"AAC" (space) message & send to 7575

ڈیل ڈھیل اور نیل

کرتارپور راہداری پر پاکستان کی رواداری سے لے کر بابری مسجد پر بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ فیصلے تک...نواز شریف کی بیماری پر حکومتی وضع داری سے لے کر زرداری کے دورانِ اسیری بیماری کے ڈراپ سین تک... مولانا فضل الرحمن کے دو ٹوک مطالبوں سے لے کر حکومتی ردعمل اور حکمت عملی تک... سبھی موضوعات اہم اور قلم آرائی پر اُکسانے کے لیے کافی ہیں۔ آج انہیں موضوعات کے درمیان آوارگی کرتے ہیں۔ 
دو روز قبل پاکستانی حکومت کرتارپور راہداری سکھوں کے لیے کھول کر انہیں آزادانہ مذہبی رسومات ادا کرنے کی افتتاحی تقریب کی میزبانی میں مصروف تھی‘ عین اسی روز مخصوص ہندو ذہنیت کی ماری بھارتی سپریم کورٹ نے ایودھیا کے مقام پر 22سال قبل ہندوؤں کے ہاتھوں شہید ہونے والی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ سنا رہی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ دراصل کرتارپور راہداری کھولنے کے اقدام کا ردعمل اور مودی سرکار کی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 
بھارت کی مودی سرکار بخوبی جانتی ہے کہ کرتارپور راہداری کھلنے کے دور رس نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ بھارت کو اُن وسوسوں اور خدشات سے بھرے اس خوف نے آن گھیرا ہے‘ جس کے سائے راہداری کھلتے ہی اور لمبے ہو گئے ہیں۔ بھارت کا یہی خوف اور دھڑکا اس کے اندرونی انتشار اور جغرافیائی تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہے‘جبکہ سکھوں نے بھی بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے تعصب بھری مودی سرکار کی ہندوانہ ذہنیت کا نمونہ قرار دیا ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے دنوں میں کرتارپور راہداری کھولنا دنیا بھر میں پاکستان کو نا صرف ممتاز کر چکی ہے‘ بلکہ سفارتی محاذ پر بھاری پوائنٹ سکورنگ کا باعث ہے۔ 
کرتارپور راہداری پر پاکستان کی رواداری نے دنیا بھر کے سکھوں کو وزیراعظم عمران خان کا گرویدہ کر دیا ہے۔ وہ شدتِ جذبات سے سرشار ہو کر عمران خان اور پاکستان کے گیت گاتے نظر آتے ہیں۔ سکھوں کے اس رویے سے مودی سرکار کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں‘ جبکہ منافق اور مکار مودی بھی فیس سیونگ کے لیے کرتارپور راہداری کھولنے پر وزیراعظم عمران خان اور پاکستان کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ جواباً عمران خان نے مودی کو بھی دعوت دی ہے کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ترک کر ے اور اس مسئلے کو حل کر کے نہ صرف خطے میں امن و استحکام قائم کرے‘ بلکہ ہمیں بھی شکریہ کا موقع فراہم کرے۔ 
بھارت سے آئے نوجوت سنگھ سدھو نے بھی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کو تاریخ ساز حکمران قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا دل سمندر ہے اور انہوں نے کرتارپور راہداری کھول کر دنیا بھر کے سکھوں کو اس میں سمو لیا ہے۔ سدھو کے جذبات اور پرجوش خطاب میں بعض فقروں کو معنی خیز اور استعارہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے عمران خان پر واضح کیا ہے کہ آنے والا وقت بتائے گا کہ سکھ برادری‘ وزیر اعظم عمران خان کے اس فراخدلانہ فیصلے کی لاج کیسے رکھے گی۔ 
کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب سے وزیراعظم عمران خان کا خطاب اس حوالے سے بھی تاریخ ساز اور منفرد تھا کہ وہ بیک وقت پاکستان اور ہندوستانیوں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہیں سننے اور دیکھنے والے دونوں ملکوں کے عوام تھے۔ سدھو نے اس راہداری کو جادو کی جپھی کا چمتکار قرار دیتے ہوئے یاد دلایا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری کے موقع پر جب وہ آئے تو پہلی جپھی میں ہی انہوں نے عمران خان اور جنرل باجوہ سے اس راہداری کو کھولنے کی فرمائش کی تھی۔ اس فرمائش کا دونوں نے ہی احترام کیا اور سکھ برادری کے مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہوئے ریکارڈ مدت میں وہ کر دکھایا جو 72سالوں میں نہ ہو سکا۔ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے سکھ عمران خان کے اس اقدام کو قدراور عقیدت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ راہداری بھارت میں زیر عتاب اقلیتوں کے لیے وہ روشندان ثابت ہوگا‘ جس سے آنے والی روشنی اور ہوا ان زیر عتاب اقلیتوں کی آزادی اور خود مختاری کی جدوجہد میں سنگ میل ہو سکتی ہے۔ 
نوازشریف کی بیماری پر انصاف سرکار وضع داری اور تیمارداری کے سبھی ریکارڈ توڑتی نظر آتی ہے۔ ادارے بھی بدلے بدلے نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں شہباز شریف کی حکمتِ عملی اور معنی خیز آنیاں جانیاں نتیجہ خیز ثابت ہو چکی ہیں۔ آئندہ سیاسی منظرنامے پر مسلم لیگ نواز مسلم لیگ شہباز بنتی نظر آرہی ہے۔ شیخ رشید کو سال بھر سے واویلا کر رہے ہیں کہ جس منسٹر کالونی میں وہ رہائش پذیر ہیں وہاں شہباز شریف کس طرح قیام کر سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی برملا کہتے رہے ہیں کہ شہباز شریف کی گوٹی فٹ ہو چکی ہے وہ کبھی پروڈکشن آرڈر پر تو کبھی ضمانت پر آزادانہ پھرتے نظر آرہے ہیں۔ 
نواز شریف اور مریم صفدر کی رہائی اور حکومتی وزرا کی طرف سے خیر سگالی کے ریکارڈ توڑ بیانات کو ڈیل اور ڈھیل بھی کہا جارہا ہے۔ خدا جانے یہ ڈیل ہے یا ڈھیل‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ جوکچھ بھی ہے انصاف سرکار کے دعوؤں‘ بیانوں اور طرزِ حکمرانی پر ''نیل‘‘ ضرور ہے۔ نیل بھی ایسا کہ ا س کے نشان اور اثرات نہ تو یہ کسی کو بتاسکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو دکھاسکتے ہیں۔ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے ہمراہ بیرون ملک جائیں گے اور چند دن قیام کر کے واپس لوٹ آئیں گے‘ تاکہ دیگر معاملات نمٹا سکیں۔ 
شیخ رشید کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری بھی پلی بارگینگ کے نتیجے میں ملک چھوڑ جائیں گے اور اس طرح سارا بڑا کوڑا ملک سے باہر چلا جائے گا اور ملک و قوم کو سکھ کا سانس نصیب ہوگا۔ شیخ رشید کو یہ خوش فہمی نجانے کیوں لاحق ہے کہ نواز اور زرداری کے باہر جانے سے انصاف سرکار کو سکھ کا سانس نصیب ہوگا... اپوزیشن کے باہر چلے جانے سے بھی گورننس کا پولیو ٹھیک ہوتا نظر نہیں آتا اور نہ ہی سرکار کے پاس ایسے کوئی قطرے ہیں جنہیںپلا کر گورننس کا ٹیڑھا پن دور کیا جاسکے۔ یہ ٹیڑھا پن پیدائشی ہے... بنیادی اہلیت اور مطلوبہ صلاحیت سے عاری انصاف سرکار کے ان چیمپئنز کو ویکسین کے قطرے تو کیا بالٹیاں بھر کر بھی پلا دی جائیں تو ان کا پیدائشی اور بنیادی نقص ناقابل علاج ہی رہے گا۔ انصاف سرکار کو اقتدار کے باقی ماندہ اور رہے سہے دن اسی معذوری کے ساتھ گزارنا ہوں گے۔ کالم ابھی یہیں تک پہنچا تھا کہ اہم سرکاری عہدے پر فائز ایک دوست کی طرف سے واٹس ایپ میسج موصول ہوا‘ جسے قارئین سے شیئرکرنا تو بنتا ہے۔ ''عام آدمی کی بیماریوں کا لیب جاکر پتا چلتا ہے‘ جبکہ سیاسی اشرافیہ کی بیماریوں کا نیب جاکر پتہ چلتا ہے‘‘۔ گویا نیب ہی ان کی اصل لیبارٹری ہے جہاں ان کے اندر پلنے والی بیماریاں یکایک نمودار ہو جاتی ہیں۔ 
مولانا فضل الرحمن اپنے دو ٹوک موقف پر قائم ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ انگوٹھا چھاپ اور ربڑ سٹیمپ اسمبلیاں قبول نہیں۔ حکومت کی طرف سے مذاکرات کے لیے آنے والے اگر کوئی پیش رفت چاہتے ہیں تو وزیراعظم کا استعفیٰ ساتھ لے کر آئیں۔ مولانا فضل الرحمن نہ تو ڈاکٹر طاہر القادری ہیں‘ نہ خادم حسین رضوی اور نہ ہی ہوا میں تلواریں لہرانے والے... آئندہ چوبیس گھنٹے بعد پلان بی اور اگلا لائحہ عمل دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس سیاسی منظرنامے میں رنگ بھرنے کا کریڈٹ مفادات اور بوئے سلطانی کے مارے وزیراعظم کے ذاتی رفقا اور قریبی مصاحبین کو بھی ضرور جاتا ہے۔ جو سیاسی اسرار و رموز سے ناآشنا اور حکمت عملی اور مصلحت جیسی نعمتوں سے محروم ہیں۔ ا س پر ان کی بے صبریاں اور بد زبانیاں ایسی ہیں کہ الامان الحفیظ... گورننس اور میرٹ کے نام پر جو چار چاند وہ انصاف سرکار کو لگا رہے ہیں اس کاخمیازہ بہرحال آج نہیں تو کل بھگتنا پڑے گا۔ سرکاری ادارے ہوں یا وسائل سبھی کچھ ان کے رحم و کرم پر اور ان کے شوق اور ضد کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ وزیراعظم کا ان مصاحبین اور رفقا پر اندھا اعتماد اور بدلے میں ان کی کارکردگی دیکھ کر نجانے کیوں بے اختیار یہ شعر یاد آتا ہے :؎
کون کس کو ڈس رہا ہے 
سانپ بیٹھا ہنس رہا ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں