بھرپور کوشش کے باوجود مجہول سیاست سے نہیں بچ سکا۔ آج پکا ارادہ تھا کہ سیاست کے بجائے سماجیات اور معاشرے کے دوسرے پہلوئوں پر بات کریں گے لیکن کیا کریں‘ پورے سماج پر تو اس مجہول سیاست کے آسیب کا سایہ اس طرح چھایا ہوا ہے کہ اس سے بچ کر نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن نظر آتا ہے۔ پورا معاشرہ ہی سیاسی ہو کر رہ گیا ہے۔ اس آسیب کے اثرات نے سبھی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گویا ہر شے بری طرح سیاست میں لتھڑ چکی ہے۔ اخلاقیات سے لے کر سماجیات تک‘ گورننس اور میرٹ سے لے کر معاشیات تک ہر طرف سیاست ہی سیاست نظر آتی ہے۔
کہیں آصف علی زرداری کے دِل کی دھڑکنیں سنبھلنے میں نہیں آ رہیں تو کہیں نواز شریف کے پلیٹ لیٹس ہیں کہ قابو میں نہیں آ رہے۔ صبح گرتے ہیں تو شام کو بڑھ جاتے ہیں اور شام کو گرتے ہیں تو صبح بڑھ جاتے ہیں۔ یعنی 'اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘ والا معاملہ کئی دنوں سے جاری ہے‘ لیکن اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہیں رہا۔ ان کے پلیٹ لیٹس مستحکم نہ ہونے کی وجوہات جاننے کے لئے ڈاکٹر صاحبان نے جنیٹک سٹڈی کا ٹیسٹ تجویز کیا ہے۔ اس ٹیسٹ کی سہولت تو پاکستان میں میسر نہیں؛ تاہم ان کے نمونے بیرون ملک بھجوائے جائیں گے تو حتمی تشخیص ہو سکے گی۔
خیر یہ تو ہمارے ان سماج سیوک نیتائوں کی وہ صورت حال ہے جس سے وہ آج کل دوچار ہیں۔ ہمارے یہ نیتا جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو بیماری ڈر کے مارے ان کے قریب نہیں پھٹکتی۔ آنیوں جانیوں سے لے کر کھابا گیری تک سارے معاملات زور و شور سے جاری رہتے ہیں۔ لیکن جونہی یہ اقتدار سے باہر آتے ہیں انہیں بیماریاں کچھ اس طرح گھیر لیتی ہیں گویا اقتدار نہ ہُوا کوئی سیف گارڈ ہو گیا۔ اقتدار میں نہ تو یہ بیمار ہوتے ہیں اور نہ ان کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کے ہاتھوں پہ رعشہ طاری ہوتا ہے۔ جس ملک میں ہسپتالوں کے دروازے عوام کے لئے بند ہوں اور جہاں جاں بلب مریضوں کے ہزاروں آپریشن ملتوی ہونے سے ان کی زندگیوں کو لاحق خطرات ہر لمحہ بڑھتے جا رہے ہوں‘ اُس ملک کے سماج سیوک ان نیتائوں کے پلیٹ لیٹس، بلڈ پریشر، شوگر اور دل کی دھڑکنوں کو کس توجہ اور جانفشانی سے مانیٹر کیا جا رہا ہے کہ دیکھنے سننے والوں کو رشک آنے لگتا ہے۔
بلاول بھٹو بھی اپنے والد گرامی کی صحت کی حوالے سے انتہائی فکر مند اور واویلا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کو خدانخواستہ اگر کچھ ہُوا تو اس کی ذمہ دار انصاف سرکار ہو گی۔ کوئی اُنہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ سندھ بھر کے ہسپتالوں میں علاج معالجہ تو درکنار کتے کے کاٹے کی ویکسین تک میسر نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس عدم دستیابی کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے؟ کراچی بھر میں آوارہ کتوں کا راج ہے۔ روزانہ ہسپتالوں میں ویکسین کے لئے آنے والے مریضوں کو نا مراد ہی لوٹا دیا جاتا ہے۔ دو روز قبل کراچی میں ہی 6 بچوں کے باپ اور گھر کے واحد کفیل کو کتے نے کاٹا تو وہ دو ہسپتالوں کے درمیان ویکسین کے لئے فٹ بال بنا رہا۔ مسیحا یہاں بھی ڈنڈی مارنے سے باز نہ آئے۔ ویکسین تو مل گئی لیکن اس کی آدھی خوراک لگا کر مریض کو گھر بھجوا دیا گیا۔ ادھورا علاج اُسے جانبر نہ کر سکا اور وہ اپنے بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سویا۔
اپنے والد صاحب کی صحت کے لئے واویلا کرنے والے بلاول بھٹو صاحب ہی بتائیں کہ سڑکوں پر آوارہ کتوں کا شکار بن کر ہلاک ہونے والے شہریوں کے لواحقین کس کا گریبان پکڑیں‘ کس سے فریاد کریں؟ کس در پر جا کر دہائی دیں۔ کیا علاج معالجہ کی تمام سہولیات آصف زرداری اور دیگر اشرافیہ کے لئے ہی مختص ہیں۔ جو سہولیات جناب آصف علی زرداری کو ہسپتال میں دی جا رہی ہیں‘ ان کا صدقہ سمجھ کر ہی کتے کے کاٹے کی ویکسین ہسپتالوں میں رکھوا دیں تاکہ گھر سے کام کاج کے لئے نکلنے والے ناحق موت کا شکار نہ ہوں۔
