روٹی کپڑا اور مکان اورقرض اُتارو ملک سنوارو جیسے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی جھانسے کھانے والی قوم اب تحریک انصاف کے سماجی انصاف اور کڑے احتساب کا حشرنشر دیکھنے پر مجبور ہے۔ احتساب قوانین پر اُلٹی چھری چلانے والی انصاف سرکار کو مبارک ہو کہ ترمیمی آرڈیننس کے بعد ''معرکہ نیب‘‘ کے پہلے غازی کا اعزاز پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کو مل چکا ہے۔ وہ ان تمام الزامات سے بری ہو چکے ہیں جن کا ڈھول تحریکِ انصاف بھی خوب پیٹتی رہی ہے‘ جبکہ شریک ملزمان میں شامل سابق ایم ڈی پیپکو طاہر بشارت چیمہ اور سابق وفاقی سیکرٹری شاہد رفیع بھی اپنے ساتھیوں سمیت دودھ کے دُھلے قرار دے دئیے گئے۔ کیا راکٹ سائنس ہے کہ لوٹنے والوں کے ہاتھ بھی صاف اور خزانہ بھی صاف۔ تعجب ہے کہ ہاتھ کی صفائی دکھانے والوں کے دامن اور ہاتھ دونوں ہی صاف رہتے ہیں۔ اس ملک کی معیشت اور وسائل کو جس بے دردی سے بھنبھوڑا گیا ہے‘ اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں ان ''غازیوں‘‘ کی تعداد میں یقینا اضافہ ہو گا۔ یہ سبھی اس ''کلین چٹ‘‘ کے بعد مظلوم بن کر عوام کو چیخ چیخ کر بتائیں گے کہ انہیں کس طرح ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا اور کس طرح بے بنیاد الزام لگا کر ان کے محبوب لیڈروں کی شہرت کو داغدار کیا گیا اور عوام ہمیشہ کی طرح ان کے جھانسے میں ضرور آجائیں گے۔
مملکتِ خداداد میں بسنے والے بھی عجیب لوگ ہیں... زندہ یا مردہ تو دُور کی بات ان میں قوم والی کوئی بات نظر ہی نہیں آتی... ہر دور میں ''جوتے اور پیاز‘‘ برابر اور تواتر سے کھانے کے باوجود اپنے اپنے لیڈروں کے کارناموں اور کرتوتوں پر نازاں اور شاداں ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں کوئی ایسا مائی کا لعل لیڈر نہیں کہ جس کا دائو لگا ہو اور اس نے ہاتھ صاف نہ کیا ہو۔ پورا ملک لُٹ گیا‘ اس کے وسائل اور دولت کو بے دردی سے بھنبھوڑا گیا‘ قانون اور ضابطے کو گھر کی باندی بنائے رکھا‘اقربا پروری اور بندر بانٹ کو بے تحاشا فروغ دیا گیا‘ بیرونی قرضوں پر سیر سپاٹے اور موج مستی کو استحقاق سمجھا گیا‘ حلف اور آئین سے انحراف نصب العین بنایا گیا۔ ان تمام وارداتوں کے ذمہ داران ہیں کہ کچھ ماننے کو تیار ہی نہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر خود کو معصوم ‘بے گناہ اور دودھ کا دھلا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ملک دیوالیہ ہونے کو ہے لیکن چوروں اور لٹیروں سے ریکوری تو درکنار معاملہ تاحال استغاثوں‘ گواہوں‘ پیشیوں‘ انکوائریوں اور آنیوں جانیوں سے آگے نہ جاسکا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ''اِک اِک کرکے چھوٹ گئے سارے‘‘۔
چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ نیب بنانے والے ہی اسی ادارے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ۔گویا چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں کہ یہ ادارہ ہم نے اپنے لیے نہیں بلکہ مخالفین اور حریفوں کو زیرِ عتاب رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ نواز شریف تو کئی بار اس پچھتاوے کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ کاش وہ آرٹیکل 62/63 ختم کرنے کی پیپلز پارٹی کی پیشکش مسترد نہ کرتے۔ کھال اور گردن بچانے کے لیے چور ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے سرگرم اور گٹھ جوڑ پر ہمیشہ آمادہ رہے۔ نواز شریف سے لے کر بے نظیر تک‘ مشرف سے لے کر آصف زرداری تک ہر دور میں مفادات کے ماروں نے ملک و قوم کی دولت اور وسائل کے بٹوارے سے لے کر اقتدار کے بٹوارے تک ایک دوسرے کی بڑی سے بڑی واردات سے چشم پوشی کی روایت کو دوام بخشا۔ البتہ ''فیس سیونگ‘‘ اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو‘ لٹیرا کہنے پر کوئی ممانعت نہیں رہی‘ بلکہ یہی ''انڈرسٹینڈنگ‘‘ چلی آرہی ہے۔
اس ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان حکمرانوں اور اُن کے سرچڑھے اور ''عالی دماغ‘‘ وارداتی افسران نے پہنچایا ہے۔ سیاسی دبائو اثر ورسوخ ‘ دھاندلی اور سہولتکاری کے نتیجے میں انتہائی اہم اور حساس محکموں میں چن چن کر نااہل ‘ خوشامدی‘احساس ذمہ داری سے عاری اور بوئے سلطانی کے نشے میں دھت افسران کو کلیدی عہدوں پر فائز کیا گیا۔ایک نااہل خوشامدی اور ذاتی ایجنڈے پر عمل پیرا سربراہ سے توقع ہی ادارے کی موت ہے کہ وہ مفاد عامہ پر پالیسی بنائے... قانون اور ضابطے پروموٹ کرے‘ ایسے سربراہ بھلا کسی ادارے کو چلانے کا بار کیسے اٹھا سکتے ہیں۔اہلیت اور میرٹ کے برعکس کیے جانے والے حکمرانوں کے فیصلوں کا خمیازہ ہمیشہ عوام نے بھگتا ہے۔
احتساب صرف مالی بدعنوانی اور بے ضابطگی کا ہی نہیں بلکہ نااہلی کا بھی ہونا چاہیے۔ ایسے نااہلوں سے یہ پوچھا جانا کیا عین منطقی نہیں کہ جس کام کی تکمیل سے غیر معمولی پیکج ‘مراعات ‘ فائیو سٹار دورے‘ ضیافتیں‘ سیر سپاٹے‘ طویل دورانیے کی میٹنگز اور شکم سامانیاں مشروط تھیں‘ جب وہ نہیں ہوسکاتو یہ سب کچھ کس کھاتے میں؟ ان سے یہ پوچھا جانا بھی لاجیکل ہے کہ جن کلیدی عہدوں پر غول در غول حملہ آور ہوئے اور ملیامیٹ کیا اور اگلا پڑائو‘ نئی گھات‘ یہ کونسی قومی خدمت ہے؟ ''لٹنا اور مٹنا‘‘ کیا صرف عوام ہی کا نصیب ہے؟ ان کاریگر اور سہولتکار حکام کا صرف ایک ہی مشن ہے ''عوام کی مت مار دو‘‘ اور ''خواص کا ضمیر مار دو‘‘ اس کے بعد دروغ گوئی اور فرضی اعداد وشمار کے ساتھ کارکردگی اور گورننس کا ایسا ''ڈھول پیٹو‘‘ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ سابقہ ادوار کا موجودہ دور حکومت سے موازنہ کریں تو اکثر معاملات میں تو ''ایکشن رِی پلے‘‘ ہی نظر آتا ہے۔
''رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کے تصور کی نفی حکومت کے گلے پڑ چکی ہے۔ پروفیشنلز کے بجائے ذاتی رفقا اور مصاحبین کو شریک اقتدار کرنے کا تجربہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے‘ بلکہ یہ مصاحبین مسلسل حکومتی سبکی اور بدنامی کا باعث بننے کے باوجود بدستور بااختیار‘ براجمان اور منتخب وزرا پر حاوی نظر آتے ہیں اور ہر ناکامی اور بری خبر کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہرا کر خود بری الذّمہ ہو جاتے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ 22سال سے جدوجہد میں مصروف سابق حکمرانوں کی لوٹ مار اور بدعنوانیوںپر سیاست کرنے والی انصاف سرکار معیشت سے لے کر گورننس تک‘ امن و امان سے لے کر حکمرانوں کی نیت تک سبھی کچھ تو دھرنوں میں چیخ چیخ کر عوام کو بتاتی رہی ہے۔ ملکی خزانے سے لے کر حکمرانوں کی املاک اور ملکی و غیر ملکی اکائونٹس تک ساری خبریں تو یہ خود عوام کو دیتے تھے۔ اس کیا ہو گیا؟
حیلے بہانوں اور سابق حکمرانوں کو موردِ الزام ٹھہرا تے ٹھہراتے انصاف سرکار ڈیڑھ سال گزار چکی ہے۔ اب تو اپنی ہی پارٹی میں مزاحمت اور شکوے شکایات کی خبریں زبان زدِ عام ہیں جبکہ حلیفوں کے ساتھ اختلافات کی فصل بھی پک چکی ہے۔ ایم کیو ایم کے بعد مسلم لیگ(ق) کے ساتھ اختلافات اور تحفظات کی خلیج دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے۔گزشتہ روز وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کی اور وزیراعظم کا پیغام پہنچایا‘ لیکن وہ انہیں مذاکرات پر قائل نہ کر سکے۔ اس موقع پر موجودگی کے باوجود چوہدری شجاعت حسین اور مونس الٰہی دانستہ مذاکرات میں شریک نہ ہوئے اور مسلم لیگ(ق) تاحال اپنے مؤقف پر ڈٹی دکھائی دیتی ہے‘ جبکہ دور کی کوڑی لانے والے مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف کے درمیان اس خلیج کو مزید بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور حالات جلد ہی ''پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر پہنچتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ چند غلط فہمیاں ہیں جو جلد دور ہو جائیں گی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے تحریک انصاف والوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حالات کے ساتھ ساتھ خود کو بھی سنبھال کر چلیں۔یہ سب جانتے ہیں کہ ''پنجاب ڈلیور نہیں کر رہا‘‘ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اختلافات کی اس تیار فصل کی کٹائی کب شروع ہوتی ہے اور اس کٹائی میں مشینری کہاں سے آتی ہے اور افرادی قوت کیسے پوری ہوتی ہے۔