عوام ابھی ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی واردات سے سنبھل نہ پائے تھے کہ آٹے کا ڈرون حملہ کر دیا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے عوض اپنی دنیا سنوارنے والے چیمپئن سے وزارت واپس لے کر حکومتی پارٹی میں اہم عہدہ دے کر بچایا جا چکا ہے۔ جبکہ نیب کا ڈر سرکار نے خود ہی نکال ڈالا ہے۔ ''موجاں ای موجاں...‘‘ ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے مال بنانے والے تو معتبر ٹھہرا ہی دئیے گئے ہیں... اب دیکھتے ہیں کہ آٹے سے لمبا مال بنانے والوں کا اگلا مقام اور مرتبہ کیا ہو گا۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کو رپورٹ پیش کر دی گئی ہے کہ کون سے سرکاری اَفسر، کون سی سیاسی شخصیات اور کون سے تاجر اس آٹا گردی میں ملوث ہیں۔ ایسی کئی رپورٹیں حکمرانوں کو پیش کی جاتی رہی ہیں اور آئندہ بھی پیش کی جاتی رہیں گی لیکن کون کہاں‘ کیا واردات کر گیا سب کو سبھی جانتے ہیں۔
آٹے کے بحران کو مسلسل جھٹلانے والے حکمران جو آٹا عوام کو فخریہ طور پر فراہم کر رہے ہیں‘ یہ خود انہیں کھانا پڑ جائے تو پتہ چلے کہ آٹے کے نام پر عوام کو کیا کھلایا جا رہا ہے۔ دورِ جدید کی ریاست مدینہ متعارف کروانے والے حکمرانوں نے عوام کو کہاں سے کہاں پہنچا ڈالا ہے۔ مہنگائی اور گرانی کا آسیب پہلے ہی انہیں بد حالی سے دوچار کر چکا ہے۔ اصل اور حقیقی ریاست مدینہ میں آقائے دو جہاںﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے شریک اقتدار اور مشیر مومنین ہوا کرتے تھے جبکہ انصاف سرکار کی ریاست مدینہ میں حکمرانوں نے معاونین کے ڈھیر لگا ڈالے ہیں جو نا معلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے ساتھ نازاں پھرتے نظر آتے ہیں۔ رہی بات وزرا کی تو ان کا حال یہ ہے کہ ان کی وزارتیں وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے احکامات کو کسی خاطر میں نہیں لاتیں‘ وہ اپنے متعلقہ وزیروں کو کیا سمجھتی ہوں گی۔ وزیر اعظم آفس سے ان کی وزارتوں میں آنے والے احکامات کا حشر نشر کیوں ہو رہا ہے؟ بحیثیت وزیر ان کی کیا کارکردگی ہے؟ اور وہ کن کاموں میں مگن ہیں؟ کارکردگی تو خیر کیا ہی ہو گی؟ گورننس اور میرٹ کے جھنڈے تو ملک کے طول و عرض میں لگ چکے ہیں۔
ابھی چند ماہ قبل ہی وزیر اعظم آفس سے ستائیس وزارتوں کو ''تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے تحت عدم تعاون اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر ''ریڈ لیٹر‘‘ جاری کیا گیا تھا۔ ان وزارتوں سے خالی آسامیوں کی تفصیلات کافی عرصہ سے مانگی جا رہی تھیں۔ نا جانے یہ فہرستیں فراہم کرنے میں انہیں کیا عار تھا؟ حالانکہ ان وزارتوں میں حکومت کے نمائندہ وزیر بھی موجود ہیں اور ساری مراعات اور ''ٹور ٹپے‘‘ کے ساتھ ان کی آنیاں جانیاں بھی خوب چل رہی ہیں۔ جو وزرا وزیر اعظم ہاؤس کو رسپانس نہیں کروا سکے‘ وزارتیں کیا خاک چلاتے ہوں گے؟
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں سے ''توڑی کی پنڈ‘‘ کھل گئی ہے اور اوپر سے بد انتظامی اور نا اہلی کی آندھی چل پڑی ہے جس کے نتیجے میں انہیں کچھ سجھائی دینا ہی بند ہو گیا ہے۔ انتہائی دلچسپ اور تشویشناک اَمر یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ آتے ہی انصاف سرکار کے سقراطوں اور بقراطوں نے اس پر اَندھا دھند بیان بازی اور وضاحتیں دینا شروع کر دیں‘ جو ان کے دورِ حکومت کے متعلق ہی نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ ان چیمپئنز کے لیے پڑھائی لکھائی کا بندوبست کریں اور انصاف سرکار کے جن بلے بازوں نے اس رپورٹ کو پڑھے بغیر بیانات اور توجیہات کے چھکے مارے ہیں‘ ان سب کے بلے بحق سرکار ضبط کر لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ انہیں بلوں سے انصاف سرکاری کے گوڈے، گٹے ہی توڑ ڈالیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے بہت اہم اور ''خفیہ‘‘ معلومات شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے نیچے جانے کی وجہ جمہوری اداروں کا غیر مستحکم ہونا ہے‘ ٹیومر نکالنے کے لیے آپریشن کرنا ہے‘ بیمار معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے تکلیف دہ فیصلے کرنا ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ 126 دن کا طویل ترین دھرنا جمہوری اداروں کے استحکام کا کون سا طریقہ تھا؟ ٹیومر نکالنے کے لیے آپریشن یقینا ضروری ہے‘ لیکن جن جراحوں سے آپ ٹیومر نکلوانے پر بضد ہیں وہ تو اپنے ہی پھنسیاں پھوڑے سہلاتے نظر آتے ہیں‘ اور رہی بات معیشت کی بہتری کے لیے تکلیف دہ فیصلوں کی تو عرض ہے کہ تکلیف تو عوام کو دی جا چکی ہے اور اس میں صبح، دوپہر، شام ''نان سٹاپ‘‘ اضافہ بھی جاری ہے؛ تاہم عوام اُن فیصلوں کے منتظر ہیں جن سے معیشت بہتر ہونے کی نوید دی جا رہی ہے۔
معیشت کب بہتر ہو گی؟ کیسے بہتر ہو گی؟ ہو گی بھی یا نہیں ہو گی؟ اس بارے میں کچھ بھی کہنا یقینا قبل از وقت نظر آ رہا ہے۔ چونکہ جن چیمپئنز سے آپ بہتری کی توقع لگائے بیٹھے ہیں‘ ان کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ''ملاح کو جہاز اُڑانے کا ٹاسک دے ڈالا ہو‘‘۔ ویسے بھی ایک معاشی اور اقتصادی سقراط اس ڈیڑھ سالہ اقتدار کا فرسٹ ہاف بری طرح ضائع کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم یہ بھی فرماتے ہیں کہ ریاستی ادارے فعال نہیں۔ اس بارے جان کی اَمان پاؤں تو عرض کروں کہ جو سرکاری ادارے حکمرانوں کے ذاتی مصاحبین اور رفقا کے رحم و کرم پر ہوں وہ کیسے فعال ہو سکتے ہیں۔ عطاالحق قاسمی کی بالٹیوں، کنگھیوں اور مبینہ طور پر الزامات کا طوفان کھڑا کرنے والوں نے پی ٹی وی جیسے قومی اثاثے کا کیا حال کر ڈالا ہے؟ کبھی فرصت ملے تو یہ بھی پتہ کریں کہ اس ادارے کو جن کے حوالے کیا گیا ہے وہ وہاں کون سا گل نہیں کھلا رہے؟ وہ خلافِ ضابطہ تعیناتیوں اور مہنگی تقرریوں سے لے کر ذاتی خواہشات کی تکمیل اور کاروباری فائدے اُٹھانے تک کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔
جس زرعی ملک کی فلور ملز اور چکیاں گندم کے دانے کو ترس جائیں اس عہد کے سلطان کو کچھ نہ ہی کہنے میں عافیت ہے۔ ایسے ملک کو کس حوالے سے ریاست مدینہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ رہی سہی کسر احتساب قوانین پر اُلٹی چھری چلا کر پوری کر دی گئی ہے۔ اس سے احتساب کی شہ رَگ کو انصاف سرکار کاٹنے میں کامیاب ہو چکی ہے لیکن جزا اور سزا کے تصور کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے‘ وہ بھی دورِ جدید کی ریاست مدینہ ہی کا کارنامہ ہے۔ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رَبّ کائنات نے بھی جزا اور سزا کے تصور کو اجاگر کرنے کے لیے جنت اور دوزخ بنا رکھی ہے۔ ماں باپ بھی اپنے لخت جگر کی ناقابلِ برداشت حرکتوں اور نافرمانی پر سزا دینے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ کیسی حکومت ہے جو ادویات اور اشیائے ضروریہ کی آگ میں عوام کو بھسم کر کے اب دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کرنے کے در پے ہے۔
آٹے کا گھاٹا مستقبل طور پر عوام کے کھاتے میں ڈالا جا چکا ہے۔ معیاری آٹے کی قیمت کسی طور اب عوام کی پہنچ میں نہیں آ سکے گی؛ البتہ غیر معیاری اور ناقص گندم کے آٹے پر ہی عوام کو گزارا کرنا ہو گا۔ رہی بات استطاعت رکھنے والی اقلیت کی تو آٹے کا بحران ان کے لیے نہ کل تھا‘ نہ آج ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہو گا کیونکہ وہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں سے ناواقف ہونے کے ساتھ ساتھ اشیائے تعیش کی قیمتوں سے بھی بے نیاز ہیں۔
اور اب آخر میں ایک وضاحت۔ منو بھائی کی دوسری برسی کے موقع پر مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان سندس فائونڈیشن آئیں تو انہوں نے تھیلیسیمیا کے بچوں کے لیے خون کا عطیہ دینے کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ وہ بائیس مرتبہ پہلے بھی خون کا عطیہ دے چکی تھیں۔ ڈاکٹرز اور ٹیکنیکل سٹاف نے کہا کہ بازو پر قمیض تنگ ہے اس لئے آستین کو چاک کرکے ہی خون لیا جا سکتا ہے۔ طے ہوا کہ ان کا سوٹ ضائع کرنے کی ضرورت نہیں‘ وہ واپس جا کر فائونڈیشن کے اسلام آباد سنٹر میں خون کا عطیہ دے سکتی ہیں؛ تاہم بروشر کے لیے ان کی ایک تصویر بنا لی جائے۔ اس ساری صورتحال کو سیاق و سباق سے ہٹ کر رپورٹ کیا گیا۔