سدا بادشاہی اﷲ کی۔ کیسے کیسے ناگزیر چپ چاپ گزر گئے۔ قبرستان بھرے پڑے ہیں اور ان کی قبریں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ یہ غفلتوں کے مارے اسی مغالطے میں رہے کہ اگر ہم نہ رہے تو کچھ بھی نہ رہے گا۔ یہ سب کچھ انہیں کے دَم قدم سے ہے۔ اپنی اپنی اَناؤں خطاؤں میں گم یہ سارے اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں اس قدر مست تھے کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب ان کا اقتدار ان کے گلے کا طوق بنا اور ان کی طاقت ان کی کمزوری بنتی چلی گئی۔ اپنے ہی عوام پر فاتح بن کر حکمرانی کرنے والے شاہ ایران ہوں یا صدام حسین اور قذافی یہ سبھی زمینی خداؤں سے کہاں کم تھے۔ آج ان کا نام لینے والا کوئی نہیں۔
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
مملکت خداداد کے عوام نے بھی کیا نصیب پایا ہے؟ کیسا کیسا حکمران نجات دہندہ بن کر آیا۔ اس نے جس سنہرے دور کی نوید دی وہ سنہرا دور ہر دور میں چمکیلا اندھیر ثابت ہوا اور وہ سب مزید اندھیرے گڑھوں میں عوام کو دھکیل کر اپنی اپنی باریاں لگاتے رہے۔ کرسی کی مضبوطی کا دعویٰ کرنے والے جنرل ضیاء الحق ہوں یا شہر قائد میں 12 مئی 2007ء کو خون کی ہولی پر فاتحانہ مُکّا بنا کر اپنے اقتدار کی طاقت کا کھلا اظہار کرنے والے جنرل پرویز مشرف‘ دونوں میں ایک قدر ضرور مشترک ہے۔ یہ کہ ایک نے ایم کیو ایم کی پنیری لگائی اور دوسرے نے اس پنیری سے تناور درخت بننے والی ایم کیو ایم کو سبھی معاملات میں کھلی چھٹی دیے رکھی۔
شہر قائد‘ جو کسی زمانے میں روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا‘ کی حالت زار دیکھ کر آج بھی رونا آتا ہے۔ اس کی بربادی کے سبھی ذمہ دار مکافاتِ عمل کی پکڑ میں آ چکے ہیں۔ جب قانونِ فطرت حرکت میں آتا ہے تو ساری احتیاطیں، پیش بندیاں، حکمتِ عملیاں، چالاکیاں اور ہوشیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ ریاست کے قانون کو گھر کی باندی سمجھ کر انگلیوں پر نچوانے والے کے لیے وہی قانون گلے کا پھندہ بن جاتا ہے۔ پھر وکالتیں اور عدالتیں بھی ریلیف دینے سے انکاری ہوتی ہیں۔ ویسے بھی آسمانی فیصلوں کے آگے زمینی رُکاوٹیں نہیں چلتیں۔ خدا پوچھے ان سبھی سے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں لگائے گئے پودے کو بھر بھر مشکیں ڈال کر پروان چڑھایا۔ اس کام میں شریک سارے کردار آج عبرت کا نشان ہیں۔ مکافاتِ عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ تو دنیا سے جا چکے اور رہ جانے والے اپنا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر کہیں کمی ہے تو صرف عبرت پکڑنے والوں کی۔
شہرِ قائد کے درد ناک ماضی اور اُن زخموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو آج بھی ذرا سی ٹھیس لگنے پر ''رسنے‘‘ لگتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنے سانحات اور زخم کبھی نہیں بھلاتیں۔ زخم بھلا دینے والی قوموں کے عزم بھی کہیں بھٹک جایا کرتے ہیں۔ اس زخم کو ساتھ لے کر ہی ترقی اور بحالی کی شاہراہ پر گامزن رہنا ہو گا۔ انہیں یاد رکھ کر ہی ہم تکلیفوں‘ اذیتوں اور سانحوں سے اپنی موجودہ اور آنے والی نسل کو محفوظ کر سکتے ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے شہر قائد بھگتتا رہا ہے۔
کراچی کے عوام کو سلام ہے‘ جنہوں نے کئی دہائیوں تک عذاب مسلسل کو جھیلا۔ سیاسی مصلحتیں ہوں یا اقتدار کی بھوک ہر حکمران نے اس ناسور کو گلے سے لگایا اور جو ظلم کمایا آج سب کے سامنے ہے۔ ماضی کے سارے حکمران اُس پُرانی ایم کیو ایم کے شریک جرم ہیں ۔ کتنا خون بہایا گیا؟ کتنی ماؤں کی گود اُجاڑی گئی؟ کتنے سہاگ دن دیہاڑے خون میں نہلائے گئے؟ کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے؟ کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگایا گیا؟ سب کے ہاتھ کراچی کو آلودہ کرنے میں ملوث ہیں۔ کراچی کی بربادی اور تباہی کے سبھی ذمہ دار ہیں۔
سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ نے جب کراچی میں آپریشن شروع کیا تھا تو سب سے پہلے ''حاکمِ وقت‘‘ نواز شریف کو اپنے اقتدار کے لالے پڑ گئے تھے۔ عقوبت خانوں کی دلخراش داستانیں جب منظرِ عام پر آئیں تو ہر دردِ دل رکھنے والا لرز کر رہ گیا۔ نہیں لرزے تو مجبوریوں اور مصلحتوں کے مارے سیاستدان نہیں لرزے۔ کیسا کیسا انمول ہیرا اس تنظیم کے غضب کا نشانہ نہیں بنا؟ کیسی کیسی قدآور شخصیات کی آواز ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی اور پھر ''جعلی بیمار‘‘ اور وطن دشمن کو کس طرح ملک سے فرار کروایا گیا‘ اس درد ناک ماضی کو کون جھٹلا سکتا ہے۔
مملکتِ خداداد کے طول و عرض میں کوئی ایسا قابلِ ذکر سیاستدان نہیں جو اپنی مجبوریوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر وطن دشمن کے در پر نہیں گیا۔ بڑے بڑے جمہوریت کے علمبردار اور عوام کے غم میں مرے جانے والے سیاستدان اپنے وسیع تر مفاد میں مفاہمت اور تعاون کی بھیک کے لیے سوالی بن کر اس در پر حاضری دیتے رہے اور اس تعاون کے عوض شہر قائد میں چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس نے آنکھ اٹھائی‘ وہ پھر سر اُٹھا کر نہ چل سکا۔ سیاسی مفاہمت اور تعاون کے نتیجے میں ہونے والے یہ گٹھ جوڑ کراچی کے عوام کے لیے عذاب مسلسل ہی بنے رہے۔ حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کے لیے ہر دور میں حکمرانوں نے ایم کیو ایم کو سیاسی تعاون کے عوض ''لائسنس ٹو کِل‘‘ دئیے رکھا۔ یعنی شہر قائد کے عوام وطن دشمنوں کے رحم و کرم پر ہی رہے۔
زرداری اینڈ کمپنی کے بعد ''خدمتِ خلق فاؤنڈیشن‘‘ کا پول بھی کھل چکا ہے۔ چندوں، بھتوں، لوٹ مار، دادا گیری، قتل و غارت اور دیگر ذرائع سے سمیٹے ہوئے حرام مال سے ''دیوتا سمّان‘‘ وطن دشمن قائد کو پالنے والے اس تنظیم کے پچاس سے زائد سرکردہ رہنما اس ریڈار کی زد میں ہیں۔ اس حوالے سے وفاق میں حکومتی حلیف فروغ نسیم کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔اللہ اعلم۔ وہ کل تک وفاقی وزیر قانون تھے اور اب ان کی خدمات جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس کے دفاع میں وکالت کے لیے مستعار دی گئی ہیں۔ یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ وہ بھی اپنے قائد کی اطاعت گزاری میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ کئی اہم شخصیات‘ جواپنے قائد کو لوٹ کے مال سے پالتی رہیں‘ آج مکافاتِ عمل کی تصویر نظر آ رہی ہیں۔ کہنے والوں کا کہنا ہے کہ آج نہیں تو کل وہ اپنے اعمال کی کھیتی ضرور کاٹتی نظر آئیں گی۔
تاریخ کا پہیہ گواہ ہے کہ جس نے بھی اس مٹی سے غداری کی‘ جس نے بھی وطن عزیز کے عوام کے خون کو پانی سے بھی ارزاں جانا... نہ وہ رہا اور نہ ہی اُس کا اقتدار۔ مُکّے لہرا لہرا کر بات کرنے والے مطلق العنان حکمران جنرل پرویز مشرف ہوں یا مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری‘ نواز شریف ہوں یا الطاف حسین کون کہاں کس حال میں ہے؟ یہ سب جانتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر عوام سے وعدہ کیا تھا کہ تحریک انصاف برسرِ اقتدار آ کر سانحہ 12 مئی کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ قوم ان سے بے تحاشا اُمیدیں لگا بیٹھی ہے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ کیا فیصلے کرتے ہیں۔ مفاہمت کی سیاست یا کنٹینر پر کھڑے ہو کر عوام سے کیے گئے وعدوں کا ایفا۔ پُرانی ایم کیو ایم کو پروان چڑھانے اور اس سے بلیک میل ہونے والے سیاست دانوں اور حکمرانوں سے سبق حاصل کریں۔ عوام تو یہ سیاسی سرکس دیکھ دیکھ کر عاجز آ چکے ہیں۔ سیاستدان اپنی اپنی باری پر اپنا اپنا آئیٹم پیش کر کے آتے جاتے رہیں گے۔ ان کے کرتبوں پر تالیاں بجانے والے عوام اب اپنا منہ نوچنے پر مجبور ہیں۔ امن و امان سے لے کر حب الوطنی تک‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ ملکی دولت اور وسائل کی بند بانٹ سے لے کر اقتدار کے بٹوارے تک‘ کسی نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ماضی میں ملک و قوم کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے آج کہاں کھڑے ہیں اور آج کھلواڑ کرنے والے کل کہاں ہوں گے۔ سدا بادشاہی اﷲ کی!!!