نواز شریف اور زرداری کی بیماری ہو یا مولانا فضل الرحمن صاحب کا آزادی مارچ... یہ تماشہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ نواز شریف کے بعد ان کی صاحبزادی کو بھی ضمانت پر رہائی مل چکی ہے۔ آج نہیں تو کل زرداری بھی انہیں گرائونڈز پر باہر آ سکتے ہیں۔ نہ تو عوام کو ان آوارہ کتوں سے نجات ملے گی اور نہ ہی ہسپتالوں میں ویکسین دستیاب ہو گی۔ ہسپتالوں میں جان لیوا ہڑتالیں سابقہ ادوار میں بھی ہوتی تھیں اور آج بھی مزید شدت سے جاری ہیں۔ عوام کی سیاہ بختی کا یہ سلسلہ جوں کا توں ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ پورا ملک ایک ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ معیشت سے لے کر عوام کی قسمت تک سب پر جمود طاری ہے۔ سیاسی اشرافیہ ہو یا افسر شاہی ان کی کرپشن کی ہوش ربا داستانوں پر مشتمل فائلوں کے انبار ہونے کے باوجود کوئی کیس نتیجہ خیز نظر نہیں آتا۔ خوشحالی اور معیشت کی بحالی کے دل فریب جھانسے اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ اور کتنا عرصہ عوام کو بیوقوف بنا کر ان کے جذبات اور نفسیات سے کھیلا جائے گا؟
سانپ سیڑھی کا یہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟ جھانسے اور خود فریبی پر مبنی خوشحالی کی گوٹی جب 98 سے 16 پر آتی ہے تو عوام پر کون کون سی بجلیا ں گرتی ہیں‘ یہ صرف عوام ہی جانتے ہیں۔ مایوسی اور نا اُمیدی کے مزید کتنے گڑھے باقی ہیں جن میں عوام کو ابھی گرنا ہے۔ انتہائی تشویش کا مقام ہے کہ گرفتاریوں اور ٹرائل کے باوجود وصولی صفر ہے۔ تفتیش اور فائل ورک اگر ٹھوس بنیادوں پر ہے تو ملزمان اپنے انجام سے دور کیوں ہیں؟ دھرنوں اور انتخابی تحریکوں میں حکومت وقت کے جو وائٹ پیپر لہرائے جاتے تھے‘ گھنٹوں اُن کی کرپشن کی داستانیں سنایا کرتے تھے‘ آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ انصاف سرکار وہ تمام دعو ے اور وعدے پورا کرنے میں ناکام ہو کر تھک چکی ہے‘ اور اب تمام اُمیدیں دم توڑتی نظر آتی ہیں۔
سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف تفتیش اور تحقیق پر اُٹھنے والے اخراجات سوالیہ نشان بنتے جا رہے ہیں۔ بھاری اخراجات اور وسائل کے باوجود وہ ریکوریاں کیوں نہ ہو سکیں جن کا دعویٰ تحریک انصاف نے برسر اقتدار آنے سے پہلے کیا تھا۔ کیا یہ قوم اتنا مہنگا احتساب برداشت کرنے کے قابل ہے کہ اخراجات کروڑوں میں اور نتیجہ صفر۔ موجودہ حالات میں یہ سبھی کچھ انتہائی تکلیف دے اور ناقابل برداشت بھی ہے۔ ماضی میں قوم کو گمراہ کن وعدوں اور دعووں سے پہلے ہی بہت بہلایا جا چکا ہے۔ قوم کا پیسہ ایسے کام پر ہرگز نہ لگایا جائے کل جس کا حساب دینا ممکن نہ ہو۔ اور احتساب قوم کو اتنا مہنگا نہ پڑ جائے کہ ملک و قوم کا بے دریغ پیسہ لوٹنے والے سارے زیر احتساب سستے چھوٹ جائیں اور قوم کا بچا کچا اعتماد و یقین بھی کہیں بکھر کر رہ جائے۔ ملکی اداروں کی ساکھ ہی اس قوم کی آخری اُمید تھی۔ اگر یہ رہی سہی اُمید بھی ٹوٹ گئی تو سب کچھ ہی ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔ رہی بات کارکردگی اور نیتوں کی تو اس کا بھرم تو ایک سالہ دور اقتدار میں ہی ٹوٹ چکا ہے۔ گورننس اور حکمت عملی کے ڈھول کا پول تو کب کا کھل چکا ہے۔ یقین جانئے‘ بخدا یہ ملک اب واقعی اور سچی مچی مشکل ترین... نازک ترین... اور سنگین ترین صورت حال سے دوچار ہو چکا ہے۔ اس صورت حال کی سنگینی کا احساس کرنا اور ہوش کے ناخن لینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ برسر اقتدار آنے کے بعد کئے گئے غیر مقبول اقدامات کی قیمت اب کڑے فیصلوں کی صورت میں ادا کرنا پڑ سکتی ہے اور کڑے فیصلے کر کے ہی اس کڑی آزمائش اور کشمکش سے نکلا جا سکتا ہے۔