتے ہیں... وزیر اعظم اگر مستعفی نہ ہوئے تو کارکن میرے کنٹرول میں نہیں رہیں گے... ملکی عدالتیں، سول بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین خود کو نواز شریف کی ملازمت سے آزاد کرائیں‘‘۔ یاد رہے عوام کو سول نافرمانی پر اکسانے کے بعد عمران خان نے اپنا بِل بروقت جمع کروا دیا تھا۔ عمران خان صاحب کی شعلہ بیانی پر جواب آں غزل کے طور پر اس وقت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار اور وزیراطلاعات پرویز رشید سمیت کئی وزراء نے سول نافرمانی کی اس کال کو غیر قانونی اور بغاوت کے مترادف قرار دیا تھا۔
اسی روز کے اخبار میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے حوالے سے بھی ایک سرخی جمائی گئی کہ حکومت بس چند گھنٹوں کی مہمان ہے‘ جبکہ ایک اور سرخی میں وزیراعظم نواز شریف اپوزیشن پر واضح کر رہے ہیں کہ ''جمہوریت کا تحفظ ہر صورت کیا جائے گا‘‘۔ شہ سرخی کے عین نیچے سنگل کالم باکس میں عمران خان آئی جی پنجاب کو للکارتے ہوئے واضح کر رہے ہیں کہ ''اگر تم نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو رہا نہ کیا تو تمہیں نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ قارئین یہ نمونے کی چند سرخیاں شیئر کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگست 2014ء کی شعلہ بیانیوں کا دورِ حاضر سے موازنہ کریں تو سوائے کرداروں کے کچھ بھی تو نہیں بدلا... وہی مشقِ ستم تاحال جاری ہے۔ میوزیکل چیئر کے کھیل کی طرح کرسی پر براجمان آج کھڑے اور کرسی کے گرد بھاگتے نظر آتے ہیں جبکہ اس دور میں کرسی کے گرد بھاگنے والے آج کرسیوں پر بیٹھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ گویا: ؎
دو چار دن کی بات اگر ہو تو سہہ بھی لوں
ہوتی ہے روز مشقِ ستم دیکھتا ہوں میں
حالیہ ایک کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ ہسپتال، تھانہ اور پٹوار سے لے کر ایوانِ اقتدار تک کچھ بھی تو نہیں بدلا... اگر کہیں بدلے ہیں تو صرف چہرے بدلے ہیں۔ بھاشن وہی ہیں... بھاشن دینے والے اور سننے والے بدل گئے ہیں... تماشا وہی ہے... شائقین اور تماشبین بدل چکے ہیں... آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے نعرے آج بھی وہی ہیں لیکن ان کے کردار، اہداف اور مقام بدل چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں میں جو مطالبات نواز شریف سے کیے جاتے تھے آج وہی مطالبات انصاف سرکار سے کیے جارہے ہیں۔ کل تک تحریک انصاف نوازشریف کے استعفے پر بضد تھی تو آج فضل الرحمن آزادی مارچ کی کال دے کر عمران خان کے استعفے پر اصرار کر رہے ہیں۔ نواز شریف بھی استعفیٰ دینے سے انکاری تھے اور عمران خان بھی کسی صورت نہیں مانیں گے۔
البتہ ایک کریڈٹ وزیراعظم عمران خان کو ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے دھرنوں کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ وہ نواز شریف کو رولیں گے بھی اور رُلائیں گے بھی... اور ان کو مکافاتِ عمل سے گزر کر کڑے احتساب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ پھر سب کچھ وہی ہوا جو عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا تھا۔ انہوں نے نواز شریف کو رولا بھی اور رُلایا بھی... لیکن نواز شریف کو رُلاتے رُلاتے انہوں نے عوام کی بھی چیخیں نکلوا دیں۔ یہ درد ناک چیخیں اس قدر تکلیف دہ تھیں کہ عوام بے اختیار رو پڑے۔ اب یہ عالم ہے کہ عوام کہیں سسکتے نظر آتے ہیں... تو کہیں بلکتے... بے چارے عوام کو کیا معلوم کہ نوازشریف کو رولنے اور رُلانے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان انہیں بھی رول رول کر رُلائیں گے۔
عوام یہ کب جانتے تھے کہ نوازشریف کو رولنے اور رُلانے کی قیمت خود انہیں ادا کرنا پڑے گی۔ یہ سودا انہیں بہت مہنگا پڑاہے۔ نوازشریف کو تو سرکار اور عدالتیں کچھ ریلیف دینے پر آمادہ نظر آتی ہیں لیکن عوام کے لیے ریلیف نام کی کوئی شے دور دور تک دِکھائی نہیں دیتی۔ عوام کے حالات بدلنے اور سماجی انصاف آنکھوں سے ہوتا دیکھنے کا خواب بالآخر جھانسہ ثابت ہوا اور صورتحال کچھ یوں بنی کہ: ؎
