حکمران ہوں یا افراد‘ غلطیوں سے نہیں ‘بلکہ غلطیوں پر اصرار اور ضد کی وجہ سے تباہ ہوتے ہیں۔ غلطیوں پر ڈھٹائی اورضدبہتری اور واپسی کے تمام راستے نہ صرف محدود اور مسدود کردیتی ہے ‘بلکہ وہاں سے بچ نکلنے کاکوئی امکان اور کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ مملکت خداداد کو اسلام کا قلعہ ثابت کرنے کی تگ و دو میں ہم دینِ اسلام کے ساتھ کیا کچھ کر چکے ہیں۔اس تگ و دو میں دین محمدی پر کیا گزری ہے۔مذہب کے نام پر کیسی کیسی واردات ‘ کیسا کیسا استحصال اور کونسا جھانسہ نہیں دیا گیا۔ جنرل ضیاالحق کے دور سے لے کر دور حاضر تک یہ سلسلہ جوں کا توں اور جاری و ساری ہے۔نظام مصطفی کا نفاذ اور شریعت کی بالادستی ضیاالحق کا مین مینیو تھااور اب ریاست مدینہ کو انصاف سرکار اپنی طرز حکمرانی کا ماڈل ثابت کرنے پر بضد ہے۔
نظام مصطفی کے نفاذ کے نام پر کونسا جھانسہ اورفریب اس قوم کو نہیںدیا گیا۔ تذلیل انسانیت سے لے کر بنیادی حقوق کی پامالی تک اور مذہب کے نام پر استحصال سے لے کر فرقہ واریت تک سارے مناظر ضیاالحق کے عرصۂ اقتدار میں جابجا نظرآتے تھے۔اسی گیارہ سالہ دورِ اقتدار میں خوشامدیوں اور درباریوں کی جو کھیپ تیار کی گئی وہ اس ملک و قوم کے نصیب میں ایسے لکھے گئے کہ پھر کوئی ضابطہ رہا نہ اخلاق۔نہ کسی قانون کو عملداری نصیب ہوئی ‘نہ کسی آئین کا نفاذ۔ سبھی کی شکل کچھ اس طرح بگاڑدی گئی کہ مفادات کے ماروں نے اپنی آسانیوں اور موج مستی کے عین مطابق ڈھالنے کے لیے نا صرف قانون کے پر کترے بلکہ اخلاقیات سے لے کر سماجیات تک سبھی قدروں کو اپنی ترجیحات اور خواہشات کے تابع کر ڈالا۔آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھنے والے ضیاالحق نے دہر ے معیار اور من مرضی کے قانون اور ضابطے اس طرح پروان چڑھائے کہ پورے معاشرے کی شکل ہی بگڑ کر رہ گئی۔
اخلاقی و سماجی قدروں کی پامالی کے بعد خوشامداور جی حضوری کی ایسی پنیری لگائی کہ ایک سے بڑا ایک خوشامدی اور موقع پرست فیصلہ سازی اور گورننس کے لیے اسمبلیوں کی زینت بنا دیا گیا۔اسی پنیری کے نتیجے میں پکنے والی فصل کاٹتے کاٹتے نہ صرف بدحال ہوچکے ہیں بلکہ اس فصل میں پایا جانے والا مہلک وائرس عوام کی کئی دہائیاں کھا چکا ہے۔ضیاالحق دور سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ضیا کے دور میںنظام مصطفی کے نام سے شروع ہونے والا حیلہ اب انصاف سرکار ریاست مدینہ کے نام سے متعارف کروا چکی ہے ‘جبکہ ملک کے طول وعرض میں پائے جانے والے انصاف سرکار کے چھوٹے بڑے سارے چیمپئنز بھی اکٹھے کر لیے جائیں تو ان سب کی فراست و بصیرت ریاستِ مدینہ کے کسی غلام کے پائوں کی دھول سے بھی صدیوں دور پائی جاتی ہے۔عمل تو کہیںدور کی بات ٹھہری‘سماجیات اور معاشیات سے کہیں زیادہ اہم مسئلہ ان کی اخلاقیات اور نیت کا ہے۔
خدا جانے وزیراعظم عمران خان نے ریاست مدینہ کو کس چشم تصور سے دیکھنے کے بعدگورننس اور فیصلہ سازی کی باگ ڈور اپنے مصاحبین اور ذاتی رفقا کو سونپی ہے۔ وزارتوں سے لے کر اہم ترین قومی اداروں میں بندر بانٹ اور لوٹ کھسوٹ ‘ریاست مدینہ کا کونسا ماڈل اور کونسے تصور کا استعارہ ہے؟ خلیفہ وقت کے بیٹے کو کاروبار کے لیے قرض دینے والے گورنر کی جواب طلبی بھی خلیفہ خود کرے کہ تم نے میرے بیٹے کو قرض اس لیے دیا ہے کہ وہ خلیفہ کا بیٹا ہے۔ایسے میں بیٹے کے ساتھ ساتھ خلیفہ کی بھی جواب طلبی اور سرزنش صرف ریاست مدینہ ہی کا خاصا ہے۔ جس ریاست مدینہ کے بیت الما ل میں کھجوروں اور اناج کے ایک ایک دانے کا حساب رکھا جائے اس ریاست مدینہ کو انصاف سرکارکس طرح بطورِ ماڈل استعمال کررہی ہے؟نعیم الحق سے لے کر اعظم خان تک‘زلفی بخاری سے عامر کیانی اور پرویز خٹک تک ۔ارشد خان اور راشد خان سے لے کر دیگر درجنوںمصاحبین کی انصاف حکومت میں پوزیشنز ریاست مدینہ کے نظام عدل کی نفی کے لئے کیا کافی نہیں؟ریاست مدینہ میں بیت المال پر کس خلیفہ نے کنبہ پروری کی؟ یہاں تو مصاحبین سے لے کے ذاتی رفقا تک سبھی سرکاری وسائل پر پل رہے ہیں۔انصاف سرکار کا یہ طرزِ حکمرانی ریاست مدینہ کا کونسا ماڈل ہے؟
یوں لگتا ہے کہ عوام سے کوئی پرانی رقابت یا دشمنی نکالی جارہی ہے۔ ''رائٹ مین فار رائٹ جاب ‘‘کا تصور وفات پاچکا ہے۔126دن اسلام آباد کے شہریوں کو یرغمال بنا کر سسٹم کو لاک ڈائو ن کرنے والے‘ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے تیسرے روز ہی اسے غیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔پی ٹی وی پر یلغار کرنے والے آج ریاست کی طاقت استعمال کرنے کی دھمکیاںدیتے نظر آتے ہیں۔اپنے دھرنوں میںاشتعال اور للکار سے بھری تقریریں کرنے والے آج مولانا فضل الرحمن کی تقریروں کو بغاوت ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔سرکاری افسران کو عبرت کا نشان بنانے کی دھمکیوں سے لے کر یوٹیلٹی بلز جلا کر سول نافرمانی کی کال دینے والے قائد تحریک انصاف آج وزیراعظم بن کر بھی جھنجلاہٹ اورپشیمانی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔مولانا نے حکومتی چیمپئنز کی طرف سے ہرزہ سرائی کرنے والوں کو گالم گلوچ بریگیڈ قرار دیا ہے‘ جبکہ آزادی مارچ میں طالبان کے جھنڈے لہرانے کا مقصد ایک واضح اشارہ ہے کہ طالبان سے رابطے اور معاملات طے کرنے کا واحد راستہ صرف ہمارے پاس ہے۔
یہ وہ صورتحال ہے ‘جس نے پہلے سے ہی نازک ملکی صورتحال کو مزید ضربیں لگاکر بدحال اور نڈھال کردیا ہے‘ جبکہ ملک بھر میں بحث جاری ہے کہ دھرنا کامیاب ہوگا یا ناکام؟ مولانا اپنے اہداف حاصل کرپائیں گے یا نہیں؟اس سارے تماشے میں اگر کسی نے کچھ کھونا ہے‘ تو وہ صرف حکومت ہے۔ مولانا حکومت کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ وہ اس صورتحال کا سیاسی حل نکالنے کے بجائے ریاست کی طاقت کے استعمال کا واضح اشارہ دے چکی ہے۔طاقت کا استعمال صرف انہی حالات میں ناگزیر ہوتا ہے جب دیگر آپشنز ختم ہوجائیں۔گو حکومت سارے آپشن کھو چکی ہے اور اس وقت واحد سٹیک ہولڈر بن چکی ہے‘اس صورتحال کو اس نہج پر لانے میں حکومتی چیمپئنز کی زبان و بیان ‘شعلہ بیانی اور اشتعال انگیزی کو برابر کا کریڈٹ جاتا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ؎
کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے
پانی کو اب سرسے گزر جانا چاہیے
ماضی کے ادوار ہوں یا دور ِحاضر‘یہ مجہول سیاست جوں کی توں جاری رہے گی ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کرداراور چہروں کے سوا نہ کچھ بدلا ہے اور ہی کچھ بدلتا نظرآرہا ہے۔ سیاہ بختی اور بدنصیبی کا دور یونہی چلتا رہے گا۔ ایک تلخ اور چشم کشا صورتحال سے نہ کسی سابق حکمران نے کچھ سیکھا ہے اور نہ ہی موجودہ حکمران کچھ سیکھنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ہر چیز فانی اور ختم ہوجانے والی ہے۔ تخلیقِ حضرتِ انسان سے لے کر عروج و زوال تک کچھ بھی حتمی اور مستقل نہیں۔سب عارضی اور فانی ہیں۔پیدائش سے موت کا سفر ہی اختتام کی ابتدا ہے‘ یعنی Beginning of the End ۔کائنات کا ہر عمل اسی کے گردگھومتا ہے۔اقتدار کے مزے لوٹنے والوں سے لے کر ایوان ِاقتدار تک ہر چیز لمحۂ ابتدا سے لے کراپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہوجاتی ہے‘ یعنی پیدائش پر پہلا سانس لینے والے بچے کا دوسرا اور تیسرا سانس اس کی موت کے سفر کا سنگ میل ہوتا ہے۔اقتدار ہو یا اختیار ‘شروع ہوتے ہی اختتام کی طرف دوڑا چلا جاتا ہے۔اس کو مستقل اور دائمی سمجھنے والے اسی طرح سر پیٹتے رہ جاتے ہیں جیسے ہمارے ماضی کے حکمران آج مکافاتِ عمل کی چلتی پھرتی تصویریں بن کر دور ِحاضر کے حکمرانوں کے لیے عبرت اور نصیحت کی واضح مثال ہیں۔انصاف سرکار کا ایک سال جیسے تیسے گزر چکا ہے ۔ گزرا ہوا یہ سال اقتدار کے اختتام کا سنگ میل ہے‘ یعنی اقتدار کا پہلا دن ہی Beginning of the Endتھا۔اب یہ ذمہ داری انصاف سرکار کی طرزحکومت اور ان فیصلہ ساز چیمپئنز پر عائد ہوتی ہے جنہیں وزیراعظم گورننس کی باگ ڈور سونپ چکے ہیں‘کہ وہ اس اختتام کایہ سفر پر اپنے طے شدہ اور مقررہ وقت پر مکمل کریں گے‘ یا یہاں بھی عجلت اور جلد بازی کا مظاہرہ جاری رکھیں گے؟