روزمرہ کی اشیائے ضروریہ سے لے کر یوٹیلیٹی بلز ‘علاج معالجہ سے لے کر بچوں کی تعلیم و تربیت تک‘ ہر چیز عوام کی دسترس سے باہر ہوتی چلی جارہی ہے۔یوں لگتا ہے حکمرانوں کی نیت سے لے کر ملکی معیشت تک سبھی پر کوئی آسیب پھر گیا ہے جو بدترین حالات کے اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دے رہا۔ یہ کریڈٹ بھی انصاف سرکار ہی کو جاتا ہے کہ اہم ترین فیصلوں پر عمل درآمد کروانے والے اداروں تک کو نہیں معلوم کہ جن فیصلوں پر وہ پوری طاقت اور زور و شور سے عملدرآمد کروا رہے ہیں وہ فیصلے کہاں ہوئے اور کس نے کیے؟معاشی انقلاب‘سماجی انصاف اور کڑے احتساب کی دعویدار تحریکِ انصاف نے اقتدار میں آتے ہی اپنے تمام دعووں اور وعدوں کی نفی اس طرح کی کہ اس کے اقتدار کے ابتدائی چند ماہ میں عوام مایوسی اور غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہونا شروع ہوگئے۔
سب سے زیادہ نقصان حکمرانوں اور ان کے سر چڑھے اور ''عالی دماغ‘‘ وارداتی افسران نے پہنچایا ہے۔ سیاسی دبائو‘ اثر و رسوخ‘ دھاندلی اور سہولت کاری کے نتیجے میں انتہائی اہم اور حساس محکموں میں چن چن کر نااہل‘ خوشامدی‘ احساس ِذمہ داری سے عاری اور ''بوئے سلطانی‘‘ کے نشے میں دھت افسران کو کلیدی عہدوں پر فائز کیا جاتا رہا۔ کسی ادارے کے ایک نااہل خوشامدی اور ذاتی ایجنڈے پر عمل پیرا سربراہ سے توقع ہی عبث کہ وہ مفاد عامہ میں پالیسی بنائے‘ قانون اور ضابطے پروموٹ کرے۔ ایسے سربراہ بھلا کسی ادارے کو چلانے کا بار کیسے اٹھا سکتے ہیں؟ اہلیت اور میرٹ کے برعکس کیے جانے والے حکمرانوں کے فیصلوں کا خمیازہ ہمیشہ عوام نے بھگتا ہے۔
احتساب صرف مالی بد عنوانی اور بے ضابطگی کا ہی نہیں بلکہ نا اہلی کا بھی ہونا چاہیے۔ ایسے نااہلوں سے یہ پوچھا جانا کیا عین منطقی نہیں کہ غیر معمولی پیکیج‘ مراعات‘ فائیو سٹار دورے‘ ضیافتیں‘ سیر سپاٹے اورطویل دورانیے کی میٹنگز جس کام کی تکمیل سے مشروط تھیںجب وہ ہی نہیں ہو سکا تو یہ سب کچھ کس کھاتے میں؟ ان سے یہ پوچھا جانا بھی لاجیکل ہے کہ کلیدی عہدوں پر غول کے غول حملہ آور ہوئے اور ملیامیٹ کرکے اگلا پڑائو‘نئی گھات...یہ کون سی قومی خدمت ہے؟
''لٹنا اور مٹنا‘‘ کیا صرف عوام ہی کا نصیب ہے؟ ان کاریگر اور سہولت کار حکام کا صرف ایک ہی مشن ہے ''عوام کی مت مار دو اور خواص کا ضمیر مار دو‘‘۔ اس کے بعد دروغ گوئی اور فرضی اعدادوشمار کے ساتھ کارکردگی اور گورننس کا ایسا ''ڈھول پیٹو‘‘ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ سابقہ ادوار کا موجودہ دورِ حکومت سے موازنہ کریں تو بعض معاملات پر تو ایک ہی قدر ِمشترک نظر آتی ہے...غیر سنجیدہ رویہ۔ شعبہ صحت ہی کو لے لیجئے‘اس اہم اور حساس شعبے میں سابقہ حکمرانوں کے کردار‘ اعمال و ترجیحات کے نقوش اتنے انمٹ اور گہرے ہیں کہ موجودہ حکومت بھی انہی کے نقشِ قدم پر گامزن ہے۔
بات ہو رہی تھی معاشی انقلاب اور عوام کی خوشحالی کے دعووں کی جو تحریک انصاف والوں نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر عوام سے کیے تھے۔ حکومت کے پہلے اقتصادی چیمپئن اسد عمر کے سارے دعوے نہ صرف دھرے رہ گئے بلکہ درپیش چیلنجز ان کے اپنے قد سے بھی بڑے ثابت ہوئے اور ناکامیاں اور بدنامیاں سمیٹ کر انہیں کابینہ سے رخصت ہونا پڑا۔ان کی جس قابلیت اور مہارت کا ڈھول انتخابات سے قبل پیٹا گیا تھا‘ جس علمی قابلیت اور انتظامی مہارت کا ڈنکا بجایا گیا تھا‘ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ نکلا۔ وہ سب بلندبانگ دعوے جھانسے ثابت ہوئے۔ سب گفتگو جعلی اور سارے اعلانات ملاوٹ اور بناوٹ کا مجموعہ نکلے‘ جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔جب حکمرانوں کے فیصلوں اور اعلانات ہی میں ملاوٹ اور بناوٹ ہوگی تو خالص نتائج کیسے برآمد ہوں گے؟
اسد عمر کی رخصتی کے بعدوہی سب کچھ ہوا جن سے وزیراعظم عمران خان گھن کھا یا کرتے تھے۔وہ فیصلے کرنا پڑے جن پر تنقید کرتے نہ تھکتے تھے۔تاک میں بیٹھے اور گھات لگائے وہ چیمپئنز اقتصادی امور کی فیصلہ سازی پر بٹھانے پڑے جو سابقہ ادوار میں بھی معیشت کو چارچاند لگا چکے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ جیسی نیت ویسا پھل‘جیسی کرنی ویسی بھرنی...چارا بوکر کپاس یا گندم کیسے کاٹ سکتے ہیں؟ اب نتیجہ یہ کہ عوام اس مینڈیٹ کی سزا بھگت رہے ہیں ‘جو انتخابات میں انہوں نے تحریک انصاف کو دیا تھا۔ عوام کے لیے یہ نتیجہ کوئی نیا نہیں‘ وہ ماضی میں بھی سابق حکمرانوں سے ایسے جھانسے اور دھوکے کئی بار کھا چکے ہیں۔ تبدیلی کا خمار اب بخار بن کر عوام کو جھلسارہا ہے۔ انہیں سر پر بٹھانے والے عوام اب سر پیٹنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے سے ہی مشکلات میں گھرے عوام ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد ڈالر کی اونچی اُڑان اور روپے کی بے قدری سے مزید نڈھال ہو چکے ہیں۔ اس پر بے حسی اور لا تعلقی کا عالم یہ ہے کہ کوئی وزیر ہو یا مشیر ‘کسی کو کچھ نہیں پتہ کہ حالات کیا ہیں؟ بولنا کیا ہے؟ سوال کیا ہے؟ اس کا جواب کیا دینا ہے؟ عوام کے ہر مسئلے اور پریشانی سے بے نیاز اربابِ اختیار اپنی اپنی نالائقی اور نااہلی پر نازاں پھرے چلے جارہے ہیں۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ایک بندگلی کے مسافر بنتے چلے جارہے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ ہے نہ ہی کوئی ''یوٹرن‘‘...واپس پلٹنا تو درکنار اکثر مڑ کر دیکھنے کی اجازت بھی نہیں ملتی۔
معاشی انقلاب اور عوام کی خوشحالی کا منظر دیکھنا ہو تو سٹاک سے بھری لیکن گاہک کی راہ تکتی دکانوں کو دیکھیں‘صورتحال یہ ہے گویا گاہک روٹھ ہی گئے ہوں۔ ان بازاروں کی ویرانیاں دیکھیں جہاں تِل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی تھی۔ لگتا ہے بازاروں میں کوئی جن پھر گیا ہو‘ قوتِ خرید سے باہر اشیائے ضروریہ عوام کو بے بس اور لاچار کیے ہوئے ہیں۔ ثبوت اور تجربے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں‘ کسی بھی بازار یا سڑک پر چند منٹ کھڑے ہوکر دکاندار یا گاہک سے احوال دریافت کریں‘ وہ پھٹ نہ پڑے تو کہنا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کی خوش خبریاں سنانے والے حکمران بھی بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں صنعت لگانا تو درکنار کوئی گنے کا بیلنا بھی لگانے کو تیار نہیں۔ انصاف سرکار کے اقتصادی چیمپئنز کی تازہ ترین واردات پیشِ خدمت ہے۔آزاد جموں و کشمیر میں سیلز ٹیکس جنرل آرڈر 107جاری کرکے انڈسٹری کو بحران سے دوچار کردیا ہے‘ جبکہ ملک بھر کی انڈسٹری پہلے ہی وینٹی لیٹر پر ہے۔اس جنرل آرڈر کے نفاذ کے بعد انصاف سرکار دہرا ٹیکس وصول کرے گی اور اس کا سارا بوجھ عوام کے نازک کندھوں پر پڑے گا‘جو کسی ڈرون حملے سے کم نہیں‘ جبکہ آزاد کشمیر کے صنعت کاروں نے اسے معاشی دہشتگردی قرار دے کر واضح کیا ہے کہ اگر انصاف سرکار نے اس جنرل آرڈر کو واپس نہ لیا تو ہماری انڈسٹری بند ہوجائے گی کیونکہ آزاد کشمیر میں واقع انڈسٹری میں ہونے والی پیداوار پاکستان کی منڈیوں میں فروخت ہوتی ہے‘ جبکہ یہ دہرا ٹیکس ہماری مصنوعات کی ڈیمانڈ میں شدید کمی کا باعث بنے گا اور ڈیمانڈ تو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔مقامی منڈی آزاد کشمیر میں مصنوعات کی اتنی کھپت نا ممکن ہے مجبوراً ہمیں انڈسٹری بند کرنا پڑے گی۔
انتہائی تعجب کی بات یہ ہے کہ وزرا سمیت کئی اعلیٰ حکام اس جنرل آرڈر 107کے اجرا تک لاعلم ہی تھے۔یہ فیصلہ کس نے کیا؟ کہاں کیا؟ اور کس کی منظوری سے کیا ؟ اس بارے کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ مزے کی بات یہ کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انصاف سرکار کے چیمپئنز حقیقت تسلیم کرنے اور اپنے احکامات اور اعلانات میں ملاوٹ سے توبہ کرنے کے بجائے مسلسل راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اپنی نجی محفلوں اور قریبی حلقوں میں وہ یہ کہتے بھی پائے گئے کہ حالات اگر بہت جلد بھی ٹھیک ہوئے تو کم از کم تین چار سال مزید لگیں گے۔ گویا ان پانچ سالوں میں تو کچھ ہونے والا نہیں۔الغرض دھوکہ اور جھانسہ ہر حکومت کا نصب العین رہا۔ یہ گورکھ دھندا آج بھی جاری ہے ‘حکومتی چیمپئنزکی انقلابی اور معاشی پالیسیوں نے بادلوں میں پہلے سے چھپے اور آنکھ مچولی کھیلتے معیشت کے چاند کو گرہن ہی لگا ڈالا۔نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل حکومتی چیمپئنز عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ تا حدِنظر اُجاڑے ہی اُجاڑے... مہنگائی اور گرانی‘تباہی اور بر بادی کا ایسا ایسا منظر کہ الامان والحفیظ۔