"AAC" (space) message & send to 7575

ریاست ہو گی ماں کے جیسی

قارئین! کئی دنوں کی غیر حاضری کے بعد حاضر خدمت ہوں۔ اس دوران قومی و سیاسی منظرنامے پر ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے موضوعات کا اَنبار ہے۔ سب سے پہلے کچھ احوال کھلے آسمان تلے لہو جما دینے والی سردی کا مقابلہ کرنے والی خلقِ خدا کا‘ جو کہیں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر‘ تو کہیں گرین بیلٹوں اور پارکوں میں بے سروسامانی کے عالم میں پڑی رہتی ہے‘ دن بھر محنت مشقت کرکے اینٹ یا اپنے ہی بازو کا سرہانہ بنا کر یخ بستہ ہواؤں میں کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہے۔ 
ایسے میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ان بے وسیلہ افراد کو پناہ گاہوں میں منتقل کرکے‘ ان کی ناشتے اور رات کے کھانے سے تواضع کا اہتمام کرکے ریاست کا اصل اور حقیقی کردار ادا کیا ہے۔ ان پناہ گاہوں کا ناقد ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ کی طرف سے اس ہمدردانہ اقدام کی تعریف نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ پناہ گاہوں کا یہ مصرف بہترین ثابت ہوا ہے۔ یخ بستہ ہواؤں اور خون منجمد کر دینے والی سردی میں یہ پناہ گاہیں ان بے آسرا افراد کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ جیسے ماں کی آغوش میں جا کر کوئی سکون پاتا ہے اسی طرح یہ پناہ گاہیں بھی نرم اور گرم بستر اور رضائیوں کے ساتھ اس ریاست کا منظر پیش کر رہی ہیں‘ جس کے بارے میں اعتراز احسن کہتے ہیں کہ ''ریاست ہو گی ماں کے جیسی‘‘۔ 
سردار عثمان بزدار کے اس اقدام نے بے اختیار میجر ریٹائرڈ رشید وڑائچ کی یاد دلا دی‘ جن کو مرحوم کہنے کے لیے آج بھی دِل اور زبان آمادہ نہیں۔ انہیں مرحوم کیسے کہا جاسکتا ہے؟ موت تو جسم کی ہوتی ہے۔ کارِ خیر کی موت کبھی نہیں ہوتی۔ شدید سردی اور ٹھٹھرتی راتوں میں کھلے آسمان تلے سوئے بے آسرا اور بے کسوں پر آہستگی اور خاموشی سے کمبل اور چادریں اُوڑھاتے کہ کہیں ان کی آنکھ نہ کھل جائے۔ دِن بھر کا تھکا ہارا کہیں جاگ نہ جائے۔ 
اس کام سے فارغ ہو کر رات گئے گھر جاتے اور اپنی نگرانی میں ناشتہ تیار کرواتے تاکہ صبح سویرے کھلے آسمان تلے سو کر اُٹھنے والی بے یارومددگار خلقِ خدا کو بروقت پہنچایا جا سکے۔ اور یہی نہیں‘ اُن کا باقی کا سارا دن بھی اسی کھوج اور تلاش میں گزرتا کہ کہاں موقع ملے اور وہ کسی کی حاجت روائی اور مصیبت ٹالنے کا سبب بن سکیں۔ ''شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے‘‘۔ جب نیت اور ارادہ ہی خدمتِ خلق ہو تو پھر اﷲ موقع بھی انہیں خوب دیتا تھا اور وہ اس حوالے سے انتہائی خوش قسمت اور بانصیب تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنی مخلوق کی خدمت اور مشکل کشائی کے لیے منتخب کر رکھا تھا۔ 
اب بھی کبھی چوبرجی چوک سے گزرنے کا اتفاق ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میجر (ر) رشید وڑائچ ابھی یہیں کہیں سے نکل آئیں گے۔ خصوصاً رات کو کبھی وہاں سے گزر ہو تو گمان ہوتا ہے کہ کھلے آسمان تلے سوئے ہوئے کسی تھکے ماندے کو کمبل اوڑھا رہے ہیں۔ اسی طرح شہر میں جہاں جہاں بھی میجر صاحب خلقِ خدا کی خدمت کرتے رہے‘ وہاں وہاں آج بھی اُن کی موجودگی کا گمان رہتا ہے۔ صرف محسوس کرنے کی بات ہے اور اس احساس کا مزہ صرف واقفانِ حال ہی لے سکتے ہیں اور ان واقفان کا شمار کوئی آسان کام نہیں۔ وہ ہر خاص و عام میں یکساں مقبول اور معتبر تھے۔ 
ابھی چند روز قبل ہی شعیب بن عزیز اُن کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ میں نے آج تک کسی شخص کو ''وقت رُخصت‘‘ اتنا مطمئن اور پُرسکون نہیں دیکھا۔ ہسپتال میں وہ ایسے گفتگو کر رہے تھے جیسے انہیں الہام ہو گیا ہو کہ اُن کا وقت آن پہنچا ہے۔ اُن کے چہرے پر اگر فکرمندی تھی تو صرف اُن لوگوں کے لیے جن کی رات کے اندھیرے میں خبر گیری کیا کرتے اور جنہیں وہ صبح ناشتہ پہنچایا کرتے تھے۔ وہ ساری عمر بعد از مرگ زندگی کے لیے بھاگتے رہے اور آج بھی وہ کئی حوالوں سے زندہ ہیں۔ اُن کی اہلیہ عزیز بیگم، صاحبزادی صوفیہ رشید وڑائچ اور اُن کے داماد محبوب اسلم للہ‘ جو پاکستان پولیس کے ایک اعلیٰ افسر ہیں‘ اس کارِ خیر کو انتہائی خوش اسلوبی اور خلوص کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دستر خوان کا سلسلہ چوبرجی سے بڑھا کر شہر کے کئی مقامات تک وسیع کر دیا گیا ہے جبکہ رہائش گاہ کا دسترخوان صبح و شام خلقِ خدا کا منتظر رہتا ہے۔ اُن کے بھائی بریگیڈیئر (ر) نصراﷲ وڑائچ بھی اس کارِ خیر کے تسلسل کے لیے کوشاں اور بے چین رہتے ہیں۔ 
اب چلتے ہیں کرپشن کے اس ٹیرف کی طرف جو حال ہی میں متعارف کرایا گیا ہے۔ اب کوئی نیب کے دائرے سے باہر ہو گیا ہے تو کوئی آپے سے باہر نظر آتا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا تھا کہ احتسابی ادارے کی وجہ سے معیشت دن بدن سکڑتی جا رہی ہے۔ اس کے دائرہ اختیار کو کم کیا گیا ہے تاکہ معیشت پھل پھول سکے۔ اس کے علاوہ سرکاری افسران کو ریلیف دیتے ہوئے ان کا خوف دور کر دیا گیا ہے کہ اب نیب صرف 50 کروڑ روپے سے زائد رقم کی واردات پر کارروائی کر سکے گی یعنی اس حد سے نیچے نیچے ہر کسی کو کھل کھیلنے کی اجازت ہے۔ 
اب مال بنانے والے تھوڑا بہت مال دے کر چھوٹ سکیں گے اور کاروباری کچھ اداروں کو ''رام‘‘ کرکے کام چلا سکیں گے۔ اب منظرنامہ کچھ یوں نظر آرہا ہے کہ ایک چور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ پولیس نے دورانِ تفتیش اسے کہا کہ اپنے گھر فون کرو اور کسی بڑے کو گھر سے بلاؤ۔ چور بولا: میرے گھر کوئی بڑا نہیں‘ والدہ بیمار ہیں اور چل پھر نہیں سکتیں‘ بہن بھائی ہے کوئی نہیں اور والد کا انتقال ہو چکا ہے۔ تفتیشی افسر کو اُس کے اس بیان پر شک گزرا تو اُس نے چور سے کہا کہ تمہارے باپ کی قبر کہاں ہے‘ مجھے وہاں لے چلو۔ چور تفتیشی افسر کو قبرستان لے آیا‘ ایک بچے کی قبر پر آکر ٹھہر گیا اور بولا: یہ ہے میرے باپ کی قبر۔ تفتیشی افسر نے حیران ہوکر کہا کہ یہ تو کسی بچے کی قبر ہے۔ چور نے جواباً کہا کہ میرے باپ کی قبر یہی ہے‘ دراصل وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ انسدادِ رشوت ستانی ہو یا بد عنوانی، وفاقی تحقیقاتی ادارہ ہو یا محکمانہ انکوائریاں سبھی مراحل ماضی میں بہ آسانی طے ہوتے رہے اور آئندہ بھی اسی سہولت اور آسانی کے ساتھ ہوتے رہیں گے کیونکہ جان تو صرف احتسابی ادارے سے جاتی تھی۔ 
آخر میں کچھ احوال سانحہ پی آئی سی کا۔ صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں پولیس کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے کہ اگر پولیس وکلا کے ہجوم کو پی آئی سی پہنچنے سے پہلے روک لیتی تو یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ اگر پولیس ان وکلا کو راستے میں روکنے کی کوشش کرتی تو پھر بھی تصادم یقینی تھا۔ اس تصادم کے نتیجے میں جو کچھ ہونا تھا اسے چشم تصور سے بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ وکلا پولیس تصادم کے بعد ہونے والی تحقیقات کے بعد یہی راجہ بشارت صاحب نہ صرف پولیس کو موردِ الزام ٹھہراتے بلکہ کئی معطلیاں اور تبادلوں کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی بھی بن چکی ہوتی۔ کمرۂ عدالت ہو یا احاطۂ عدالت‘ ججوں کی توہین اور تضحیک سے لے کر تشدد تک‘ عدالتی عملے کی مار کٹائی اور گالیوں سے لے کر پولیس افسران پر بہیمانہ تشدد تک‘ صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض سے روکنے کے لیے کیمرے توڑنے سے لے کر زدوکوب کرنے تک سبھی واقعات انتظامی تاریخ پر بدنما داغ ہیں۔ نہ کبھی کسی حکومت نے زحمت گوارا کی کہ ان کا ہاتھ روک سکے اور نہ ہی کسی اور نے اس پر مناسب اقدامات کیے۔ وکیلوں کی ہڑتال کے خوف سے نہ کبھی ریاست حرکت میں آئی اور نہ ہی ریاست کا قانون۔ اُلٹا وکیلوں کی منت سماجت کر کے معاملے کو رفع دفع کیا جاتا رہا۔ گویا ''چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر... دونوں صورتوں میں نقصان خربوزے کا ہی ہے‘‘ یعنی موردِ الزام پولیس کو ہی ٹھہرایا جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں