قومیں غلطیوں پر نہیں‘ غلطیوں پر اصرار اور ضد کی وجہ سے تباہ ہوتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری زمین ہی قحط زدہ ہو چکی ہے۔ لاڑکانہ میں کچھ عرصہ قبل خونی کتوں کا شکار کمسن حسنین کئی ہسپتالوں میں رُلنے کے بعد کراچی کے ایک ہسپتال میں اپنے ماں باپ کو روتا چھوڑ کر چل بسا‘ جبکہ تھرپارکر میں مزید 11بچوں کو آوارہ کتوں نے بھنبھوڑ ڈالا ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں آوارہ کتوں کا راج تاحال جاری ہے۔ اسلام آباد کی ایک جامعہ میں طلبا کے دوگروپوں کا تصادم اس حد تک بڑھ گیا کہ ایک جان سے مارا گیا تو کئی شدید زخمی ہیں اور مطالبہ ہے کہ طلبہ یونینز بحال کی جائیں۔ ڈینگی مچھر نے ہزاروں گھروں سے جنازے نکال دئیے ہیں۔ سو جتن کرنے کے باوجود بھی ڈینگی کسی صورت سرکار کے قابو میں نہیں آیا اور حکمران موسم بدلنے کا انتظار کرتے رہے کہ سردیاں آئیں اور ڈینگی اپنی موت خود مرجائے۔ سردیوں کے انتظار میں کتنے مریض سردخانوں سے ہوتے ہوئے قبروں میں جا سوئے۔ اس بات کا نہ کسی کو احساس ہے اور نہ ہی اندازہ۔ ادھر سردیاں آئیں تو انصاف سرکار والوں کی جان میں جان آئی کہ اب وہ ڈینگی مچھر پر قابو پانے کا کریڈٹ ضرور لے سکتے ہیں۔
سانحات اور صدمات ویسے بھی اس قوم کا مقدر بن چکے ہیں۔ جب بھی آتی ہے‘جہاں سے بھی آتی ہے... بُری‘ بہت بُری اور دل دہلا دینے والی بھیانک خبر ہی آتی ہے۔ یہ خبریں سنتے سنتے قوم نڈھال اور ہلکان ہو چکی ہے۔ جس ہسپتال کے باہر ہارن بجانے کی ممانعت ہے‘ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ گیٹ توڑ کر غول در غول داخل ہونے والوں نے ڈنڈوں اور اینٹوں کا وہ بے دریغ اور بے رحمانہ استعمال کیا کہ الامان والحفیظ... انسانیت شرما گئی‘ بلکہ شرم سے دُہری چوہری ہوکر مر ہی گئی۔ دل کے مریضوں کے لیے اس سے بڑھ کر دل کا دورہ اور کیا ہو گا کہ بلوائیوں کا ایک جمِ غفیر ڈنڈوں اور اینٹوں سے حملہ آور ہو جائے۔ اکثر تو اسلحہ بھی یوں لہرا رہے تھے گویا کوئی معرکہ سر کرنے آئے ہوں۔ ہسپتال علاج گاہ کے بجائے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔
جنگوں میں بھی ہسپتال کو نشانہ بنانے سے گریز کیا جاتا ہے‘ لیکن ظالموں نے نہ کوئی بیمار دیکھا اور نہ کوئی تیماردار... سبھی کو روندتے چلے گئے۔ کسی نے بھاگ کر جان بچائی تو کسی نے چھپ کر‘کسی کا آکسیجن ماسک اتار ڈالا گیا تو کوئی توڑ پھوڑ سے گھائل ہوگیا‘کوئی جان سے گیا تو کوئی جان بچ جانے کے باوجود اس ''ٹراما‘‘ سے باہر نہ آسکا۔ قیمتی آلات اور مشینری سے لے کر عمارت اور دیگر ساز و سامان کو ملبہ کا اس طرح ڈھیر بنا دیا گیا جیسے کوئی سرکش فوج اس ہسپتال کو فتح کرنے آن پہنچی ہو۔ ایسی ایسی رلا دینے والی فوٹیج دن کا چین اور رات کا سکون برباد کیے ہوئے ہے کہ کچھ نہ پوچھئے۔
بے حسی کا عالم یہ کہ بلوا کرنے والے تو رہے ایک طرف‘ زیرک سیاست دان اور تجربہ کار قانون دان کی شہرت رکھنے والے کئی لوگ ان کے دفاع میں میدان میں آچکے ہیں‘ لیکن وہ اس سفاکی اور بربریت کے حق میں بھونڈے عذر تراشنے کے باوجود لاجواب نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر جمہوریت اور اصول پسندی کا لبادہ اوڑھے بعض رہنمائوں کے پیش کردہ جوازوں اور دلائل نے تو حیران ہی کر ڈالا ہے‘ بلکہ اس شرمناک واردات کا دفاع کر کے حد ہی مُکادی ہے؛ تاہم سلام ہے اعتزاز احسن کو جنہوں نے اس بلوے کی مذمت کر کے اپنے نام اور مقام دونوں کی لاج رکھ لی۔
قیمتی مشینری‘ آلات اور دیگر سازوسامان کی توڑ پھوڑ اور بربادی پر سات کروڑ سے زیادہ کا نقصان اپنی جگہ‘ لیکن کوئی یہ اندازہ نہیں کر سکتا کہ علاج معالجہ اور تشخیصی عمل میں آنے والے تعطل سے بیماروں پر کیا گزری ہے... کتنی جانیں خطرے میں پڑ چکی ہیں اور کتنے مریض جان ہار چکے ہیں؟ سات کروڑ کے مالی نقصان کا خسارہ تو ہمیشہ کی طرح عوام کے حصے میں آچکا ہے اور عوام کے پیسے سے اس کی بحالی اور تعمیر کا کام جاری ہے۔ بچپن میں یہ لطیفہ سنا کرتے تھے کہ ڈاکٹر کی ذرا سی غلطی سے مریض کئی فٹ زمین کے نیچے پہنچ جاتا ہے‘ جبکہ وکیل کی غلطی مؤکل کو زمین سے کئی فٹ اونچا لٹکوا دیتی ہے۔ آج دونوں کی غلطیاں اور غیر ذمہ دارانہ رویہ عوام کو کہاں پہنچا چکا ہے۔ کالے اور سفید کوٹ کی یہ لڑائی عوام کو اتنی مہنگی پڑی کہ پوری قوم ہیجانی کیفیت اور ذہنی اذیت سے دوچار ہے‘ جبکہ دنیا بھر میں ہماری تہذیب اور اخلاقیات کا جو جنازہ نکلا وہ الگ... بات کالے اور سفید رنگ کی نہیں... اصل بات یہ ہے کہ: ؎
اَکھ دا چانن مر جاوے تے
نیلا‘ پیلا‘ لال برابر
یہاں چانن سے مراد روشنی نہیں بلکہ شرم اور آنکھ کا وہ پانی ہے جو دونوں کا مَر چکا ہے۔ جب اپنے پیشے کی تقدیس اور فرائض منصبی کے حلف نامے سے انحراف نصب العین بن جائے تو کیسی وکالت اور کیسی مسیحائی۔ یہ مسیحا اپنے مطالبات منوانے کے لیے دھرنے‘ احتجاج اور ہڑتالیں کر کے علاج سے انکار میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے... مریضوں کو دھتکارنے سے لے کر ان کے لواحقین سے دست و گریباں ہونے تک... اپنے سینئر پروفیسرز اور ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ محاذ آرائی اور ہاتھاپائی میں بھی ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ کس کس کو روئیں... ان مسیحاؤں کو یا ان سے برسرِ پیکار وکیلوں کو؟
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو دانت ہیں سب کے
پولیس اور ضلعی انتظامیہ پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ انہوں نے اس سانحہ کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ: ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
معزز و محترم ججوں کی توہین اور تضحیک سے لے کر تشدد تک... عدالتی عملے کے ساتھ مار کٹائی اور غلیظ گالیوں سے لے کر پولیس افسران پر بہیمانہ تشدد تک... صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض سے روکنے کے لیے کیمرے توڑنے سے لے کر زدوکوب کرنے تک‘ کتنے ہی واقعات قومی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ من چاہے فیصلے حاصل کرنے کے لیے یہ کس حد تک نہیں جاتے رہے؟ ہر وکیل اپنے مؤکل کے حق میں اور من چاہے فیصلے کو اپنا استحقاق سمجھنے لگے تو پھر انصاف کے تقاضے کیونکر پورے ہو سکتے ہیں؟ نہ کبھی کسی حکومت نے زحمت گوارا کی کہ ان کا ہاتھ روک سکے اور نہ ہی کسی نے اس پر کوئی مناسب اقدامات کیے۔ ان کی ہڑتال کے خوف سے نہ کبھی ریاست حرکت میں آئی اور نہ ہی ریاست کا قانون... اُلٹا وکیلوں کی منت سماجت کر کے معاملے کو رفع دفع کیا جاتا رہا ہے۔
ہر سرکار نے قانون دانوں کی لا قانونیت کوبھر بھر مشکیں ڈال کر پروان تو خود چڑھایا ہے‘ ایسے میں پولیس وکلا کو روک کر اُن کے ہاتھوں اپنی تکہ بوٹی کرواتی یا جوابی کارروائی کر کے سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسا کوئی نیا سانحہ رقم کرتی؟ دونوں صورتوں میں عتاب کا شکار ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو ہی ہونا تھا۔ ایسے میں یہ سب تو ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا۔ تاہم سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ضرور تسلیم کیا ہے کہ انہیں اندازہ ہی نہ تھا کہ پڑھے لکھے اور قانون دان ایسی لاقانونیت اور بربریت کا مظاہرہ کریں گے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ اپنا احتجاج رجسٹرڈ کروانے کے لیے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی تک جانا چاہتے ہیں اور وہاں جاکر چند تقریریں اور مطالبات پیش کر کے واپس آجائیں گے۔
مملکتِ خداداد کو غیر فعال اور ناکام ریاست دیکھنے کے خواہشمند اس بھڑکتی ہوئی آگ کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست اور اس کا قانون کب تک اور کس حد تک اپنا آپ منواتا ہے۔ اگر اس بار بھی مصلحت آڑے آئی تو کہیں''Ungovernable State‘‘ کا طعنہ ہمارا مقدر نہ بن جائے۔ خدا نہ کرے!