میرے خیال میں نواز شریف کی واپسی کیلئے برطانیہ کو لکھے گئے خط کا حشر بھی اسحاق ڈار کے وارنٹ سے مختلف نہ ہو گا۔ ہسپتال انصاف سرکار کے‘ معالجین کی فوج‘ لیبارٹریاں‘ صبح شام نواز شریف کا ''ہیلتھ الرٹ‘‘ جاری کرنے والے چیمپئنز سمیت سبھی کچھ انصاف سرکار کا ہے تو پھر نواز شریف کی بیماری ڈھونگ کیسے نکل آئی؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ نواز شریف کے پاس وزیر اعظم کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام لے جانے والے شوکت خانم ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر فیصل سلطان جنہوں نے نواز شریف کا معائنہ اور رپورٹس پر پڑتال کرنے کے بعد وزیراعظم کو یہ اطلاع دی تھی کہ نواز شریف کی حالت بہتر نہیں ہے۔
اب نوازشریف کی واپسی کے لیے برطانیہ کو خط ایسے لکھا گیا ہے گویا برطانیہ والوں نے نواز شریف کو فرمائش کرکے بلوایا تھا۔ برطانیہ کو خط لکھنے کے بجائے کچھ خطوط نواز شریف کے معالجین اور انصاف سرکار کے ان چیمپئنز کو لکھے جاتے کہ تمہاری رپورٹس کے برعکس نواز شریف باہر جاتے ہی بھلے چنگے کیسے ہوگئے؟ جن کے بارے میں صبح شام معالجین یہ ''الرٹ‘‘ جاری کرتے تھے کہ ان کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ دراصل ان کے گرتے چڑھتے پلیٹ لیٹس انصاف سرکار کے اعصاب پر نہ صرف سوار ہوگئے تھے بلکہ کیا حلیف‘ کیا حریف‘ سبھی کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ نواز شریف کو فوری طور پر علاج کے لیے باہر بھجوا دیا جائے۔ انصاف سرکار اس لیے بھی خائف تھی کہ خدانخواستہ نواز شریف کو اگر یہاں کچھ ہو گیا تو تحریک انصاف کو سیاسی طور پر بڑے دھچکے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ایک ریڈ لیٹر وزیر صحت کو بھی جاری ہونا چاہیے کیونکہ بلحاظ پیشہ وہ خود بھی سینئر ڈاکٹر ہیں اور ان کی نگرانی اور نگہبانی میں چلنے والے ہسپتالوں میں انہی کے ساتھ ہاتھ کون کر گیا؟ عدالت نے بھی انہی رپورٹس کی بنیادی پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔ کمال جرأت اور مہارت ہے کہ پورے سسٹم کو چونا لگانے والے اپنی اپنی جگہ ہنسی خوشی اور مزے میں رہ رہے ہیں جبکہ انصاف سرکار کے چیمپئنز نے نواز شریف کی بیماری کو ڈرامہ اور ڈھونگ ثابت کرنے کے لیے تُوڑی کی نئی پنڈ کھول دی ہے۔ اس پر بیانات کے وہ جھکّڑ چلائے جا رہے ہیں کہ بکھری ہوئی توڑی سمیٹنا تو درکنار‘ ایک ایک تنکا ہوا میں رقصاں اور جا بجا بکھرا نظر آتا ہے۔ کئی دہائیوں تک ملک کے اقتدار اور وسائل پر براجمان رہنے والے شریف برادران نے انتظامی سسٹم میں جو پنیری لگائی تھی وہ آج گھنی جنگلی بیل بن چکی ہے‘ جو آج بھی سسٹم کو بری طرح جکڑے ہوئے ہے۔ اس جنگلی بیل نے انصاف سرکار کے سارے چیمپئنز فیل کر ڈالے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف آج ملک سے باہر بیٹھے ہیں اور یہ سبھی چیمپئنز سر پیٹنے پر مجبور ہیں جبکہ ان کے یوٹرن اور ان کی تضاد بیانیاں اب اکثر تیزاب بیانی دِکھائی دیتی ہے۔ نجانے کون سا آسیب ہے جو کوئے اقتدار میں بسنے والوں کی مت ہی مار دیتا ہے۔ نہ تو وہ ماضی کے حکمرانوں سے سبق سیکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔
حکمران ماضی بعید کے ہوں یا قریب کے‘ کرسی کی مضبوطی کا دعویٰ کرنے والے جنرل ضیاء الحق ہوں یا مکے لہرانے والے جنرل مشرف‘ جو کہتے تھے کہ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں‘ بے نظیر بھٹو ہوں یا آصف علی زرداری‘ ان سبھی کے طرزِ حکمرانی سے لے کر انجام تک ایک ایک لمحہ قابلِ فکر اور ریکارڈ کا حصہ ہے۔ نواز شریف کو ہی لے لیجئے۔ وہ اپنے ہی دور اقتدار میں بے بسی کی تصویر بن گئے اور چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف نااہلی کے بعد سوکھے پتے کی مانند دکھائی دیے جو ہوا کے دوش پر اِدھر سے اُدھر‘ اور اُدھر سے اِدھر اڑتے پھرے۔ حکومت بھی اپنی اور سراپا احتجاج بھی خود ہی۔ لوگوں سے پوچھتے پھرے کہ مجھے کیوں نکالا؟ 'الٹی ہوگئیں سب تدبیریں‘ کے مصداق حالات پر گرفت دن بہ دن کمزور ہوتی چلی گئی۔ مٹھی سے ریت اس طرح سرکی کہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔
تحریک انصاف کو برسرِ اقتدار آئے ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے لیکن روز اوّل سے ہی بلنڈرز کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ کپتان کے بیشتر ''چیمپئنز‘‘ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پلے کچھ ہو نہ ہو لیکن Confidence کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اکثر مقامات پر تو Over Confidence کے نتیجے میں ایسا ایسا منظر دیکھنے کو ملا کہ صاف نظر آتا‘ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے‘ ایک مقابلہ جاری ہے اور یہ مقابلہ تحریک انصاف کے اندر جاری ہے۔ کوئی منتخب عوامی نمائندہ ہے تو کوئی غیر منتخب مصاحب‘ سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ کیا وزیر‘ کیا مشیر‘ سبھی خود کو وزیر اعظم کا قریبی اور زیادہ بااعتماد ثابت کرنے پر بضد اور سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وزیراعظم کو خواہ کتنی ہی سبکی اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑے ان کی بلا سے۔ عوام کو ادویات کی قیمتوں کے بھڑکتے الاؤ میں دھکیلنے والے سابق وفاقی وزیر صحت عامر کیانی تحریک انصاف کی گورننس کو چار چاند لگانے کے بعد برطرفی کا میڈل سجائے آج کل حکومتی پارٹی چلا رہے ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایک وفاقی وزیر اور وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی غیر قانونی طور پر اضافی سرکاری رہائش گاہوں پر قابض ہیں۔ ادھر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بھی ایک اور اعلان جاری کیا ہے کہ کوئی فائل کسی محکمے میں بلا جواز نہیں رُکنی چاہیے۔ اس قسم کے اعلانات اکثر زیبِ داستاں کا باعث کیے جاتے ہیں۔ انصاف سرکار کو اَب اعلانات سے باہر نکل کر عملی اقدامات کی طرف توجہ کرنی چاہیے تاکہ عوام ان کے اعلانات کے بجائے اقدامات سے مستفید ہو سکیں۔
سیف سٹیز اتھارٹی سے متعلق فوری حل طلب مسئلہ وزیراعلیٰ کی خصوصی توجہ کا طلبگار ہے اور سرکاری بابوؤں نے نجانے کیوں اس اہم ترین اور فعال پروجیکٹ سے ضد لگا رکھی ہے۔ اَمن و امان کے قیام اور اہم سرکاری تنصیبات کے علاوہ شہر بھر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والا سیف سٹی پروجیکٹ فنڈز کی شدید کمی کی وجہ سے انتہائی مشکلات کا شکار ہے جبکہ شہر کے اکثر اہم مقامات اس ادارے کے کیمروں کی آنکھ سے اوجھل ہیں‘ جو اَمن و امان کے حوالے سے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ فیصل آباد میں بھی سیف سٹی اتھارٹی کا منصوبہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔
کہیں چوری چکاری ہو یا ڈاکہ زنی‘ لڑائی جھگڑا ہو یا قتل و غارت‘ کوئی شرانگیزی ہو یا دہشت گردی‘ سیف سٹی کھلی آنکھ سے سب پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ خدارا اس کی آنکھوں کی بینائی قائم رہنے دیں تاکہ یہ واچ ڈاگ کا کردار اسی طرح ادا کرتا رہے۔ اس فعال ادارے کو سیاست اور عناد سے پاک رکھنا بہت ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر ان بابوؤں کا سراغ لگانا بھی بہت ضروری ہے جو اس منصوبے سے خدا واسطے کا بیر رکھے ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بابو وزیراعلیٰ کے تازہ ترین حالیہ اعلان کا کتنا اور کیا اثر لیتے ہیں۔
چلتے چلتے کچھ بات درپیش اور ممکنہ چیلنجز کی بھی ہو جائے۔ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے بھاگ دوڑ اور لمبی لمبی میٹنگز جاری ہیں۔ خدا کرے ان کی یہ محنتیں نتیجہ خیز ہوں اور چھپے ہوئے کورونا کو یہ کونے کونے سے ڈھونڈ نکالیں اور اس کی تباہ کاریاں پھیلنے سے پہلے ہی اس کا سدِّباب بھی کر ڈالیں۔ تھوڑی سی توجہ اور نظر بدلتے ہوئے موسم پر بھی رکھیں آنے والے ایک دو ماہ میں ڈینگی مچھر دوبارہ حملہ آور ہو سکتا ہے۔ احتیاط اور ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ لاروا بروقت کچل دیا جائے اور بغضِ شہباز شریف اپنی جگہ لیکن کابینہ کمیٹی برائے انسدادِ ڈینگی بحال کرنے میں کوئی حرج نہیں‘ جسے صرف اس لیے غیر فعال بلکہ ختم ہی کر دیا گیا ہے کہ وہ شہباز شریف نے قائم کی تھی۔ بروقت لاروا تلف کرنے سے لے کر ڈینگی مچھر مارنے تک اس کمیٹی کی کارکردگی ریکارڈ پر موجود ہے۔ انصاف سرکار تعصب اور عناد کی عینک اتار کر اس سے استفادہ کر سکتی ہے۔