"AAC" (space) message & send to 7575

بنیادی جمہوریت اور پَر کترنے والے

کالم کا پہلا حصہ نعیم الحق کے نام‘ جو گزشتہ روز کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتے لڑتے خالقِ حقیقی سے جاملے۔وہ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی امو ر تھے جبکہ سیاست میں آنے سے قبل اُن کے فنانشل ایڈوائزر کے طور پر مالی معاملات بھی دیکھتے رہے۔ انہوں نے زندگی کے سفر کا آغاز بینکار کے طور پر کیا۔ آٹھ سال امریکہ میں نیشنل بینک کے منیجر رہے اور پھر ٹرانسفر کے نتیجے میں انگلینڈ شفٹ ہوگئے۔انہی دنوں عمران خان سے پہلی ملاقات ہی دوستی کی ابتدا ٹھہری۔وطن واپس لوٹے تو کراچی سے سیاست کا آغاز کیا‘ تحریکِ استقلال کے ٹکٹ سے ایم این اے کا الیکشن لڑا اور جب تحریک انصاف بنائی گئی تو عمران خان نے انہیں سندھ کا پارٹی صدر بنا دیا۔ ادھر تحریک انصاف برسرِ اقتدار آئی اُدھر نعیم الحق کینسر کے نرغے میں برُی طرح پھنس چکے تھے۔ یہ موذی مرض دھیرے دھیرے اندر ہی اندر انہیں چاٹ رہا تھا ‘مگر وہ اُجلے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر چہرے پر مسکان سجائے ہر میٹنگ میں متحرک اور سرگرم نظر آتے۔ 
ابھی چند روز قبل ہی وزیراعظم سے ملاقات کر کے اپنے بیٹے امان الحق کے ساتھ اسلام آباد سے کراچی گئے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ ان کی یہ ملاقات آخری ثابت ہوگی۔ اہلیہ کی وفات کے بعد وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے ہوکر رہ گئے تھے۔ کراچی چھوڑ کر بنی گالہ کے ایک کمرے میں رہائش پذیر تھے اور وزیراعظم کے لیے مشاورت کے ساتھ ساتھ کابینہ میں بھی وہ ممتاز مقام رکھتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ سانحہ ساہیوال کے بعد وہ لاہور آئے تو گورنر پنجاب چوہدری سرور اور وفاقی وزیر عثمان ڈار کے ہمراہ انہوں نے کالم نگاروں اور سینئر صحافیوں کو کھانے پر مدعو کیا۔ غیر رسمی گپ شپ کے دوران سانحہ ساہیوال کا ذکر چھڑ گیا اورانہوں نے مقتول خاندان کو دہشت گرد کہتے ہوئے پولیس کے مؤقف کی تائید کی تو میں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے چند سوال کر ڈالے ‘جس پر وہ نہ صرف لاجواب رہے بلکہ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ انہیں اس بارے میں کوئی باقاعدہ اطلاع نہیں‘ تاہم وہ متعلقہ حکام سے پوچھ کر بتا سکتے ہیں۔ جس پر میں نے کہا کہ پہلے آپ تصدیق اور تحقیق کر لیں اس کے بعد مقتول خاندان پر کوئی الزام لگائیں۔ ماحول تھوڑا سا گرم ہوا تو انتظامیہ نے آواز لگائی کہ کھانا کھل گیا ہے اور ان سے باقی کی گپ شپ کھانے کے دوران جاری رہی۔ 
نعیم الحق عمران خان کے انتہائی قریبی تھے اور امورِ حکومت میں ان کی رائے اپنا وزن رکھتی تھی‘ یہی وجہ تھی کہ اکثر معاملات اور فیصلوں کی تان انہیں پر آکر ٹوٹتی رہی ‘ جس کی وجہ سے انہیں اکثر تنقید کا سامنا بھی رہا۔ عمران خان سے آخری ملاقات میں وہ ایک فرمائش ضرور کر گئے ہیں کہ شہباز گُل کو اپنے قافلے میں شامل رکھیں۔ ویسے بھی یوسف بیگ مرزا مستعفی ہو کر گھر جاچکے ہیں۔ طاہر اے خان کو بھی ایک خبر شائع کرنے پر گھر جانا پڑا اور ندیم افضل چن وزیراعظم کے ترجمان ہونے کے باوجود ترجمانی کے جوہر دکھانے میں مسلسل احتیاط اختیار کیے ہوئے ہیں۔ افتخار درانی بھی ''بوجوہ‘‘ سبکدوش کر دئیے گئے ہیں ایسے میں شہباز کو پرواز کے لیے سازگار ماحول میسر آچکا ہے‘ جبکہ وزیراعظم نے شہباز گُل کو معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی معاونت کی ہدایت کی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ اب شہباز کرے گا پرواز‘ کیونکہ پر کترنے والے سارے ہی ٹھکانے لگ چکے ہیں۔ 
اب چلتے ہیں اپنے اگلے موضوع کی طرف... میرے شہر لاہور میں کتا گردی عروج پہ پہنچ چکی ہے۔ تادمِ تحریر گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں مزید 68کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ نہ کہیں انتظامیہ نظر آتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی رٹ۔ اہم شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تو کہیں اندھے گڑھے ٹریفک حادثات کے ساتھ ساتھ عوام کی مہنگی گاڑیوں کی تباہی کا بھی باعث بن رہے ہیں۔ ضلعی حکومتیں بابوؤں کے رحم و کرم پر ہیں اور ایسا ایسا بابو چن چن کر تعینات کیا گیا ہے کہ الامان و الحفیظ۔اگر صوبائی دارالحکومت لاہور کا یہ عالم ہے تو باقی سارے صوبے کا تو پھر اﷲ ہی حافظ ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے تو ڈیڑھ سال کی قلیل مدت میں سابقہ حکومتوں کے نہ صرف سارے ریکارڈ توڑ ڈالے بلکہ بد ترین طرزِ حکمرانی کے نئے ریکارڈ بھی بنا ڈالے۔ ادویات سے لے کر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں تک‘ علاج معالجہ سے لے کر تعلیم تک‘مفادِ عامہ سے امن و امان تک سرکار اور گورننس کہاں نظر آتی ہے؟ 
