سماجی انصاف اور کڑے احتساب جیسے بیانیے کے حشرنشر کے بعد میثاقِ جمہوریت کا تازہ ترین ایڈیشن عوام دیکھ چکے ہیں۔ ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو‘ لٹیرا کہنے والے جمہوریت کی بقا کے نام پر کس طرح یک زبان اور ہم رکاب نظر آتے ہیں۔ یہ منظر نامہ عوام کے لیے قطعی نیا نہیں۔ میثاقِ جمہوریت اور میثاقِ معیشت کے سارے ایڈیشن عوام دیکھ چکے ہیں۔ شوقِ اقتدار کے ہاتھوں مجبور اور بوئے سطانی کے مارے سارے ہی حکمران ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی آڑ میں ایسا ایسا سمجھوتہ‘ ایسا ایسا گٹھ جوڑ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ دیکھنے اور سننے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ میثاقِ جمہوریت ہو یا میثاق ِمعیشت گٹھ جوڑ اور مُک مُکاکی ہی صورتیں ہیں ۔ ایک دوسرے کے بدترین مخالف اور باہم دست و گریبان بھی مشترکہ مفادات کیلئے منٹوں سیکنڈوں میں شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک کہنے والے نوازشریف اور بے نظیر حصولِ اقتدار کیلئے میثاق جمہوریت کے نام پر بالآخرایک ہو گئے تھے۔ پھر آصف زرداری اور نواز شریف نے کس طرح بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی بننے کا ڈرامہ رچا کر اقتدار کا بٹوارا کیا اور چند ماہ بعد ہی یہی بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کس طرح ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں مارا کرتے تھے۔
یہ سیاست ہے پیارے اس میں کوئی کسی کا بھائی ہے نا بہن‘ کوئی دوست ہے نہ رفیق‘ ہمنوا ہے نہ کوئی ہمراز‘ ان کے درمیان بس ایک ہی رشتہ ہوتا ہے‘ وہ ہے مفادات کا۔ جب تک مفادات چلتے رہیں گے‘ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے پر واری واری جاتے رہیں گے‘جہاں مفادات کو خطرہ لاحق ہواوہاں ''اصولی سیاست‘‘ کا بخار اور عوام کا درد جاگ جائے گا۔ ایک دوسرے پر ''واری واری‘‘ جانے والے ایک دوسرے کو گھسیٹنے ‘ چور‘ ڈاکو اور لٹیرا سمیت کچھ بھی کہنے سے گریز نہیں کرتے۔ آف دی ریکارڈ رازونیاز پَل بھر میں وائٹ پیپر بن جاتے ہیں‘ ایک دوسرے کو اس قدر گندا اور ننگا کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ۔
عوام اس سیاسی سرکس کے تماشائی ہیں‘ یہ سارے اپنی اپنی باری پر اپنا اپنا آئٹم پیش کرکے آتے جاتے رہیں گے عوام ان کی ''مسخریوں‘‘ اور ''کرتبوں‘‘ پر تالیاں اور بغلیں بجاتے رہیں گے۔ امن و امان سے لے کر حب الوطنی تک‘نیت سے لیکر معیشت تک‘ گورننس سے لیکر میرٹ تک‘ ملکی دولت اور وسائل کی بندر بانٹ سے لیکر اقتدار کے بٹوارے تک ‘ہر سطح پر ہر کسی نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ‘ جس میں ان کی اپنی غرض اور مفاد غالب نہ رہا ہو۔ ملک کے طول وعرض میں کوئی ایسا حکمران آج تک نہیں آیاجس نے قانون ‘ ضابطے‘ میرٹ اور گورننس کو اپنے تابع فرمان نہ بنایا ہو۔ اپنے کاروبار اور مالی ذخائر میں ہوشربا اضافے سے لیکر اقتدار کے حصول اور طول تک ہر جائز‘ ناجائز حد تک جانے والے حکمرانوں نے کب اور کون سا گُل نہیں کھلایا؟ اس کی تفصیل میں اگر جائیں تو ایسے کئی کالم بھی کم پڑسکتے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کا رونا روئیں یا موجودہ چیمپئنز کا؟ ماضی کے چند ادوار کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ صاحبِ اقتدار و اختیار طبقہ کرپشن اور لوٹ مار کے کارِبد پر اس طرح نازاں رہا ہے‘ گویا کوئی بہت بڑی قومی خدمت انجام دے رہا ہو۔ ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن ‘ لوٹ مار‘ دھونس‘ دھاندلی اور اقربا پروری کے خلاف تحریک انصاف نے آواز بلند کی تو ابتدا میں یہ آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز دکھائی دیتی تھی اور پھر بتدریج یہ آواز آوازِ خلق سے ہوتی ہوئی نقارہ ٔخدا بن گئی۔ دھرنوں اور حالیہ عام انتخابات کے دوران انتخابی نغمے اس جوش اور ولولے سے چلائے جاتے گویا جنگی ترانے بجائے جا رہے ہوں اور عوام ان کے سحر اور اس مغالطے میں مبتلا ہوگئے کہ:
جب آئے کا عمران سب کی جان ‘بڑھے گی اس قوم کی شان‘بنے کا نیا پاکستان
پھر یوں ہوا کہ عمران تو آگیا لیکن تاحال نہ تو قوم کی وہ شان بڑھ سکی اور نہ ہی نیا پاکستان بن سکا۔ تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو وزیر اعظم کی پہلی تقریر سنتے ہی عوام جھوم اُٹھے۔ گویا آگیا وہ شاہکار جس کا تھا انتظار‘ اب راج کرے گی خلقِ خدا اور اب کرپشن لوٹ مار اور اقربا پروری کے سیاہ دور کا خاتمہ ہوگا۔ وزیراعظم کی خوش گمانی پر مبنی اس تقریر کو عوام اُس خواب کی تعبیر سمجھ بیٹھے جو تحریک ِانصاف نے دھرنوں اور انتخابی مہم کے دوران تواتر سے دکھایا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ عوام کو دکھایا جانے والا خواب بتدریج جھانسہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ میرٹ اور بہترین طرزِ حکمرانی کے دعویداروں نے اپنے اقتدار کے ابتدائی چند ماہ میں ہی عوام کی خوش گمانیوں کا سارا نشہ ہوا کر ڈالا۔ دکھائے جانے والے سبھی سنہری خواب چکنا چور کر ڈالے۔ جس دور میں خلقِ خدا نے راج کرنا تھا اسی دور میں تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال سے لے کر ایوانِ اقتدار تک کچھ بھی نہیں بدلا۔ عوام کے لیے ذلت ‘ دھتکار اور پھٹکار کے سارے منظر جوں کے توں ہیں۔
بے نظیر تو اس دنیا میں نہیں رہیں نواز شریف ‘زرداری اور شہباز شریف کے بعد اب عمران خان بھی میثاق سیریز میںشامل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ بجٹ کے موقع پر پروڈکشن آرڈرز اور دیگر سہولیات کے عوض اپوزیشن کے تعاون کے نتیجے میں ''میثاقِ معیشت‘‘ بھی عوام دیکھ چکے ہیں۔ اس تناظر میں مستقبل کا منظرنامہ اگر چشمِ تصور میں لایا جائے تو شوق ِاقتدار کے ہاتھوں مجبور یہ سارے سیاستدان ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے‘ ایک دوسرے کی ڈھال بنے یک زبان ہوکر ''میثاقِ مصیبت‘‘ کے نام پر اکٹھے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ مصیبت ہے جو عوام سے تغافل‘ بدعہدی اور بے وفائی کے نتیجے میں ان پر نازل ہونے والی ہے اور یہ سب مل کر اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے ''میثاقِ مصیبت‘‘ کرتے نظر آئیں گے۔ عمران خان کے برسرِ اقتدار آنے اور نیا پاکستان بنانے کے نغمے اور اعلانات کے بعد منظر نامے کی عکاسی کے لیے جاوید اختر کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:
جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو
لوگ لگتے ہیں پریشان ذرا دیکھ تو لو
یہ نیا شہر تو ہے خوب بسایا تم نے
کیوں پرانا ہوا ویران ذرا دیکھ تو لو
ان چراغوں کے تلے ایسے اندھیرے کیوں ہیں
تم بھی رہ جاؤ گے حیران ذرا دیکھ تو لو
پھر مقرر کوئی سرگرم سر منبر ہے
کس کے ہے قتل کا سامان ذرا دیکھ تو لو
تم یہ کہتے ہو کہ میں غیر ہوں پھر بھی شاید
نکل آئے کوئی پہچان ذرا دیکھ تو لو
ادھر قومی اسمبلی میں رانا ثنا اﷲ نے قرآن اٹھا کر گیند حکومتی کورٹ میں ڈال دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ'' اگر میں جھوٹ بولوں تو مجھ پر خدا کا قہر نازل ہو‘‘ جبکہ حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ ڈی جی اے این ایف نے بچوں کی قسمیں کھا کر یقین دلایا تھا کہ رانا ثنا اﷲ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئی ہیں۔ معاملہ قرآن اور قسموں پر آچکا ہے‘ تاہم حکومت رانا ثنا اﷲ سے برآمدگی منشیات کی حوالے سے نہ تو کوئی ویڈیو پیش کر سکی ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس ثبوت سامنے لا سکی ہے۔ البتہ ان کے اتنہائی قریبی اور معتمدِ خاص سابق میئر فیصل آباد کے خلاف ایک اور مقدمہ قائم کر دیا گیا ہے‘جو ہماری سیاسی روایت کا حصہ ہے۔ رانا ثنا اﷲ سے تعلق کی قیمت تو وہ اور ان کا خاندان پرویز مشرف کے دور میں بھی خوب چُکا چکا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے حکومت کون سے گواہ اور کیسے ثبوت لیکر آتی ہے۔ چلتے چلتے‘ حکومتِ پنجاب کی طرف سے ہوٹلوں کا اضافی کھانا مستحق افراد تک پہنچانے کا قانون منظور کرنے کا احسن اقدام یقینا قابلِ تعریف ہے۔ اس کے تحت پنجاب فوڈ اتھارٹی ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کا اضافی کھانا محفوظ طریقے سے مستحقین اور نادار افراد تک پہنچانے کے لیے کولیکشن اور ترسیل کا طریقہ وضع کر چکی ہے۔ سروے کے مطابق ان ریسٹورنٹس میں 40فیصد خوراک ضائع ہو جاتی ہے‘ جو یقیناً رب کی ناشکری بھی ہے۔ خوراک کے اس ضیاع کو روکنے اور حقداروں تک پہنچانے کا یہ فیصلہ بزدار سرکار کا انسان دوست اقدام ہے۔