"AAC" (space) message & send to 7575

نیب کا غیب

نیب کا غیب بالآخر پوری طرح آشکار ہو چکا ہے... جو احتساب تحریکِ انصاف کا فخریہ بیانیہ تھا وہ اب منہ چھپائے پھر رہا ہے۔ ڈیڑھ سال قبل نیب کی جن کارروائیوں پر تحریک انصاف کے قائدین دھمال ڈالتے نہ تھکتے تھے آج انہیں سے خائف اور نالاں نظر آتے ہیں۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کی کسی اہم شخصیت کی گرفتاری عمل میںآئی‘ اُدھر تحریک انصاف نے پریس کانفرنس کر ڈالی۔ نہ صرف پریس کانفرنس کرتے بلکہ نیب کے اگلے اہداف کے بارے میں پیشگوئیوں سے بھی گریز نہ کرتے۔ گویا سارا احتسابی عمل بس اپوزیشن تک محدود رہے گا‘ تحریک انصاف میں تو سارے دودھ کے دُھلے بیٹھے ہیں۔ 
ناقص تفتیش اور کمزور استغاثوں پر نئی بحث چھڑ چکی ہے‘ جبکہ اکثر کیسز میں تو ایسے ایسے اندھیر کا انکشاف ہوا ہے کہ سب کچھ صاف صاف نظر آنے کے باوجود سوالیہ نشان ادارے کے گرد ہی گھمایا جارہا ہے۔ ایک انتہائی ہائی پروفائل کیس سوا سال گزرنے کے باوجود چارج فریم نہ ہو سکا ہے‘ تاہم میرا وہ خدشہ آج پوری ڈھٹائی کے ساتھ سامنے آکھڑا ہوا ہے جس کا اظہار میں تقریباً سال بھر سے کرتا چلا آرہا ہوں کہ قوم کو یہ احتساب اتنا مہنگا نہ پڑ جائے کہ یہ سارے سستے چھوٹ جائیں۔ ایسی صورت میں احتساب کا لفظ طعنہ اور محض مذاق بن کر رہ جائے گا۔ 
اپوزیشن جماعتوں پر نیب کی یلغار پر شادیانے بجانے والوں کے کان اس وقت کھڑے ہوئے جب چیئرمین نیب نے واضح کیا کہ ہواؤں کا رُخ بدل رہا ہے‘ کوئی کسی خوش فہمی یا خوش گمانی میں نہ رہے‘ احتساب سب کے لیے یکساں ہو گا۔ چیئرمین نیب کے اس واضح بیانیے کے بعد حکومتی کیمپوں میں کھلبلی سی مچ گئی اور بیوروکریسی پہلے ہی تاک میں بیٹھی تھی کہ کوئی کمزور لمحہ آئے اور وہ اس کا بھرپور فائدہ اُٹھا سکے۔ ایسے میں انصاف سرکار کی بے چینی اور پریشانی بیوروکریسی کے لیے کسی نعمت سے کم ثابت نہ ہوئی۔ وہ پہلے ہی یہ عذر تراش کر کام کرنے سے گریزاں تھی کہ وہ نیب کے خوف سے اکثر اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔ لوہا گرم دیکھ کر چیمپئنز نے نشانے پر چوٹ لگائی اور انصاف سرکار بہ آسانی آمادہ ہوگئی کہ نیب کا دائرہ کار اور دائرہ اختیار دونوں ہی کم کر کے ملک کو خوشحالی اور ترقی کی راہ پہ گامزن کیا جاسکتا ہے۔ گویا اقتصادی بدحالی اور بیڈگورننس کا اصل ذمہ دار نیب ہے اور جھٹ پٹ ہی نیب کے ریڈار سے بیوروکریسی اور تاجروں کو نکالنے کے علاوہ دیگر ترامیم کر کے اس ادارے کی تقریباً ساری کارروائیوں کو متنازعہ بنا کر رکھ دیا گیا ۔
انصاف سرکار کے آرڈیننس کے نتیجے میں نیب کا ادارہ آدھا تیتر آدھا بٹیر دکھائی دیتا ہے۔ احتساب کی دہکتی ہوئی بھٹی صفِ اول کی اپوزیشن کو پہلے ہی اپنا ایندھن بنا چکی تھی‘ اس دہکتی ہوئی بھٹی کو ٹھنڈا کر کے انصاف سرکار کی جھولی میں بیٹھے ان دانوں کو بھننے سے بچا لیا گیا ہے جن کے گرد نیب کا گھیرا دن بدن تنگ ہوتا نظر آرہا تھا ‘جبکہ اکثر کی گرفتاری بھی عین متوقع تھی۔ ایسے میں اس آرڈیننس کے ذریعے سانپ مارنے کے ساتھ ساتھ لاٹھی کو بھی بہ آسانی بچا لیا گیا ہے۔ 
اب یہ عالم ہے کہ اکثر مقامات پر اپوزیشن اور حکمران جماعت ایک پیج پر کچھ اس طرح نظر آرہے ہیں گویا کسی نے ایک ہی سیخ میں تکے پرو ڈالے ہوں؛ تاہم سیخ میں پروئے ہوئے تکوںکو ایک دوسرے پر سیخ پاہونے کی کھلی اجازت ہوگی۔ نیب کے خوف سے کام کرنے سے انکاری بیوروکریسی کو ایک مبارکباد تو بنتی ہے کہ ان کے پیٹی بھائیوں نے مستحق اور غریب خواتین کے نام پر آنے والے فنڈز پر ''خویش پروری‘‘ کر کے احتساب کے حوالے سے بیوروکریسی کا اصولی مؤقف اور نیک نامی کو چار چاند ضرور لگا دئیے ہیں تاہم ایک تسلی بخش اور خوش آئند پہلو یہ ہے کہ خویش پروری پر ایمان رکھنے والے افسران نے اس حد کو نہیں چھوا جس سے نیب حرکت میں آئے۔ گویا انہوں نے کرپشن کے نئے ٹیرف کے مطابق واردات کی ہے۔ 
بیواؤں اور بے وسیلہ خواتین کے مال پر خویش پروری کرنے والے ان 2543 افسران میں گریڈ 17سے 21تک سبھی نے انکم سپورٹ پروگرام کس مستعدی اور کامیابی سے چلایا ہوگا اس کا اندازہ ان کی ہوسِ زَر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ بیگمات کے نام پر رقم وصول کر کے کس ڈھٹائی سے شکم پروری کرتے ہوں گے۔ خیر ان کا مسئلہ شکم پروری اور کنبہ پروری کے سوا کچھ نہیں۔ وہ مال بیواؤں کا ہو یا ناداروں کا‘ زلزلہ زدگان کا ہو یا سیلاب زدگان کا‘ انہیں سبھی کچھ بہ آسانی ہضم ہو جاتا ہے۔ بیگمات کے نام پر جائیدادیں اور اثاثے بنانے کا رواج تو ہمارے ہاں تھا ہی لیکن ازواج کے نام پر زکوٰۃ‘ خیرات اور صدقات پر ہاتھ صاف کرنے کا سن کر گھن کھانے کے بجائے پیٹی بھائی انہیں بچانے کیلئے حرکت میں آچکے ہوں گے اور اس کیس کا بھی وہی حشر ہوگا جو ہمیشہ سے ایسے کیسز کا ہوتا چلا آیا ہے۔ جس ملک کے حکمران زلزلہ زدگان کی امدادی رقم پر ہاتھ صاف کر کے اپنے بے گناہی اور پارسائی کا ڈھول بجانے میں ذرا شرم محسوس نہ کرتے ہوں اور ڈھٹائی سے کہتے پھرتے ہوں کہ کوئی ایک دھیلے کی کرپشن ثابت کر کے دکھائے ‘وہاں انہیں حکمرانوں کی لگائی ہوئی انتظامی پنیری میں موجود افسران کا بیگمات کے نام پر امدادی رقوم وصول کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں؛ تاہم ہاتھ کی صفائی کو صاف دامن سے منسوب کرنا سیوریج کے غلیظ پانی سے کپڑے دھونے کے مترادف ہے۔ ''کچھ پیٹ ایسے ہوتے ہیں جنہیں صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے‘‘۔ 
جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح فیصلے اور اُن کے نتائج حکمرانوں کی نیتوں اور ارادوں کا پتہ دیتے ہیں۔ آئین سے لے کر قوانین تک‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘بدانتظامی سے لے کر بد عنوانی تک‘ بد عہدی سے خود غرضی تک‘ وسائل کی بربادی سے ذخائر کی بندر بانٹ تک‘ کبھی کسی نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ملک و قوم سے اشرافیہ کی کمٹمنٹ اور اخلاص کا اندازہ لگانے کے لیے ایک اور نمونہ پیش کرتا چلوں۔ مملکتِ خداداد کی دو خواتین افسران سمیت 120سے زائد اعلیٰ افسران کے جیون ساتھی غیر ملکی ہیں‘ جبکہ اکثر نے صرف پاکستانی زوجہ پر انحصار کرنے کے بجائے بیرون ملک ایک اور شادی کر کے ''دہری زوجیت ‘‘حاصل کر رکھی ہے‘ جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق اگر کسی سرکاری ملازم نے غیر ملکی خاتون یا مرد سے شادی کرنی ہو تو پہلے متعلقہ صوبے یا وفاق‘ جہاں کا وہ ملازم ہو‘سے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے۔ ورنہ اس کا یہ عمل مس کنڈکٹ کے زمرے میں آئے گا اور اس کے خلاف مجاز اتھارٹی انضباطی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔ 
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود آج تک کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آسکی ہے‘ گویا نہ کہیں کوئی مس کنڈکٹ ہوا ہے اور نہ ہی اس ملک میں کسی مجاز اتھارٹی کا وجود ہے۔ اعلیٰ سرکاری افسران کی غیر ملکی خواتین سے شادیوں کو اگر قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فیصلہ انتہائی اہمیت اور حساس نوعیت کا حامل ہے۔ ماضی قریب میں ہی اہم ترین اور حساس عہدوں سے سبکدوش ہونے والی شخصیات وطنِ عزیز کے بجائے بیرون ممالک سکونت اختیارکیے ہوئے ہیں‘ جو قومی سلامتی کے تقاضوں سے متصادم ہے اور مجاز اتھارٹیز اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے بجائے مجرمانہ چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں‘ جبکہ ان کے بیرون ملک جانے اور وہاں سکونت اختیار کرنے کے حوالے سے قوانین اور ضابطے موجود ہیں مگر وہ شخصیات اتنی بااَثر اور طاقتور ہیں کہ قانون اور ضابطے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور مجاز اتھارٹیز اس شرمناک حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ وطن عزیز کی اس ماتمی صورتحال پر انور مقصود کے چند اشعار بے اختیار یاد آرہے ہیں جو پیش خدمت ہیں:۔ ؎
سنا ہے جنگلوں کا بھی دستور ہوتا ہے 
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا 
سنا ہے ہوا کے تیز جھونکوں میں 
مینا اپنے گھر کو بھول کر کوے کے انڈوں کو تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے 
سنا ہے جب سیلاب آجائے تو لکڑی کے تختے پر 
سانپ‘ بکری اور چیتا ایک ساتھ ہوتے ہیں
منصفو! میرے ملک میں جنگلوں کا ہی کوئی دستور لے آؤ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں