یہ کیسا سیاہ بخت خطہ ہے‘ کیسی کیسی بدنصیبی اس میں بسنے والوں کے بختوں میں لکھ دی گئی ہے۔ نہ احترامِ آدمیت ہے‘ نہ لحاظِ منصب‘ نہ آئین کی پاسداری ہے‘ نہ قانون کی حکمرانی‘ نہ اخلاقی قدریں ہیں‘ نہ سماجی انصاف‘ نہ رواداری ہے‘ نہ وضع داری۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے‘ یہاں جنم لینا ہی بازی ہار جانے کے مترادف ہے۔ ایسا ایسا شرمناک، غیر انسانی اور دل دہلا دینے والا منظر رات کی نیند اور دن کا چین برباد کیے رہتا ہے کہ الامان والحفیظ۔
کہیں بزداریت پاؤں پسارے بیٹھی ہے‘ تو کہیں زرداریت بال کھولے سو رہی ہے۔ کہیں انصاف سرکار سماجی انصاف اور گورننس سے ضد لگائے بیٹھی ہے تو کہیں سرکاری بابو اپنی ہی بستی بسائے بیٹھے ہیں۔ کہیں فرش پر زچگی ہو رہی ہے تو کہیں بروقت مناسب علاج نہ ملنے پر مریض کے جسم میں کیڑے پڑنے کے بعد اُس کی ٹانگ کاٹ کر اسے ہسپتال سے باہر پھینکوا دیا جاتا ہے۔ کہیں آوارہ کتے معصوم شہریوں کو یوں بھنبھوڑ ڈالتے ہیں گویا جیتے جاگتے انسان نہیں بلکہ راستے میں پڑی ہوئی ہڈیاں ہوں۔ کوئی تھانوں میں تفتیش کے نام پر جان سے گزر جاتا ہے تو کوئی انصاف کے لیے دربدر پھرتے پھرتے بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔ کوئی علاج کی تمنا اور دل میں حسرت لیے ہی نامراد اپنے خالقِ حقیقی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ سماجی بگاڑ اور ویژن کے فقدان کی وجہ سے کمسن بچوں کا اغوا اور درندگی کے واقعات ہیں کہ رکنے میں ہی نہیں آرہے۔
ماضی کے حکمران ہوں یا عہدِ حاضر کے، نہ اُنہیں کوئی فرق پڑا تھا نہ اِنہیں کوئی فرق پڑتا دِکھائی دیتا ہے۔ عوام اسی طرح رُلتے اور مرتے رہیں گے۔ یہ نوٹس لے کر انکوائری اور تحقیقات کے آرڈر دے کر پوائنٹ سکورنگ کرتے رہیں گے۔ شہر لاہور میں ساڑھے چار سالہ معصوم امیشا پولیو کی بھینٹ چڑھ کر منوں مٹی تلے جا سوئی ہے اور تخت پنجاب کے سارے چیمپئنز پولیو مہم کی کامیابی کا کریڈٹ لیتے نہیں تھک رہے۔ یوں لگتا ہے انصاف سرکار خود کہیں پولیو کا شکار ہو چکی ہے۔ ماحولیاتی نمونوں کی تجزیاتی رپورٹیں چیخ چیخ کر سال بھر سے اعلان کر رہی ہیں کہ پولیو کا وائرس انتظامی مشینری اور سرکار کی گورننس کو پچھاڑ چکا ہے‘ لیکن مجال ہے جو کسی کے کان پہ جوں تک رینگی ہو۔ عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے ریڈ الرٹ جاری ہونے کے باوجود فلیکسیں آویزاں کرنے، سٹیمرز لگانے اور اشتہار بازی کے سوا کوئی کچھ نہ کیا گیا۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور پولیو ہمارے سسٹم کو اَپاہج کیے ہوئے ہے۔
ابھی تو ڈینگی کی تباہ کاریوں کے اثرات سے عوام باہر نہ آ سکے تھے کہ پولیو کا وائرس اپنے پنجے گاڑ رہا ہے اور صاف دِکھائی دے رہا ہے کہ انتظامی مشینری بھی پولیو کے زیر اثر اور ٹیڑھے پن کا شکار ہے۔ آفرین ہے انصاف سرکار کے چیمپئنز پر کہ ڈینگی مچھر پر قابو پانے کی ''ڈینگیں‘‘ ہوں یا پولیو کے کیسز کو جھٹلانے اور چھپانے کی سرکاری کوششیں سبھی کا پول کھل چکا ہے۔ خدانخواستہ کرونا وائرس کا ممکنہ خطرہ اگر مزید بڑھ گیا تو یہ چیمپئنز کیا کریں گے؟ تعجب ہے شہباز شریف کے دورِ حکومت میں انتہائی کامیابی سے پولیو مہم اور انسدادِ ڈینگی پر کام کرنے والے انتظامی افسران آج متعلقہ اداروں کے ذمہ دار ہونے کے باوجود ناکام کیوں ہیں؟
اسی طرح کراچی کے علاقے کیماڑی میں پراسرار اور جان لیوا گیس تادمِ تحریر 14 زندگیاں کھا چکی ہے لیکن کوئی سرکاری ادارہ ان ہلاکتوں کی اصل وجہ بتانے سے قاصر ہے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اس سانحہ کی تحقیقات اور تشخیص کے لیے مطلوبہ انتظامات اور سہولیات نہیں ہیں جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومت تعاون کرنے سے گریزاں ہیں۔ عدالت کی برہمی بجا ہے کہ وزارت صحت کیماڑی میں ہلاکتوں کی وجوہ تاحال تلاش نہیں کر سکی ہے۔ کراچی کے عوام بھی اسی سیاہ بختی کا مسلسل شکار ہیں جس کا ذکر کالم کی ابتدا میں کیا تھا۔ کبھی بارشوں کے نتیجے میں تو کبھی کرنٹ لگنے سے‘ کبھی کتا گردی کا شکار‘ تو اب کیماڑی میں نامعلوم زہریلی گیس سے‘ ہر طرف صف ماتم بچھی نظر آتی ہے۔ نہ کہیں سرکار ہے‘ نہ کہیں کوئی احساس۔ رہی بات سندھ سرکار کی تو اُن سبھی کو اپنے نیتاؤں کی لوٹ مار کی صفائیاں دینے سے ہی فرصت کہاں ہے؟ جس شدت سے آئی جی کو تبدیل کروانے کے لیے سندھ سرکار واویلا کر رہی ہے‘ اس کا چند فیصد مظاہرہ اگر ان سیاہ بخت عوام کے لیے کرتی تو صورتحال اتنی مایوس کن اور المناک نہ ہوتی جبکہ اندرونِ سندھ تو عوام کی حالتِ زار اس قدر خستہ اور ناقابلِ بیان ہے کہ نہ انہیں پیٹ بھر روٹی ملتی ہے اور نہ ہی پینے کا پانی... تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات کا تو پوچھیے ہی مت۔
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ افراد اور اقوام اپنی غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار اور ضد سے تباہ ہوتی ہیں۔ ایک روایت ہے کہ پروردگار جب اپنے بندوں سے ناراض ہوتا ہے تو نکمّے بیوقوف اور نااہلوں کو ان پر حکمران بنا دیتا ہے‘ بخیلوں کو پیسہ دے دیتا ہے‘ پھر بے موسمی اور بے وقت بارشیں برساتا ہے۔ بے موسمی بارشیں‘ فصلوںکی تباہی اور ماضی کے سبھی حکمرانوں سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک گرانی‘ بد حالی‘ بے وفائی‘ مہنگائی کی تباہی کے سوا عوام کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ یا اﷲ رحم... یا خدایا رحم... حکمرانوں سے لے کر بد حالی اور بے برکتی تک یہ سب تیری ناراضی اور خفگی کے چلتے پھرتے نمونے ہیں تو پھر کون سی اصلاحات... کون سے اقدامات... کیسی پالیسیاں‘ اور کون سی گورننس؟ نواز شریف سے لے کر بے نظیر تک‘ مشرف سے لے کر شوکت عزیز تک‘ زرداری سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک سبھی ہمارے اعمالوں کی سزا تو نہیں ہے؟ بے شک یہ مقامِ توبہ ہے... مقامِ استغفار ہے۔
قارئین! میں ایک بندہ ناچیز ہوں... کوئی سکالر نہیں... اس موضوع پر مزید لمبی چوڑی بات کرنا مناسب نہیں کیونکہ ''بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی‘‘۔ حکمرانوں سے لے کر وطنِ عزیز کے عوام تک... یہ دعوتِ عام ہے سبھی کے لیے... اور اشارہ ہے صرف سمجھنے والوں کے لیے۔ مذکورہ اَلمناک واقعات سمیت صبح شام کئی خبریں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں جن پر کُڑھنے اور ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا... نا اُمیدی کے سائے اتنے لمبے اور بے یقینی کے گڑھے اتنے گہرے ہو تے چلے جا رہے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے کوئی آسیب پھر گیا ہو۔
چلتے چلتے ایک انتہائی دلچسپ اور چونکا دینے والا واقعہ شیئر کرتا چلوں۔ جس محفل میں یہ واقعہ پیش آیا اس میں چند اہم شخصیات کے علاوہ میں خود بھی شریک تھا۔ انصاف سرکار کی ایک اہم شخصیت نے گپ شپ کے دوران ایک کاروباری دوست سے پوچھا کہ ''اور سناؤ کام کیسا چل رہا ہے؟‘‘ جواباً کاروباری دوست نے کہا: جیسا بھی چل رہا ہے آپ سے بہتر کون جانتا ہے‘ حکومتی پالیسیاں اور دیگر مسائل اپنی جگہ لیکن انصاف سرکار کے آنے کے بعد ایک کام بہت اچھا ہوا جس کی وجہ سے کاروباری حلقوں کو کافی سہولت میسر آچکی ہے۔ یہ جواب سن کر مذکورہ اہم شخصیت کے چہرے پر پھیلنے والی خوشی دیدنی تھی۔ وہ انتہائی تجسس سے بولے: وہ کون سی سہولت ہے جو انصاف سرکار نے دی ہے؟ اس پر ہمارے کاروباری دوست نے بتایا ''پہلے ہمیں پیسے (کِک بیک/ رشوت) دینے کے لیے سرکاری محکموں کے پیچھے پیچھے بھاگنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے وقت کا ضیاع ہوتا تھا۔ انصاف سرکار کے آنے کے بعد اَب یہ محکمے پیسے لینے خود ہی آ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں نہ تو ان کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے اور نہ ہی وقت کا ضیاع ہوتا ہے... البتہ ریٹ ڈبل... ٹرپل ضرور ہو چکا ہے۔‘‘ کاروباری حلقوں اور سرکاری دفتر میں مارے مارے پھرنے والوں کے لیے انصاف سرکار نے نئی ''ونڈو‘‘ متعارف کروائی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ کلائنٹ کی سہولت کے مطابق یہ کہیں بھی... کسی بھی وقت کھولی جا سکتی۔