خدا جانے جمہوریت کے علمبردار حکمرانوں کو بنیادی جمہوریت سے کیا خوف اور عناد ہے؟ باتیں جمہوریت کی کرتے ہیں ‘ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر انہی کے نمائندوں کے ذریعے حل کرنے کے بھاشن دیتے ہیں‘لیکن ریکارڈ یہ ہے کہ حکمران سابقہ ہوں یا موجودہ‘ سب ہی ان اداروں سے خائف اور شاکی نظر آتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کو ڈکٹیٹر کہنے والے جمہوریت کے علمبردار سیاستدانوں کے ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ اپنے نو سالہ اقتدار میں دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات بروقت کروائے اور بااختیار بلدیاتی اداروں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دینے کا کریڈٹ بھی جنرل پرویز مشرف کو ہی جاتا ہے۔ 
آئیے بلدیاتی اداروں سے خائف جمہوریت کے علمبرداروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 2008ء میں مسلم لیگ(ن) نے پنجاب میں برسر اقتدار آکر سات سال تک مختلف حیلوں بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کا راستہ روکے رکھا۔ ''بوئے سلطانی‘‘ کے مارے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کئی بار بلدیاتی انتخابات کا شیڈول بھی جاری کیا۔ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اور سکیورٹی کی رقم بھی وصول کی گئی لیکن انتخابات کروانے کا حوصلہ نہ کر سکے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت اور حکم پرمجبوراً 2015ء میں شہباز شریف کو بلدیاتی انتخابات کروانے پڑے۔ انتخابات تو خدا خدا کرکے ہوگئے‘ لیکن ایک سال تک حکومت منتخب نمائندوں کی حلف برداری سے بھاگتی رہی۔ بالآخر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق دسمبر 2016ئمیں منتخب نمائندوں کی حلف برداری اور مئیرز اور ضلعی چیئرمینوں کا انتخاب اور ان کی حلف برداری کا عمل مکمل ہوا اور اس طرح ایک لولا لنگڑا‘ غیر فعال اور بیوروکریسی کے مرہون منت نیا بلدیاتی نظام دے کر پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل‘ آئین اور قانون کی پاسداری کی چیمپئن شپ جیت لی۔
یہاں بھی بدنیتی اور بوئے سلطانی غالب رہی۔ ضلعی مئیرز اور چیئرمینوں کے دائرہ اختیار سے وہ تمام محکمے خارج کردیے گئے جن کا تعلق براہ راست شہری سہولیات اور محصولات سے تھا۔ مذکورہ محکموں میں حکومت پنجاب نے اپنا کنٹرول اور حکمرانی کو برقرار رکھا اور اس طرح بیوروکریسی اس بلدیاتی نظام میں بااختیار جبکہ منتخب عوامی نمائندے غیر معتبر ٹھہرے۔مالی اور انتظامی طور پر غیر مستحکم اور غیر فعال بلدیاتی ادارے منتخب نمائندوں کو دے کر حکومت نے بنیادی جمہوریت کی بحالی کا وہ خواب شرمندہ تعبیر کر دیاجس پر وہ آج تک شرمندہ بھی نہیں۔ 
سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی اس ''واردات‘‘ پر پاکستان تحریک انصاف نے خوب واویلا اور سیاست کی اور یہ دعویٰ اور وعدہ بھی کیا گیا کہ پی ٹی آئی بر سراقتدار آکر بلدیاتی اداروں کو ان کا حقیقی کردار ادا کرنے کا بھرپورموقع دے گی‘ جبکہ پی ٹی آئی کا یہ انتخابی منشور بھی تھا کہ ارکانِ اسمبلی صرف قانون اور پالیسی سازی پر کام کریں گے۔ شہری سہولیات اور ترقیاتی کاموں سے متعلق تمام اختیارات بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کردیے جائیں گے ‘لیکن حالیہ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی نے بھی سابقہ حکومت کی روش اور طرز فکر کو برقرار رکھا اور بلدیاتی ادارے تحلیل کر ڈالے اور اب یہ عالم ہے کہ اس ڈیڑھ سالہ کارکردگی کے ساتھ نہ بلدیاتی انتخابات کروانے کا حوصلہ ہے اور نہ ہی حالات۔ افراد ہوں یا اقوام‘ غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کی یہ امتیازی پالیسی صرف صوبہ پنجاب کے لیے ہی کیوں ہے؟ جبکہ خیبرپختونخوا‘ سندھ اور بلوچستان کے بلدیاتی ادارے شیڈول اور معمول کے مطابق اپنے اپنے امورسرانجام دے رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب پہلے ہی وزیراعظم عمران خان کے فیصلوں اور ترجیحات کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ سیاسی قیادت ہو یا انتظامی مشینری‘ ایک سے بڑھ کر ایک تحفہ وہ عوام کو دے چکے ہیں۔ خدارا پنجاب کے عوام کو مینڈیٹ کی اتنی بڑی سزا نہ دیں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں