غلام حیدر وائیں مرحوم کے خلاف عدم اعتماد کے حوالے سے ہونے والی رسہ کشی اور سیاسی بلیک میلنگ کے نتیجے میں منظور وٹو مٹھی بھر ارکانِ اسمبلی کے ساتھ وزیر اعلیٰ تو بن گئے لیکن نہ تو اتحادیوں کے تحفظات اور شکایات دور کر سکے اور نہ ہی انہیں ساتھ لے کر چل سکے۔ نتیجتاً ان کی حکومت بھی زیادہ دیر نہ چل سکی اور وزارتِ اعلیٰ کا قرعہ سردار عارف نکئی کے نام نکل آیا۔ انہوں نے تختِ پنجاب سنبھالتے ہی اپنے علاقائی ماحول اور مزاج کے مطابق ایسی گورننس متعارف کروائی کہ تھانوں سے ملزم چھڑوا کر لے جانے کو بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ سابقہ تمام ادوار کی طرح منظور وٹو اور عارف نکئی نے بھی ''چم‘‘ سمیت سارے ہی سِکّے چلا ڈالے۔
ایسے میں وزیر اعلیٰ نکئی نے ایک دن سیکرٹری اطلاعات شیخ ظہورالحق کو بلایا اور کہا ''سیکرٹری صاحب! مجھے اخبارات میں روزانہ ہی لیڈ چاہیے۔ (اُن دنوں نجی پرائیویٹ چینلز نہیں ہوا کرتے تھے۔ صرف سرکاری ٹی وی پر ہی انحصار تھا)۔ سیکرٹری صاحب نے انتہائی اطمینان سے وزیراعلیٰ کی فرمائش سنی اور کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں۔ ہر روز لیڈ لگ سکتی ہے بلکہ لیڈ کے ساتھ سائیڈ سٹوریاں بھی نمایاں طور پر شائع کروائی جا سکتی ہیں۔ جواباً وزیراعلیٰ نکئی بولے: تو بس ٹھیک ہے‘ آپ جائیں اور آج کی لیڈ کا انتظام کریں۔ شیخ ظہورالحق نے کہا کہ لیڈ تو میں لگوا لیا کروں گا‘ لیکن اس کے لیے مجھے آپ کا تعاون درکار ہو گا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہمارا تعاون ہی تعاون ہے۔ وزارتِ اطلاعات کے سارے وسائل اور ڈی جی پی آر کا پورا محکمہ آپ کا ماتحت ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ چاہیے وہ بھی بتائیں آپ کو مل جائے گا۔ اس پر شیخ ظہور بولے: حکومت پنجاب اور آپ کی طرف سے روزانہ ایک ایسا کام درکار ہو گا جس کی بنیاد پر اخبارات کو لیڈ لگانے کی استدعا کی جا سکے۔ وزیر اعلیٰ نکئی یہ جواب سن کر سیخ پا ہوئے اور بولے: کام سے کیا مراد ہے؟ کیا ہم یہاں کام نہیں کر رہے۔ حکومتِ پنجاب روزانہ بے شمار کام کر رہی ہے۔ شیخ ظہور نے ان کی برہمی کی پروا کیے بغیر کہا: آپ کے ان کاموں کی بنیاد پر لیڈ نہیں لگ سکتی اور نہ ہی میں ان حالات میں آپ کی خواہش اور توقعات پر پورا اُتر سکتا ہوں؛ تاہم آپ اپنے لیے کسی اور سیکرٹری اطلاعات کا انتخاب کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
شیخ ظہورالحق مرحوم درویش صفت اور کمال کے آدمی تھے۔ میرٹ اور گورننس کی خاطر کسی بھی حد تک چلے جایا کرتے تھے اور حاکمِ وقت کو ایسا جواب بھی صرف وہی دے سکتے تھے۔ جبکہ حاکم وقت کے ارد گرد چورن بیچنے والے افسران کی کمی بھی نہیں تھی جنہوں نے اس واقعہ کو شیخ ظہورالحق کی ڈھٹائی اور بہانے بازی سے منسوب کیا کہ یہ کیسا سیکرٹری اطلاعات ہے‘ جو اخبارات کو کنٹرول نہیں کر سکتا اور وزیر اعلیٰ کی خواہش پر لیڈ لگوانے سے بھی قاصر ہے۔ یہ واقعہ مجھے خود شیخ ظہورالحق نے سنایا تھا۔ ان سے اکثر ہونے والی نشستوں میں وہ اپنے حکمرانوں کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کا کھل کر اظہار کیا کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اشتہارات کو لیور بنا کر حکومتی اقدامات کی تشہیر کرنا شعبدہ بازی ہے۔ اچھے کاموں کو تشہیر کی ضرورت نہیں ہوتی‘ یہ خوشبو کی طرح اُڑ کر ہر سو پھیل جاتے ہیں۔
یہ واقعہ مجھے اس لیے یاد آ گیا کہ وزیر اعظم عمران خان تواتر سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ عثمان بزدار کو اپنے اقدامات کی تشہیر ضرور کرنی چاہیے جبکہ عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ اچھے کاموں کی تشہیر نہیں بلکہ اُن کی تاثیر ہوتی ہے اور جلد یا بدیر وہ اپنی تاثیر اور رنگ دِکھا کر ہی رہتے ہیں‘ بشرطیکہ وہ کام ٹھوس بنیادوں پر اور زمینی حقائق کے عین مطابق ہوں۔ صرف ڈھول بجانے والوں کا پول جلد ہی کھل جاتا ہے۔ اس لیے نہ تو وہ حکومت پنجاب کے اقدامات پر جہازی سائز اشتہارات پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی اشتہارات کی بنیاد پر تشہیر یا میڈیا مینجمنٹ پر یقین رکھتے ہیں‘ کام کرنے والوں کو میڈیا مینجمنٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پنجاب بھر میں بیوروکریسی کو خود مختارانہ فیصلے کرنے کی منظوری دے کر انہوں نے ایک نئی روایت قائم کی ہے۔
ماضی میں دورِ حکومت نواز شریف کا ہو یا منظور وٹو کا... عارف نکئی کا ہو یا پرویز الٰہی اور شہباز شریف کا‘ سبھی ادوار میں پٹواری اور تھانیدار سے لے کر اعلیٰ افسران کی تقرریوں اور تبادلوں تک سب کچھ ایوانِ وزیر اعلیٰ کے مرہونِ منت ہوا کرتا تھا۔ اکثر تو منظورِ نظر اور چہیتے افسران کی تعیناتی کر کے تبادلوں پر تا حکم ثانی پابندی لگا دیا کرتے تھے تاکہ وہ ڈٹ کر کھیلیں اور کھل کر اپنی باری لگا سکیں۔ اگر کسی افسر کا تبادلہ کرنا مقصود ہوتا تو اس کے لیے وزیر اعلیٰ سے سمری منظور کروا کر ہی تبادلہ ممکن ہوتا تھا۔ خیر‘ دیر آید درست آید کے مصداق عثمان بزدار کی جانب سے یہ اقدام اس لیے بھی ناگزیر تھا کہ گورننس پر اٹھنے والے سوالات نہ صرف دن بدن بڑھتے چلے جا رہے تھے بلکہ ان کا سارا ملبہ بزدار سرکار پر ڈالا جا رہا تھا۔
بزدار صاحب کے اس فیصلے کے بعد بیوروکریسی کے پاس نہ تو کوئی حیلہ ہو گا اور نہ ہی کوئی عذر کہ فلاں کے فلاں کو لگوایا ہے یا فلاں فلانے کا بندہ ہے۔ حالیہ تبادلوں کی آندھی سے وزیر اعلیٰ کے قریبی عزیز بھی نہ بچ سکے اور اطلاعات کے مطابق انہوں نے انہیں بچانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ چیف سیکرٹری، صوبائی سیکرٹریز اور کمشنر صاحبان کو مکمل اختیار دے کر یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ اَب کر کے دِکھائیں۔ اسی طرح آئی جی پنجاب کو بھی تقرریوں اور تبادلوں کے حوالے سے مکمل مینڈیٹ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ٹیم بنائیں اور گورننس/ اَمن و امان پر اٹھنے والے سوالات کا خاتمہ اور عوامی شکایات کا ازالہ کریں۔ آئی جی پنجاب نے بھی میدان عمل میں اپنی ٹیم اتار دی ہے جس میں اکثریت نامور اور پروفیشنل افسران کی ہے۔ سی سی پی او لاہور سمیت کئی آر پی اوز اور سی پی اوز کی تعیناتی پر ان کے وژن اور انتخاب کی داد تو بنتی ہے جبکہ چیف سیکرٹری نے بھی چند روز قبل 86 اسسٹنٹ کمشنرز کو ادھر اُدھر کر کے کھلا پیغام دیا ہے کہ کوئی بھی اہم اور ناگزیر نہیں۔ جو کام کرے گا وہ رہے گا... جو کام نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا۔
ایک اور خوش آئند اَمر بھی شیئر کرتا چلوں کہ چشم فلک نے پہلی بار یہ منظر دیکھا ہے کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی ایک پیج پر یکجا اور ہم قدم نظر آرہے ہیں۔ ماضی میں ہمیشہ ہی دونوں دفاتر میں ''پرسنیلٹی کلیش‘‘ اور محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ اختیارات کی جنگ چلتی رہی ہے۔ گزشتہ روز چیف سیکرٹری اعظم سلمان اور آئی جی شعیب دستگیر کا پولیس افسران سے مشترکہ خطاب بہترین ورکنگ ریلیشن شپ کا مظاہرہ ہے۔ اجلاس میں دونوں ہی فیلڈ افسران پر خوب برسے اور واضح کیا کہ سائلین کی داد رسی‘ میرٹ اور گورننس کے ساتھ ساتھ بد اخلاقی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ان حالات میں توقع کی جا سکتی ہے کہ میرٹ اور گورننس کے ساتھ ساتھ اداروں کا امیج بھی بہتر ہو جائے گا۔
اب چلتے ہیں سندھ سرکار کی طرف جو تبادلوں کو لے کر وفاقی حکومتوں کے ساتھ محاذ آرائی پر آمادہ ہے۔ سندھ سرکار کی محاذ آرائی کوئی انوکھی اور نئی نہیں ہے۔ اس بار کئی افسران کی خدمات وفاق کو واپس کرنے کو تیار نہیں جبکہ ماضی میں آئی جی سندھ کی خدمات واپس کرنے کے لیے زرداری اینڈ کمپنی نے اِیڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی بالآخر ناکامی کا ہی منہ دیکھا تھا۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو صوبہ بدر کرنے کے لیے کون سا جتن نہیں کیا گیا؟ اُن دنوں وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ سندھ سرکار کے ترلوں سے لے کر دھمکیوں تک کچھ بھی کارگر نہ ہوا۔ زرداری کے فرنٹ مین انور مجید سے تعاون نہ کرنے پر پوری سندھ اسمبلی آئی جی اے ڈی خواجہ کے خلاف متحد ہو گئی تھی جبکہ اے ڈی خواجہ بھی زرداری اینڈ کمپنی کے سامنے ڈٹے رہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر اور زرداری کے 'بہادر بچے‘ راؤ انوار کو سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر امریکہ میں بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 190 پولیس مقابلوں میں 440 جیتے جاگتے انسانوں کو قتل کیا۔ سندھ سرکار نے بدنامی کی پروا کیے بغیر جن افسران کی تعیناتی پر اصرار اور پشت پناہی کی ہے انہوں نے نام ضرور نکالا ہے۔ راؤ انوار کو ہی لے لیجئے۔