سنبھلنے کے لیے گرنا پڑا ہے
ہمیں جینا بہت مہنگا پڑا ہے
کنٹینر پر سوار لوگ ٹوٹے ہوئے آئینے میں خود کو جابجا اور ہرسو دیکھ کر خود ہی نہال ہوتے رہے اور اُن کے اردگرد موجود چیمپئنز کی مہارت اور صلاحیتیں جماعت کے چہرے پر خراشیں ہی ثابت ہوئیں۔ اب یہ عالم ہے کہ: ؎
آئینے کے سو ٹکڑے کرکے ہم نے دیکھے ہیں
ایک میں بھی تنہا تھے سو میں بھی اکیلے ہیں
شاید صورتحال یہ ہے کہ جناب عمران خان اپنے جس ویژن اور عزم کو لے کر تبدیلی کے جس سفر پر نکلے تھے اس میں وہ کل بھی تنہا تھے اور آج بھی اکیلے ہی نظر آتے ہیں۔ اردگرد پائے جانے والے سارے چیمپئنز اپنے اپنے ایجنڈے اور اپنے اپنے مفادات کے ہاتھوں مجبور دِکھائی دیتے ہیں۔ زرداری اور نواز شریف پر اقرباء پروری، سرکاری وسائل اور عہدوں کی بندر بانٹ پر سخت واویلا کرنے والی تحریکِ انصاف نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کون سے وائٹ پیپر نہیں لہرائے؟ گورننس اور میرٹ کا کون سا نوحہ نہیں پڑھا؟ وہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی عوام دشمن پالیسیوں پر مبنی ساری وارداتیں عوام کو گھنٹوں سنایا کرتے تھے۔
انتہائی افسوس کہ جونہی انصاف سرکار بنی تو سارے دعوے اور سارے وعدے محض لارے ہی ثابت ہوئے۔ نہ تو میرٹ رائج ہوا اور نہ ہی مثالی گورننس قائم ہوئی۔ اقرباء پروری کے کوٹے کو ذاتی رفقاء اور مصاحبین سے کوٹ کوٹ کر ایسے بھرا گویا ملک بھر میں اِن سے بڑا نہ تو کوئی سقراط ہے اور نہ ہی کوئی بقراط۔ وزارتوں سے لے کر اہم ترین اداروں تک ‘ سب پر انہیں مصاحبین کی اجارہ داری اور انہیں کا دور دورہ ہے‘ جنہوں نے تحریک انصاف کے دعوؤں اور وعدوں سے متصادم پالیسیوں اور غیر مقبول اقدامات کے ساتھ بیڈ گورننس کے سارے ہی ریکارڈ... ریکارڈ مدت میں توڑ ڈالے۔ اکثر معاملات میں صرف بریفنگ اور ڈی بریفنگ پر فیصلے کر ڈالنے والے وزیراعظم کو معلوم ہی نہیں کہ ان کو بریف اور ڈی بریف کرنے والے انہی کے چیمپئنز کس ایجنڈے پر کاربند ہیں اور ان سے کروائے جانے والے فیصلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کی قیمت صرف انہیں کو ادا کرنا پڑے گی کیونکہ اس سارے کھیل میں واحد سٹیک ہولڈر وہ خود ہیں۔ باقی سارے چیمپئنز تو جیسے میلے میں آئے ہوئے ہیں۔ کوئی پنگھوڑے پر سوار ہے تو کوئی قتلمے پہ ہاتھ صاف کر رہا ہے۔ کوئی سرکس انجوائے کر رہا ہے تو کوئی موت کے کنوئیں میں ہونے والے ایڈونچر پر تالیاں بجا رہا ہے۔ الغرض یہ سارے ہی بینی فشری ہیں۔ یہ کل بھی بینی فشری تھے اور آج بھی بینی فشری ہیں۔
وزیراعظم سے بریفنگ اور ڈی بریفنگ پر فیصلے کروانے والے چیمپئنز کی تازہ ترین واردات پیش خدمت ہے۔ سرکاری نشریاتی اداروں کو بی بی سی طرز پر چلانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ جس میں اختیارات اور مراعات تو بی بی سی کے ماڈل کے مطابق ہوں گی لیکن ''کانٹینٹ‘‘ درباری ہو گا۔ اس واردات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان چیمپئنز کو بڑی جدوجہد کرنا پڑی۔ بالآخر مصاحبین اور ذاتی رفقاء کی ٹیم اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ پی ٹی وی جیسے تاریخی ورثے کو مفادات کے ماروں کے حوالے کرنا ایسا ہی ہے جیسے دودھ کی رکھوالی پر بلی کو بٹھا دیا جائے۔ اس واردات کے بینی فشری کون ہیں اور ان کے عزائم کیا ہیں؟ اس بارے میں سبھی واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں لیکن 'جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ کے مصداق شاید وزیراعظم ہی نہیں جانتے حالانکہ وہ سارے وزیراعظم کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح ریڈیو پاکستان کی زمینوں کو اونے پونے لیز پر دینے سے لے کر ریڈیو کے سروس سٹرکچر کو مخصوص اور منظورِ نظر ملازمین کے مفادات کی بھینٹ چڑھانے اور دیگر بے ضابطگیاں اور بدعنوانیاں اس تاریخی ادارے کو ہی بربادی سے دوچار کر چکی ہیں جبکہ چیمپئنز مزید ہاتھ صاف کرنے کے لیے بے چین دِکھائی دیتے ہیں۔