"AAC" (space) message & send to 7575

راج ہٹ… !

سنسکرت زبان میں تین ضدیں بڑی مشہور ہیں جو آج نہ جانے کیوں بے اختیار یاد آ گئیں۔ یہ ضدیں کچھ یوں ہیں ''بال ہٹ، تریا ہٹ اور راج ہٹ‘‘۔ ان کا مطلب بھی بتاتا چلوں‘ بال ہٹ (بچے کی ضد)، تریا ہٹ (عورت کی ضد) اور راج ہٹ (حکمران کی ضد)‘ ہمارے ہاں سیاست اور ریاست میں یہ ساری ضدیں ہی کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اکثر فیصلہ ساز اور اربابِ اختیار بچے کی طرح ضد لگا بیٹھتے ہیں جس پر سننے اور دیکھنے والا بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے ''یہ کیا بچوں والی ضد لگا رکھی ہے‘‘ گویا اس ضد کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے اور اقدامات طفلانہ حرکت سے کم نہیں ہوتے‘ بھلے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ عورت کی ضد کے بے شمار واقعات اور مناظر ہماری ریاست و سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست ہو یا ریاست عورت کا کردار بہرحال کلیدی اور بعض اوقات فیصلہ کن بھی نظر آتا ہے۔ ماضی سے لے کر دورِ حاضر تک‘ خواب سے تعبیر تک‘ خیال سے تکمیل تک‘ ذاتی خواہشات سے من مانی اور بغاوت تک‘ رائے اور مشورے سے دوٹوک فیصلوں تک ''تریا ہٹ‘‘ کے بے شمار واقعات کوئے سیاست سے ایوانِ اقتدار تک عورت کی اہمیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان واقعات کی تفصیل میں جانے سے احتیاط بہتر ہے اور رہی بات ''راج ہٹ‘‘ کی‘ اس کا تو کوئی ''اَنت‘‘ ہی نہیں ہے۔ 
ملک کے طول و عرض میں صبح شام، جابجا حکمرانوں کی ضد کے بے تحاشا مناظر عوام کی توقعات اور اُمیدوں کا قتلِ عام کرتے نظر آتے ہیں۔ قارئین! آج کسی مخصوص موضوع پر بات کرنے کے بجائے چند خبروں اور واقعات پر آوارہ خیالی کرتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کا کہنا ہے کہ ابھی پاکستان پر مشکل وقت ہے... شاید اسی مشکل کو دور کرنے کے لیے ان کی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کی تجویز دی جا چکی ہے۔ اس موقع کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے وزرا اور ارکانِ اسمبلی نے بھی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ کر ڈالا ہے۔ 
برطانوی صحافی ڈیوڈ روز کے چیلنج اور روز روز کے طعنوں سے تنگ آ کر بالآخر شہباز شریف نے برطانوی عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا؛ تاہم مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ مقدمہ شروع ہونے میں نو ماہ سے ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس دوران شہباز شریف کو چور یا زلزلہ زدگان کی امدادی رقم پر ہاتھ صاف کرنے والا کہنے سے گریز کیا جائے گا اور شہباز شریف کے لیے یہ سال بھر کا عرصہ غنیمت اور عافیت سے کم نہیں۔ 'کل کی کل دیکھی جائے گی‘ کے مصداق انہوں نے یہ بلا فی الحال اپنے سَر سے ٹال دی ہے۔ جھوٹ تو وہ بولتے نہیں... بڑے بھائی کے پلیٹ لیٹس کے گرنے چڑھنے کا معاملہ ہو یا ان کی جان لیوا بیماری ہو‘ بیرون ملک نہ جانے کی صورت میں نواز شریف کی جان کو لاحق خطرات ہوں‘ بے نامی جائیدادوں اور اکاؤنٹس کا معاملہ ہو یا بوگس کمپنیوں اور بیرونی ممالک سے ٹی ٹیوں (ٹیلی گرافک ٹرانسفرز) کے ذریعے بھاری رقوم کی ترسیل‘ انہوں نے تو کسی معاملے پر کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ بس یہی کہتے ہیں ''کوئی ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت کرکے دِکھائے‘‘۔ رہی بات بیماری پر واویلا کرنے کی وہ تو پوری قوم پر اب آشکار ہو چکا ہے کہ کس پلاننگ اور ڈھونگ کے تحت نواز شریف کو بچا لے گئے۔ 
سوشل میڈیا بھی بہت بے رحم چیز ہے۔ اس سے نہ کوئی بچ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی بھاگ سکتا ہے۔ لندن کی سڑکوں پر بھاگتے پھرنے اور ہوٹلنگ کے دوران شریف خاندان کی وائرل ہونے والی ویڈیو کلپس سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کی جان کو کتنا خطرہ ہے اور وہ کون کون سی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہیں۔ رہی بات شہباز شریف کی تو ان کے بارے میں حکومتی حلیف اور وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید روزِ اوّل سے شور مچا رہے ہیں کہ ''شہباز شریف کی گوٹی فٹ ہو چکی ہے‘‘؛ تاہم انصاف سرکار کے وزرا کے واویلے پر تعجب ہے کہ وہ نواز شریف کی بیماری کو کس طرح ڈھونگ اور ڈرامے بازی ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ حکومت اُن کی‘ ہسپتال اُن کے‘ معالج اُن کے‘ لیبارٹریاں اُن کی‘ سبھی کچھ تو انصاف سرکار کا‘ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس سے لے کر جان لیوا بیماریوں کا احوال بھی تو انہی کی لیبارٹریوں سے جاری ہوتا تھا۔ اَب کس منہ سے نواز شریف کی بیماری کو جھٹلانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اگر نواز شریف کی بیماری جھوٹی ہے تو پھر انصاف سرکار کو وہ سارے ہسپتال اور لیبارٹریاں بند کر دینی چاہئیں جو نواز شریف کی بیماری کی تشخیص اور علاج معالجے پر مامور تھے۔انصاف سرکار کے ایک اور اقتصادی سقراط شبر زیدی غیر معینہ مدت کے لیے اپنے اَصل کی طرف لوٹ چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ خرابیٔ صحت اور شدید دباؤ کے باعث ذمہ داریاں دوبارہ سنبھالنے کے امکانات کم ہیں جبکہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اَندرونی اختلافات اُن کے جانے کی وجہ بنے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی رخصت میں جانے کی تاریخ تو درج ہے لیکن واپسی کی تاریخ کا کوئی تعین نہیں کیا گیا؛ تاہم مہنگائی کا عذاب دِن بدن ناقابلِ برداشت ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آٹے کے گھاٹے کے بعد چینی کی قیمتوں کا زہر عوام کی زندگیوں میں سرایت کر چکا ہے جبکہ اشیائے ضروریہ اور سبزیوں کی قیمتوں میں لگی ہوئی آگ سے جھلسے ہوئے عوام یہی سوچ سوچ کر بے حال ہوئے چلے جا رہے ہیں کہ کیا پکائیں اور کیا کھائیں... سبھی کچھ تو اُن کی قوتِ خرید سے باہر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ 
عوام کی چیخیں نکلوانے سے کہیں بہتر ہے کہ مزید لاروں لپوں اور دلفریب دعووں سے نکل کر اُس اشرافیہ کی بھی خبر لیں جو چند دہائیوں پہلے اندرونِ شہر یا متوسط آبادی کے مکین تھے اور آج مہنگے ترین پوش علاقوں میں وسیع و عریض کوٹھیوں میں اس طرح رہائش پذیر ہیں جیسے اِن کے آباؤاجداد بھی انہی کوٹھیوں اور بنگلوں میں پیدا ہوئے تھے۔ جو اس خوف میں مبتلا اور سہمے بیٹھے ہیں کہ منشیوں اور ڈرائیوروں کے نام پر چلنے والے بینک اکاؤنٹس کا کیسے جواب دیں گے۔ ماموں‘ چاچوں اور دیگر سسرالی عزیزوں کے نام پر لگائی گئی جائیدادیں کس طرح حلال ثابت کریں گے۔ لمبے چوڑے کاروبار اور مہنگے ترین یا بیرون ملک تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے اخراجات‘ ٹھاٹھ باٹھ اور دیگر آسائشوں کے بارے میں کیسے بتائیں گے‘ کیا بتائیں گے؟ بیگم صاحبہ سے لے کر بچوں تک سبھی کی الگ الگ بیش قیمت گاڑیاں‘ دبئی‘ امریکہ کی سیریں اور تواتر سے عمرے اور حج سمیت سبھی کے لیے جواز اور ذرائع ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود کہیں گم ہوتے نظر آتے ہیں۔ 
معاشرے میں ہمارے اردگرد دو چار لوگ نہیں بلکہ ایک ہجوم نظر آتا ہے جن کا ماضی اور سماجی و مالی پس منظر ثانوی سے بھی کم درجے کا حامل تھا لیکن آج کوئی تاجر رہنما ہے تو کوئی عوامی رہنما۔ کوئی سماج سیوک ہے تو کوئی بزنس ٹائیکون بن کر اترائے پھر رہا ہے۔ مال منہ کالا کرکے کمایا ہو یا ہاتھ رنگ کر‘ بنامِ دین مال بنایا ہو یا بنامِ وطن‘ سہولت کاری کی ہو یا ضمیر کو تھپکیاں دے کر سلایا ہو‘ بھتہ خوری کی ہو یا کمیشن وصول کی ہو‘ دھوکہ دہی کی فنکاری ہو یا اخلاقی و سماجی قدروں کی گراوٹ‘ کسی کو اُجاڑ کر اپنی دنیا سنواری ہو یا دیگر غیر قانونی ذرائع سے کمائی گئی دولت ہو‘ یہ سبھی کالے دَھن کے روپ بہروپ ہیں۔ یہ سارے کردار جو اِتنے معتبر اور باعزت بنے پھرتے ہیں صرف ایک سوالنامے کی مار ہیں جس کے نتیجے میں ان کا کالا دَھن سرکاری خزانے کا حصہ بن سکتا ہے۔ 
بدقسمتی سے ہمارے ہاں قدرت نے جسے بھی گورننس کی نعمت عطا کی اُس نے اس عطا کو اپنی استادی، مہارت اور اہلیت سے ہی منسوب کر ڈالا۔ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ خود ان کی کسی اَدا کا ''چمتکار‘‘ ہے۔ ''راج ہٹ‘‘ کا شکار انصاف سرکار کی اپنی ہی صفوں میں ایسے چیمپئنز کثرت سے پائے جاتے ہیں جو اپنی آنکھوں میں اچھے خاصے شہتیر لیے پھرتے ہیں جبکہ دوسروں کی آنکھ میں تنکے کو لے کر آسمان سر پہ اُٹھا لیتے ہیں۔ کیا حلیف کیا حریف سبھی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریک اقتدار ہونے کے باوجود حلیفوں کے حریفوں سے فاصلے دن بدن کم ہوتے دِکھائی دے رہے ہیں۔ راج ہٹ کا یہ سلسلہ مزید جاری رہا تو عین ممکن ہے کہ حلیف اور حریف کا فرق بھی باقی نہ رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں