"AAC" (space) message & send to 7575

عبادات میں مگن… معاملات میں صفر

کبھی کبھی دل چاہتا ہے‘ مجہول سیاست سے بچ بچا کر صرف ان مسائل پر بات کی جائے جن کا تعلق عوام اور صرف عوام سے ہو... لیکن باوجود کوشش کے ہر بار ناکام ہی رہتا ہوں کیونکہ بات عوام کی ہو اور اس میں سیاست کا ذکر نہ آئے... یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ عوام کو لاحق خدشات سے لے کر مسائل تک سبھی تو اسی سیاست اور ریاست سے جڑے ہوئے ہیں۔ نوحہ عوام کے مصائب کا ہو اور حکمرانوں کا ذکر نہ آئے یہ ممکن ہی کہاں ہے؟ کرموں جلے عوام نے بھی کیا مقدر پایا ہے‘ ان کے نصیب میں جب مرچنٹ حکمران لکھے ہوں تو ان کی بد نصیبی کو کون ٹال سکتا ہے؟ ہوس زرّ کے ماروں نے اخلاقی قدروں سے لے کر سماجی قدروں تک سبھی کچھ تو توڑ ڈالا ہے۔ جس معاشرے میں ٹریفک سگنل سے لے کر قوانین اور آئین توڑنے والے تک ماورائے قانون اور ناقابلِ گرفت سمجھے جاتے ہوں‘ وہاں لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) سے لے کر دیگر سرکاری محصولات اور ایس آر اوز کی نت نئی واردات تک‘ ذخیرہ اندوزی سے لے کر چور بازاری، بلیک میلنگ اور بلیک مارکیٹنگ تک سبھی کچھ چلتا ہے۔ 
اِن سبھی وارداتوں کی داستان اتنی طویل ہے کہ اگر سپردِ قلم کرنے چلوں تو ایسے درجنوں کالم بھی کم پڑ جائیں۔ لمبا مال بنانے اور سرمائے کو چار چاند لگانے والوں نے ایسا ایسا ''شارٹ کٹ‘‘ ایجاد کیا کہ پورا سسٹم ہی شارٹ کر ڈالا ہے۔ ہوسِ زَر کے ماروں نے ایسا اندھیر مچایا کہ سب کچھ صاف صاف نظر آ رہا ہے۔ اقتدار اور اختیار کے زور پر کیسی کیسی ''انجینئرڈ‘‘ واردات نہیں کی گئی۔ شارٹ کٹ میں بھی ایسا کٹ لگایا کہ ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) کھلوانے کے لیے بھی قرض لینے والے جیسے ہی ایوانِ اقدار میں داخل ہوئے تو کیسی ایل سی‘ کیسی کسٹم ڈیوٹی‘ کسٹم حکام کے گلے پہ انگوٹھا رکھ کر برآمد شدہ مال ''باؤنڈڈ ویئر ہاؤس‘‘ (Bounded Warehouse) میں منتقل کروایا جاتا رہا۔ قابلِ ذکر اور تشویشناک بات یہ کہ باؤنڈڈ ویئر ہاؤس بھی اپنی ہی فاؤنڈری میں بنوائے جاتے‘ جس کے بعد انتہائی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے ویئر ہاؤس سے درآمد شدہ مال چوری کیا جاتا‘ کھلے عام استعمال کیا جاتا اور مال بنایا جاتا۔ پھر اپنی سہولت‘ آسانی اور من مرضی کے مطابق سرکاری ڈیوٹیاں اور بینکوں کی ادائیگیاں کی جاتیں۔ یعنی ''ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا‘‘۔ 
اس ساری واردات میں محکمہ کسٹم سمیت کسی سرکاری ادارے کی اوقات اور مجال ہی کیا جو اِن ''حکمران مرچنٹس‘‘ کو روک سکے؛ چنانچہ یہ اسی طرح شارٹ پہ شارٹ کٹ لگاتے رہے اور اپنی دنیا سنوارتے رہے۔ یہ واردات اس ڈھٹائی سے کی جاتی کہ پوری منڈی ہی غیر متوازن ہو کر رہ گئی۔ مرچنٹ حکمرانوں کا مقابلہ بھلا کون کر سکتا ہے؟ ان حکمرانوں کا سکریپ اور لوہا دیگر سٹیل ملز پر بھاری پڑتا چلا گیا اور اتنا بھاری پڑا کہ اچھی بھلی سٹیل ملز ہلکی ہوتے ہوتے ہلکان ہو کر رہ گئیں۔ بینکوں اور سرکاری ڈیوٹیوں پر پلنے والے یہ حکمران اخلاقی قدروں سے لے کر قانون اور ضابطے تک کو پامال کرنے کی ساری حدیں ہی پار کر گئے۔ 
کئی نسلوں سے فیکٹریاں اور کاروبار چلانے والے نامی گرامی خاندان اور بڑے بزنس گروپس ان شریفوں سے مسابقت میں کہیں کے کہیں رہ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مرچنٹ حکمران کہاں سے کہاں پہنچتے چلے گئے۔ فرش سے عرش پر پہنچنے والے فرش پر کیسے رہتے تھے اور معمولاتِ زندگی چلانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلتے تھے۔ عرش پر جانے کے لیے کس اُڑن کھٹولے کا سہارا لیا گیا۔ اس بارے میں لوگ لا علم نہیں ہیں۔ اس اُڑن کھٹولے پر بیٹھتے ہی دنیا جہان کی دولت اور آسائشیں ان کے گھر کی باندیاں بنتی چلی گئیں۔ ان کے منہ سے نکلے الفاظ حکم اور قانون بنتے چلے گئے۔ حکومتی ادارے ان کے در پر دست بستہ اور ریاستی وسائل ان کے باپ دادا کی جاگیر بنتے چلے گئے‘ گویا اِدھر یہ ''اُڑن کھٹولے‘‘ پر بیٹھے‘ اُدھر عوام کی بنیادی ضروریات ''اُڑن چھو‘‘ ہوتی چلی گئیں۔ 
اسی طرح ملکی و غیر ملکی کرنسی نوٹوں کی لانچیں بھر بھر کر نقل و حمل سے لے کر بے نامی اکاؤنٹوں‘ جائیدادوں‘ اونے پونے درجنوں شوگر ملز کے مالک بننے کے لیے قلانچیں بھرنے والوں سے کون واقف نہیں؟ بھاری رقوم کی ٹیلی و گرافک ٹرانسفر (ٹی ٹیوں)‘ اپنے قریبی حواریوں اور دوستوں کے نام پر قائم کی گئی کمپنیوں کے ذریعے بنایا گیا لمبا مال کون جھٹلا سکتا ہے؟ مفادِ عامہ اور تعمیر و ترقی کے لیے مختص سرکاری رقوم پر ہاتھ صاف کرنے والوں نے کراچی اور اندرونِ سندھ کو کس حال پر پہنچا ڈالا ہے اس درد ناک حقیقت سے کون واقف نہیں؟ 
سابق حکمرانوں کی چند وارداتوں کی داستان اتنی طویل ہے کہ اگر ان پر مزید بات کی گئی تو انصاف سرکار کے ہاتھوں عوام کی بننے والے دُرگت اس کالم میں جگہ نہ پا سکے گی؛ چنانچہ اب چلتے ہیں ان چیمپئنز کی طرف جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے نمائشی اعلانات کر کے عوام پر احسان جتاتے نہیں تھکتے۔ آٹا گردی ہو یا چینی کی واردات مال بنانے والے مال بنا کر اپنی اگلی گھات کی جانب رواں دواں ہیں اور انصاف سرکار عوام کو یوٹیلٹی سٹورز کی چوسنی سے بہلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس واردات میں حکمران پارٹی کے لوگ شامل ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ اس لوٹ مار میں اَپوزیشن کے مخصوص لوگ بھی شریک جرم ہیں۔ ان سب کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو لیکن لوٹ مار اور مفادات کے جھنڈے تلے یہ سب ایک ہیں۔ ان سبھی کا ایک ہی ایجنڈا ہے مال بناؤ اور مال لگاؤ... خود بھی لوٹو اور دوسروں کو بھی لوٹنے دو اور جب عوام زیادہ شور مچانے لگیں تو ''لُٹّو تے پُھٹّو‘‘۔ حکمران سابق ہو یا موجودہ عوام کی حالت زار میں نہ کل کوئی فرق پڑا تھا اور نہ ہی آئندہ ایسا ہوتا دِکھائی دے رہا ہے۔ 
اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اقتصادیات کا نہیں بلکہ اخلاقیات کا ہے۔ اخلاقی گراوٹ نے معاشیات سے لے کر سماجیات تک سبھی کو ''لیرولیر‘‘ کر ڈالا ہے۔ مال بنانے کی دوڑ میں ہر کوئی حرام و حلال سے بے نیاز سرپٹ دوڑے چلے جا رہا ہے۔ عبادات میں مگن... معاملات میں صفر... یہ بھی نہیں جانتے کہ جن عبادات کا کردار اور اخلاق پر اثر نہ ہو وہ محض مشقت ہے۔ جہاز بھر بھر کر حج اور عمرہ پر جانے والے کس فخر سے کعبۃاﷲ کے آگے سیلفیاں اُترواتے اور کہتے پھرتے ہیں کہ پھر بلاوا آ گیا ہے۔ وہ غافل اور نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ بلاوا نہیں پیشیاں ہوتی ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینے میں نماز اور محافلِ شبینہ کے وقت مساجد میں جگہ کم پڑ جاتی ہے لیکن تعجب ہے زور و شور سے عبادات کرنے والے اس معاشرے سے نہ چور بازاری ختم ہوتی ہے اور نہ ہی ذخیرہ اندوزی... نہ کوئی کم تولنے سے باز آتا ہے اور نہ ہی کوئی ملاوٹ کو گناہ سمجھتا ہے۔ گویا ''رِند کے رِند رہے... ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘۔ 
انصاف سرکار مہنگائی کا جن قابو کرنے میں بری طرح ناکام ہو کر عوام کو اس یوٹیلٹی سٹور کا راستہ دِکھا رہی جسے پہلے ہی اَربوں کے خسارے کا سامنا ہے۔ ''لُٹا پِٹا‘‘ یوٹیلٹی سٹور کب تک عوام کو مصنوعی ریلیف دے سکے گا۔ بات دو چار روپے فی کلو کی نہیں بلکہ گورننس کی ہے، حکومتی رِٹ کی ہے جو کہیں نظر نہیں آتی۔ چوالیس ہزار افراد کے لیے ایک یوٹیلٹی سٹور اور اس پر بھی صرف چند اشیائے ضروریہ کے سوا کچھ بھی دستیاب نہیں۔ عوام کو پیٹ بھر روٹی‘تعلیم‘ صحت اور امن و امان سے لے کر دیگر ضروریاتِ زندگی کی فراہمی تک سے یہ حکمران بے نیاز ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ یوٹیلٹی بلز پر بلبلاتے عوام کو بچوں کی تعلیم اور صحتِ عامہ سے عاجز کر دیا گیا ہے اور انہیں پیٹ بھر روٹی کے لالے پڑ چکے ہیں جبکہ روٹی سے عاجز عوام کے جان و مال کی نہ کوئی قیمت ہے اور نہ ہی کوئی وقعت۔ 
چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ آٹے کے گھاٹا ہو یا چینی کا بحران... مہنگائی کا جن ہو یا پٹرول کی چھترول‘ ان سبھی کی تان نیتوں اور اخلاقیات پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے اور معیشت کا براہِ راست تعلق نیت سے ہی ہے۔ جب تک نیت صاف نہیں ہو گی معیشت ہرگز مستحکم نہیں ہو سکتی‘ نیت بھلے سادہ حکمران کی ہو یا مرچنٹ حکمران کی... رہی بات تاجر طبقے کی وہ مال بنانے کا کوئی لمحہ اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں