"AAC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کا خواب اور زمینی حقائق

سب سے پہلے ایک نظر بین الاقوامی منظرنامے پر... امریکی حملے کے بعد ایرانی ہیرو جنرل قاسم سلیمانی کی کار سے بلند ہونے والے ان شعلوں کا ذکر بھی ضروری ہے‘ جو مشرقِ وسطی کے امن کی طرف تیزی سے لپکتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس امریکی جارحیت پر ایران کسی طور چین سے نہیں بیٹھے گا۔ ایران کی تاریخی مسجد پر فیصلہ کن جنگ کا سرخ پرچم لہرایا جاچکا ہے۔ جوابی حملوں کی شروعات ہو چکی ہے۔ بدلہ کب‘ کہاں اور کیسے کیسے لیا جائے گا اس بارے میں ایران کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اپنی مرضی سے کریں گے۔ دونوں طرف سے اشتعال انگیزی اور دھمکی آمیز بیانات کا نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے کمزور اہداف کو نشانہ بنانے کا اشارہ دے رہے ہیں‘ ایسے میں عالمی سطح پر طبلِ جنگ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اس تشویشناک صورتحال پر پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے‘ جبکہ دوسری طرف'' دریندر مودی‘‘ نے 5ماہ قبل جو آگ کشمیر میں لگائی تھی وہ ''اکھنڈ بھارت‘‘ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ ٹرمپ اور مودی کے توسیع پسندانہ عزائم عالمی امن کے درپے ہیں۔ دونوں کا جنگی جنون خطے کو عالمی جنگ میں جھونکنے کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ بھارت میں مظاہرین پر بدترین ریاستی تشدد اور خواتین کی بے حرمتی سمیت دیگر انسانیت سوز مناظر پر مسلمان تو مسلمان ہندو بھی سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ 
اب چلتے ہیں وزیراعظم عمران خان کے اس خطاب کی طرف جو انہوں نے میانوالی میں ماڈل پولیس سٹیشن کی افتتاحی تقریب کے موقع پر پولیس افسران سے کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب پولیس کو خیبر پختونخوا پولیس جیسا بنانا چاہتے ہیں‘ جبکہ پولیس کو غیر سیاسی کر کے وہ میرٹ پر لے آئے ہیں۔یہ وزیراعظم کا وہ خواب ہے جو وہ دھرنوں کے دوران کنٹینر پر کھڑے ہو کر عوام کو دکھایا کرتے تھے۔ انصاف سرکار کو برسر اقتدار آئے تقریباً ڈیڑھ سال ہونے کو آیا ہے لیکن یہ خواب تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ پنجاب پولیس میں اصلاحات کے لیے سابق آئی جی کے پی کے ناصر خان درانی کو لایا گیا مگر اصلاحات تو درکنار ناصر خان درانی ہاتھ ہی کھڑے کر گئے۔ یکے بعد دیگرے کئی آئی جی بدلنے کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں۔ ماڈل تھانوں کی اصطلاح کوئی نئی بات نہیں ۔ ماضی کے سبھی ادوار میں اس طرح کے ماڈل تھانے بنتے رہے اور عوام انہی تھانوں میں دھتکار اور پھٹکار برداشت کرتے رہے ہیں۔ ماڈل تھانے بنانے سے اگر حالات بدلنے ہوتے تو کب کے بدل چکے ہوتے ‘مگرنہ تو سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہوا ہے اور نہ ہی وہ میرٹ نظر آتا ہے جس کا ڈھول انصاف سرکار پیٹ رہی ہے۔ 
کرموں جلے عوام نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ کیسے کیسے حکمران ان کے نصیب میں لکھے گئے ہیںجو اپنی اپنی باریاں لگا کر چلتے بنے۔ سرکاری وسائل اور ریاستی اداروں پر غول در غول حملہ آور ہوئے‘ انہیں ملیا میٹ کیا‘ وسائل کو بھنبھوڑا اور کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ کر کے کنبہ پروری کے ساتھ ساتھ بندہ پروری کو بھی خوب رواج دیا۔ یہ مملکت جسے مملکتِ خداداد کہا گیا ہے ا س میں سماجی عدل و انصاف کا وقت آیا تو سماج سے لے کر ریاست تک نہ انصاف ہو سکانہ گورننس پروان چڑھی اور نہ ہی میرٹ کا بول بالا ہوا۔ ان حکمرانوں کو بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح بداعمال پالیسی ساز اور بوئے سلطانی کے مارے سہولتکار حکام میسر آگئے جو روزِ اول سے انصاف سرکار میں پولیس اور دیگر انتظامی تقرریوں اور تعیناتیوں پر کسی نہ کسی حوالے سے اثرانداز ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جب تک پنجاب پولیس کی فیلڈ فورس کی استعدادِ کار اور معیار ِزندگی کو بہتر نہیں بنایا جائے گا‘ اس وقت تک آپ ہر ہفتے بھی آئی جی تبدیل کر لیں تو حالات جوں کے توں رہیں گے۔ مسئلہ کسی ایک افسر میں نہیں‘ اصل مسئلہ اس فرسودہ نظام کا ہے جس پر تحریک انصاف کے قائدین گھنٹوں تنقید کرتے نہ تھکتے تھے۔ انہیں یہ کون سمجھائے کہ تبدیلی تھانیدار بدلنے سے نہیں بلکہ تھانے کے حالات اور ماحول کو بدلنے سے آئے گی۔ بدلنا ہے تو تھانے کے حالات کو بدلو...رویے خود بخود بدل جائیں گے۔ جب تک پنجاب پولیس کی فیلڈ فورس اور اعلیٰ افسران کے درمیان سہولیات اور مراعات میں توازن نہیں ہوگا اس وقت تک نہ تھانہ کلچر بدلے گا اور نہ تھانیدار کا رویہ بدل سکے گا۔ ایس او پیز کے مطابق جس تھانیدار کو ایک سال میں 30مقدمات کی تفتیش کرنے چاہیے وہ تقریباً پانچ گنا زیادہ مقدمات کی تفتیش کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے۔ ان حالات میں وہ کیا تفتیش کرے گا اور کیسا انصاف کرے گا؟ جبکہ چھترول اور ڈانگ سوٹے کے سوا تفتیشی ذرائع ناپید ہوں تو تفتیش بھی ڈنڈے پر ہی ہوگی اور انصاف بھی ''ڈنڈی‘‘ والا ہی ملے گا۔ 
وزیراعظم اگر واقعی پولیس کلچر کی تبدیلی کے لیے نیک نیت ہیں تو ان فائلوں کا پتہ کریں جو محکمہ پولیس کی جانب سے منظوری کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کو بھجوائی جا چکی ہیں۔ یہ فائلیں پولیس رولز میں ترمیمی مسودے اور سٹریٹیجک ڈیویلپمنٹ پلان کا بوجھ اُٹھائے نجانے کب سے منظوری اور عملدرآمد کے لیے بھٹک رہی ہیں‘ لیکن نجانے کون وزیراعلیٰ اور ان فائلوں کے درمیان مسلسل حائل چلا آرہا ہے۔ منظوری اور عملدرآمد کے منتظر ان مسودوں کو ان کی روح کے عین مطابق نیک نیتی سے نافذ کر دیا گیا تو یقینا نا صرف پولیس کلچر تبدیل ہوگا‘ بلکہ دوران ِحراست ہلاکتوں سمیت تھانوں میں عوام کے ساتھ ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے واقعات بھی کنٹرول کیے جاسکیں گے۔ بھلے ان فائلوں اور عملدرآمد کے درمیان حائل عناصر کا سراغ لگانے کے لیے ریڈ لیٹر بھی جاری کرنا پڑے‘ تب کہیں جاکر پولیس کو غیر سیاسی اور میرٹ کے عین مطابق کرنے کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا جو دھرنوں کے دنوں میں عوام کو دکھایا جاتا رہا ہے۔ 
چند روز قبل وزیراعظم نے میڈیا میں موجود ''مافیا‘‘ کا ذکر بھی کیا تھا۔ اس حوالے سے اُن سے عرض کرتا چلوں کہ براہِ کرم تھوڑی سی توجہ اس مافیا کی طرف بھی ضروری ہے جسے انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن سونپ رکھا ہے۔ وہ اس قومی ادارے کو کس ایجنڈے پر چلا رہے ہیں۔پی ٹی وی ایک ایسا ''مادر پدر آزاد‘‘ ادارہ بنا دیا گیا ہے جو میرٹ اور گورننس کی ضد بن کر نہ تو کسی وزارتِ اطلاعات و نشریات کو مانتا ہے اور نہ ہی کسی قانون اور ضابطے کو‘ لیکن یہ واضح ہے کہ حکمران طے کر چکے ہیں کہ انہوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھنا۔
تاہم وزیراعظم نے پنجاب میں اپنے نائب عثمان بزدار کے ساتھ فیصل آباد میں جس انڈسٹریل سٹی کا سنگِ بنیاد رکھا ہے وہ یقینا سی پیک کے حوالے سے پہلا اکنامک زون ہو سکتا ہے‘ جس میں چھ چینی کمپنیوں سمیت دیگر غیر ملکی کمپنیاں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ابتدائی طو رپر چینی کمپنیوں کو صنعتیں لگانے کے لیے 700ایکڑ اراضی فراہم کی جارہی ہے جبکہ اس علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کی 22کلومیٹر کی طویل باؤنڈری وال‘ مین بلیوارڈ‘ مین گیٹ اور 6.5کلومیٹر رابطہ سڑک پر کام شروع ہو چکا ہے۔ اس کا پہلا فیز جون 2021ء‘ دوسرا فیز 2022 ء کے آخر اور تیسرا فیز جولائی 2024ء تک مکمل ہوگا۔ جس میں ایئرپورٹ‘ ہسپتال‘ لیبر کالونی‘ کمپلیکس‘ پارکس‘ سپورٹس گراؤنڈز‘ ایکسپو سینٹر‘ فور سٹار ہوٹل سمیت دیگر تمام ضروری سہولیات بھی میسر ہوں گی‘ جبکہ سکیو رٹی سرویلنس‘ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ‘ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ‘ سکلڈ سینٹر‘ ٹیلی کمیونیکیشن اور ریسکیو 1122 جیسی بنیادی سہولتیں بھی اس انڈسٹریل سٹی میں دستیاب ہوں گی۔ 
چینی کمپنیوں کی دلچسپی کے پیش نظر ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ون ونڈو سروس بھی متعارف کروائی جارہی ہے۔ اس فعال منصوبے سے براہِ راست چارلاکھ افراد کو روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے جبکہ فیصل آباد انڈسٹری سے مجموعی طور پر بالواسطہ 10لاکھ افراد روزگار کے مواقعوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ویژن آف انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کے تحت پنجاب میں 10سپیشل اکنامک زون قائم کرنے کا پراجیکٹ تیار کیا گیا ہے‘جو انصاف سرکار کے کریڈٹ پر ایک بڑا معاشی بریک تھرو ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں