حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا ''میں جب بھی پچھتایا اپنے بولنے پر پچھتایا، الفاظ کے اسراف سے بہتر ہے خاموش رہا جائے‘‘۔ یعنی جب ویژن کا فقدان اور خیالات کی آمدنی نہ ہو تو الفاظ کی فضول خرچی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان نے عدلیہ سے ملک آزاد کرانے اور امتیازی قوانین ختم کرنے کی اپیل کر کے نئی بحث اور اپنے لیے خود ہی ایک طرح سے سبکی کا دروازہ کھول لیا ہے۔ جواباً وزیر اعظم کو احتیاط کا مشورہ دیتے ہوئے قوم کو بتا دیا گیا کہ نواز شریف کو خود بھیج کر یہ دوسروں کو طعنہ دے رہے ہیں کہ یہاں دوہرا قانون چلتا ہے‘ نواز شریف کو باہر بھجوانے کا فیصلہ خود ان کا تھا۔
چیئرمین نیب نے بھی واضح کر دیا ہے کہ کوئی اس بھول میں نہ رہے کہ اقتدار والوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں 30 سال حکمرانی کرنے والوں پر توجہ دی اب یک طرفہ احتساب کا تاثر بھی جلد دور ہوتا نظر آئے گا اور کوئی اس گمان میں بھی نہ رہے کہ وہ برسرِ اقتدار ہے تو نیب اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لے گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ بھی سنگین الزامات کی زد میں ہے۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کا متوقع دورہ پیشِ نظر ہے۔ ملک کا امیج خراب کرنا نہیں چاہتے۔ اس طرح انصاف سرکار پر واضح کر دیا گیا ہے کہ ''کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے‘‘۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دوستیاں اور ذاتی تعلق نبھاتے نبھاتے جناب وزیر اعظم اپنے لیے مزید کتنی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ دوستیاں اور یاریاں نبھانے کے لیے ہوتی ہیں... ضرور نبھانی چاہئیں... لیکن ''دادا کی فاتحہ حلوائی کی دکان‘‘ والا معاملہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم کے یہی مصاحبین اور ذاتی رفقاء گورننس اور میرٹ کے حوالے سے کئی کڑے سوالات کھڑے کرنے کا موجب بن چکے ہیں۔ اکثر سرکاری عہدے اور وسائل انہی مصاحبین کے رحم و کرم پر ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے تحریک انصاف زرداری اور شریف برادران کی کرپشن، اقرباء پروری اور سرکاری عہدوں کی جس بندر بانٹ پر سیاست اور واویلا کیا کرتی تھی آج وہ ساری روایات جوں کی توں جاری و ساری ہیں۔
سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر زیر عتاب رکھنے کے لیے جو ادارہ سابق حکمرانوں نے بنایا تھا آج وہ ادارہ ساکھ اور کارکردگی کے اعتبار سے ممتاز نظر آتا ہے۔ دورِ حاضر کا نیب آج حکومت وقت کا تابع اور اسے جوابدہ ہرگز نہیں ہے۔ ماضی میں سیف الرحمن سے لے کر اس ادارے کے کئی دوسرے سربراہان تک نے حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے ان کے مخالفین کو رولنے اور گھسیٹنے کے حوالے سے ہر ممکن سہولت کاری میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بنانے والے خود ہی اس احتسابی ادارے کے سب سے بڑے ناقِد بن گئے گویا چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں کہ یہ ادارہ ہم نے اپنے لیے نہیں بلکہ مخالفین اور حریفوں کو زیر عتاب رکھنے کے لیے بنایا تھا۔
نواز شریف تو کئی بار اس پچھتاوے کا اظہار کر چکے ہیں کہ کاش وہ آرٹیکل 62/63 ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی پیشکش مسترد نہ کرتے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ دورِ حاضر کے نیب نے احتساب کا بیڑا اٹھایا تو کئی دہائیوں پر محیط انتظامی سسٹم پر مضبوط گرفت رکھنے والے حکمران بھی اس کی پکڑ سے نہ بچ سکے۔ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو اپنے ہی دورِ اقتدار میں کرپشن، بد عنوانی اور ندامت کا داغ لیے اقتدار سے علیحدہ ہو کر نہ صرف احتسابی عمل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ نا اہلی کا طوق بھی گلے میں ڈالنا پڑا۔
تحریک انصاف نے بھی حکومت سازی کے فوری بعد کرپشن پر سخت قوانین بنانے کی بات چلائی تھی۔ اس حوالے میں اسمبلی میں ہونے والے پیش رفت شور شرابے کی نذر ہو گئی۔ ایک دوسرے کو چور کہنے والوں نے اس ایوان میں اب تک جو کچھ کیا وہ عوام کے سامنے ہے۔ اب تو سب کچھ عیاں ہو چکا ہے۔ نواز شریف اور زرداری احتساب کی پکڑ میں نہیں بلکہ اپنے اعمال کی پکڑ میں آ چکے ہیں۔ وہ ریلیف حاصل کرنے کے لیے جتنے چاہے عذر تراش لیں لیکن جو ثابت ہونا تھا وہ ثابت ہو چکا ہے۔ نواز شریف علاج کے نام پر بیرون ملک پہنچ چکے ہیں جبکہ آصف علی زرداری بھی طبی بنیادوں پر ریلیف حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس انہیں باہر لے گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ زرداری صاحب کے دل کی بے ترتیب دھڑکنیں انہیں کہاں پہنچاتی ہیں؟
ان دونوں نے مل کر ''چوروں کے چوروں کو تحفظ‘‘ دینے کی روایت کو اس طرح پروان چڑھایا کہ بٹوارا اقتدار کا ہو یا ملکی دولت اور وسائل کا‘ سبھی پر برابر کا ہاتھ صاف کیا۔ احتساب سے بچنے کے لیے آصف علی زرداری نے بڑی احتیاط اور کمال مہارت سے خود کو نواز شریف کے خلاف ہونے احتسابی کارروائیوں سے لا تعلق رکھا۔ بلوچستان کی حکومت سازی ہو یا سینیٹ کے انتخابات انہوں نے مفاہمت اور تعاون کی آخری حدوں تک جا کر سبھی کچھ کر دِکھایا کہ شاید ان خدمات اور سہولت کاری کے عوض ہی جان خلاصی ہو جائے لیکن ایسا ہو نہ سکا ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والا معاملہ ہو گیا۔ سہولت کاری اور مفاہمت کے سارے فارمولے آزمانے کے باوجود احتساب کا گھیرا ٹل نہ سکا اور وہ اپنی ہمشیرہ اور حواریوں سمیت احتساب کے شکنجے میں آ چکے ہیں۔
لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے دعووں سے لے کر سابق حکمرانوں سے ریکوریوں کے بلند بانگ دعووں تک شو مچانے کے باوجود نہ تو لوٹی ہوئی دولت ملک واپس آئی اور نہ ہی سابق حکمرانوں سے ٹَکے کی ریکوری ہوئی؛ البتہ نواز شریف ضرور باہر جا چکے ہیں جس سے انصاف سرکار کے ان سارے دعووں اور وعدوں کی نفی ہوتی نظر آ رہی ہے جو اس کے عہدے داروں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر اس ملک کے عوام کے ساتھ کیے تھے۔ سابق حکمران احتساب اور اعمال کی پکڑ میں آ چکے ہیں‘ لیکن اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان وزیر اعظم کے قریبی اور ذاتی رفقاء کے حوالے سے بھی کڑے سوالات کھڑے ہو چکے ہیں۔ ان کی اہلیت سے لے کر کارکردگی تک اور انتظامی معاملات سے لے کر مالی معاملات تک سبھی معاملات انصاف سرکار کے لیے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔
آئین اور ضابطے عوام اور مملکت کی سہولت کے لیے بنائے جاتے ہیں اور جب آئین کی کتاب کو حکمران اُلٹی تسبیح کی طرح پڑھنا شروع کر دیں تو یہی آئین اور ضابطے ثواب کے بجائے عذاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ بد قسمتی سے ملک و ملت کی پاس داری اور خدمت کا حلف اٹھانے والے ہی اس کی بربادی اور بد حالی کے ذمہ دار دِکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ سب بچ گئے تو اس ملک میں کچھ بھی نہیں بچے گا۔ نہ یہ نظام رہے گا اور نہ ہی نظام چلانے والے کیونکہ جس معاشرے میں سب کچھ چلتا ہے وہاں پھر کچھ نہیں چلتا۔ روٹی، کپڑا اور مکان سے لے کر... قرض اُتارو ملک سنوارو سکیم تک سارے مزے عوام چکھ چکے ہیں؛ البتہ ڈیم فنڈ، سماجی انصاف اور کڑے احتساب کا نتیجہ آنا ابھی باقی ہے۔
40 روز بعد شروع ہونے والا نیا سال انتظامی اور سیاسی حوالوں سے اہم ترین قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ سال کسی ایک پارٹی کے حوالے سے نہیں بلکہ ملک کے سارے سیاست دانوں کے حوالے سے اہمیت کا حامل سال ہو گا۔ عوام سے طرزِ تغافل برتنے والوں کے خلاف چارج شیٹ آنے کو ہے اور بد عہدی کا یہ طویل عہد اپنے انجام کے قریب نظر آتا ہے۔ انصاف سرکار کی شاخِ اقتدار پر جھولنے والے اکثر کردار نیب کو مطلوب ہونے کی اہلیت پر پورا اترتے ہیں۔ ان کی وزیر اعظم سے قربت اور اعتماد کا تعلق دیکھتے ہوئے بے اختیار یہ شعر یاد آتا ہے: ؎
اتنی آرائشِ آشیانہ
ٹوٹ جائے نہ شاخِ نشیمن