''ایک شخص اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر آئے روز غل غپاڑہ کیا کرتا تھا۔ اس کی اس حرکت کی وجہ سے اہل محلہ بہت تنگ تھے۔ جب اس کی غیر اخلاقی حرکتیں حد سے بڑھ گئیں تو محلے کا ایک معتبر شخص اس کے پاس گیا اور بولا ''میاں کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ یہ شریفوں کا محلہ ہے۔ اس طرح چھت پر چڑھ کر بڑھکیں مارنا، شور شرابا اور غل غپاڑہ کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔ تمہاری وجہ سے اہل محلہ کا سکون غارت ہو چکا ہے۔ خواتین اور بچوں پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے‘‘۔ وہ شخص اپنے ہمسائے کے سارے گلے شکوے اور تحفظات انتہائی تحمل اور توجہ سے سننے کے بعد بولا ''تمہیں میرے غل غپاڑے اور شور مچانے پر بہت اعتراض ہے‘ تمہارا باپ بھی تو لنگڑا کر چلتا تھا‘‘۔
اس لطیفے کا حالات حاضرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا حکومت کو غلط بیانی کرنے پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ کر ڈالا ہے اور اس حکومت کے اکثر وزرا نے اپنے ہی وزیر اعلیٰ کی ناقص کارکردگی اور ناپسندیدہ فیصلوں کی وجہ سے اپنے تحفظات اور اختلافات کا کھل کر اظہار کیا ہے جبکہ پانچ وزرا نے تو احتجاجاً مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ اِدھر تخت پنجاب کے حکمران سردار عثمان بزدار فارورڈ بلاک کو منانے اور للچانے کے لیے بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔ صوبائی وزرا فارورڈ بلاک کی تشکیل پر اپنی اپنی توجیہات اور صفائیاں دئیے چلے جا رہے ہیں جبکہ اکثر ارکانِ اسمبلی گورنر پنجاب چوہدری سرور کے گرد ہی منڈلا رہے ہیں۔ یہ گروپ کسی بھی وقت ایک پریشر گروپ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ درجن سے زائد ارکانِ اسمبلی فیصلے کا اختیار چوہدری سرور کو دے چکے ہیں۔ واضح رہے کہ گورنر چوہدری سرور پہلے بھی حکومتی پالیسیوں اور ناپسندیدہ فیصلوں پر عدمِ اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں جس پر انہیں بروقت منا کر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا تھا۔
دور کی کوڑی لانے والے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد کا سیاسی منظرنامہ یکسر مختلف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں چوہدری برادران کی اہمیت اور اُن کے ڈیروں پر رونقیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ ارکانِ اسمبلی کی طرف سے ظاہری اور پوشیدہ حمایت کے ساتھ ساتھ جاں نثاری کے دعویدار بھی میدان میں آ چکے ہیں لیکن عمران خان صورتحال سے بدستور مطمئن اور پراُمید نظر آتے ہیں۔ اِن کا کہنا ہے کہ سخت معاشی فیصلوں کے نتیجے میں ہمیں عوامی ردِّعمل کا سامنا ضرور رہا؛ تاہم انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ شبَّر زیدی صاحب نے موجود ٹیکس نظام پر تحفظات کا اظہار کر ڈالا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نظام نہیں چل سکتا اور ناکامی کی طرف جا رہا ہے۔
ناکامیاں اور کامیابیاں تو ایک طرف ٹھہریں یہاں تو آٹا ہی انصاف سرکار کو لیے دئیے جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے ایک بار پھر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت میرا مشورہ مان لیتی اور گندم برآمد نہ کی جاتی تو آٹے کا یہ بحران ہرگز نہ ہوتا۔ شیخ رشید حکومت کے حلیف اور اتحادی ہیں‘ لیکن آج کے حلیف کل کے حریف بننے میں دیر نہیں لگاتے۔ تحفظات سے شروع ہونے والے اختلافات شکووں سے ہوکر الزام تراشی پر ختم ہوتے ہیں اور پھر اختلاف رائے سے شروع ہونے والے شکوے ہی سیاسی راہیں علیحدہ کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ بغل گیر اور شیروشکر حلیف بدترین سیاسی حریف کے طور پر مدِّمقابل نظر آتے ہیں۔ وطنِ عزیز کا سیاسی منظرنامہ ایسے بے شمار واقعات سے بھرا پڑا ہے۔
شیخ رشید اور انصاف سرکار روزِ اوّل سے ہی ایک پیج پر نظر نہیں آتے۔ انہوں نے عمران خان کے پہلے سو دِن کے ہدف کے بیان پر بھی اپنے ردِّعمل کا اظہار کچھ اس طرح کیا تھا کہ ''میرا ٹارگٹ ایک سال ہے۔ مجھے سو دن کی کارکردگی سے باہر ہی رکھیں۔ سو روزہ کارکردگی کا اطلاق مجھ پر نہیں ہوتا‘‘۔ اسی طرح وہ شہباز شریف کی آنیوں جانیوں، پروڈکشن آرڈر اور ضمانت پر بھی کھل کر تنقید کرتے رہے ہیں کہ شہباز شریف وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں اور ان کی ''گوٹی‘‘ حکومت سے ''فٹ‘‘ ہوچکی ہے۔
مستقبل میں شیخ رشید صاحب کے بیانیے میں مزید شدت آسکتی ہے اور دبے دبے تحفظات اور شکوے کھلے اختلافات اور الزام تراشیوں تک بھی جاسکتے ہیں اور پھر ''اُصولی سیاست‘‘ کے نام پر کیا ہوتا ہے؟ خدا جانے؟ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تقرری کا معاملہ ہو‘ شہباز شریف کا منسٹر کالونی میں قیام ہو یا سو روزہ حکومتی کارکردگی کی بات، شیخ رشید نے کسی بھی حکومتی پالیسی پر اتفاق نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر سیاسی منظرنامے میں اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہیں اور اپنے مؤقف کا دفاع اور وضاحت اتنی شدت سے کرتے ہیں کہ لگتا ہے‘ وہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ ماضی میں اپنے تمام حلیفوں کا حریف اور حریفوں کے حلیف بننے کا اعزاز بھی شیخ رشید کو ہی حاصل ہے۔ اس تناظر میں ان سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ ان کے پاس اپنے ہر اقدام اور ''یوٹرن‘‘ کا جواز اور جواب موجود ہوتا ہے۔ خیر یہ حکومت کے سمجھنے کی بات ہے۔
اسی طرح ایک اور وفاقی وزیر فواد چوہدری بھی تخت پنجاب پر براجمان عثمان بزدار کی کارکردگی اور طرزِ حکمرانی سے نہ صرف نالاں نظر آتے ہیں بلکہ چند روز قبل تو انہوں نے کھل کر شدید تنقید بھی کر ڈالی۔ بات ہو رہی تھی چوہدری برادران کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی تو اس حوالے سے مزید پیش رفت یہ ہے کہ اعلیٰ بیوروکریسی کو بھی واضح اشارہ مل چکا ہے کہ چوہدری برادران کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کو یقینی بنایا جائے۔ اس حوالے سے مونس الٰہی اور چیف سیکرٹری پنجاب کی بھرپور اور نتیجہ خیز میٹنگ ہو چکی ہے۔ دوسری طرف عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان سخت تناؤ کی خبریں پائیدار مفاہمت کے امکانات کو رَدّ کرتی نظر آرہی ہیں۔
واقفانِ حال یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ چوہدری برادران نے عملی طور پر وزارتِ اعلیٰ سنبھال لی ہے جبکہ صوبائی وزرا اس تاثر اور تھیوری کی شدت سے نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عمران خان کی قیادت میں بہترین کام کر رہے ہیں۔ ایک حالیہ کالم میں نواز شریف کی اس ضد کا ذکر کیا تھا جس کے نتیجے میں انہیں تختِ پنجاب سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ اس حوالے سے مختصراً عرض کرتا چلوں کہ 1990ء میں نواز شریف جب پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دونوں ادوار کے اقدامات اور فیصلوں کی توثیق و تحفظ کے لیے نظر انتخاب غلام حیدر وائیں پر جا ٹھہری۔ وہ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے انہیں وزیراعلیٰ بنوانے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن اتحادی اور حلیف جماعتوں کے تحفظات دور نہ کر سکے۔ پنجاب کے فیصلوں کا قلمدان نواز شریف کے پاس تھا۔ وہ جب بھی لاہور آتے پہلے باغِ جناح میں کرکٹ کھیلتے اور پھر من مرضی کے فیصلے کرکے واپس چلے جاتے۔ اتحادی جماعتوں کی طرف سے غلام حیدر وائیں کو بدلنے کا مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا اور نواز شریف اسی شدت سے اس مطالبے کو رَد کرتے رہے۔ نتیجتاً اندرونی مزاحمت بتدریج بغاوت کی شکل اختیار کر گئی اور اس وقت کے سپیکر منظور وٹو مٹھی بھر ارکان کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب بننے میں کامیاب ہوگئے۔ پنجاب اسمبلی کا منظرنامہ کم و بیش آج بھی اسی تناظر میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ ماضی میں منظور وٹو سپیکر تھے آج چوہدری پرویز الٰہی سپیکر ہیں جو منظور وٹو سے کہیں بہتر پوزیشن میں وہی تاریخ دوہرانے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔
عمران خان صاحب بھی آج اسی ضد اور اصرار پر ڈٹے دِکھائی دیتے ہیں جس کی قیمت نواز شریف دو دہائیاں قبل تخت پنجاب گنوا کر ادا کر چکے ہیں۔ آخر میں صورتحال کی عین عکاسی کے لیے برادرِ محترم حسن نثار کا ایک شعر پیش خدمت ہے: ؎
ساری ضدیں پوری کر لیں ہر اِک کام تمام کیا
یہ بتا اس کھیل میں آخر اپنا کیا انجام کیا