چولہے میں جائے ایسی دانشوری‘ بھاڑ میں جائے یہ تہذیبِ نو... رہی بات دانشوری کی‘ تو ہمارے ہاں ایسا ایسا دانشور عقل و دانش سے عاری ہونے کے باوجود اپنی دانشوری پر نازاں اور اترائے پھر رہا ہے کہ بس کچھ نہ پوچھئے۔ اکثر مناظر دیکھنے اور بھگتنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب دانشوروں کے لیے دانش کا ہونا ضروری نہیں رہا۔ شاید انہیں حالات اور نام نہاد دانشوروں کے بارے میں ہی جون ایلیا نے کہا تھا کہ ''کچھ لوگوں کو ابھی پڑھنا چاہیے جبکہ وہ مسلسل لکھ رہے ہیں‘‘۔ رہی بات تہذیبِ نو کی تو مولانا ظفر علی خان نے تو اس زمانے میں ہی اس کا علاج دریافت کر لیا تھا اور اسے کچھ اس طرح بیان کیا تھا: ؎
تہذیبِ نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر
جو اس حرامزادی کا حلیہ بگاڑ دے
ملک بھر میں ایک مباحثے کا سماں ہے۔ گویا یہ ہمارا واحد اور آخری مسئلہ ہو۔ مرضی‘ من مرضی اور خود غرضی کا ایسا ایسا شرمناک اور قابلِ فکر نمونہ دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے کہ سر پیٹنے کے سوا اور کیا ہی کیا جا سکتا ہے۔ عذابِ الٰہی اور کیا ہوتا ہے؟ گلوبل ریڈ الرٹ جاری ہو چکا ہے۔ کورونا وائرس موت بن کر ملکوں ملکوں گھوم رہا ہے۔ طوافِ کعبہ سے لے کر مسجدِ نبویﷺ میں عبادات تک پر عارضی پابندی لگا دی گئی۔ اگر یہی نازک صورتحال برقرار رہی تو یہ خدشہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ پابندی حج تک برقرار رہ سکتی ہے۔ دوسری جانب ویٹی کن سٹی میں ہفتہ وار دعائیہ تقریب بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ کیتھولک مسیحیوں کے مذہبی رہنما پوپ فرانسس نے کورونا وائرس پھیلنے کے خطرات کے باعث دعائیہ تقریب کا اجتماع کرنے کے بجائے آن لائن دعا کروائی۔ طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ اجتماعات اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے گریز کریں۔ ایسا نہ کرنے سے کورونا وائرس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ یہ احتیاطیں انسانوں کو انسانوں سے بیزار، خائف اور علیحدہ کرنے کا باعث بن سکتی ہیں اور آدمی ہی آدمی سے پناہ مانگتا پھرے گا۔
ایک وائرس نے دنیا بھر میں خوف و ہراس اور بے بسی کی فضا بنا ڈالی ہے کہ مستحکم ترین معیشت کے باوجود چائنہ شدید طور پر متاثر ہے ‘بلکہ اسے ہزاروں اموات کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کا بھی سامنا ہے جبکہ اس کی معیشت کو ہونے والے ناقابلِ تلافی نقصان کا ازالہ نجانے کتنے سال نہ ہو سکے گا۔ اسی طرح اٹلی، امریکہ اور ایران میں ہونے والی ہلاکتوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کورونا کی تباہ کاریاں کس تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب سمیت کئی دیگر ممالک میں بھی کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی اور لامحدود وسائل کے باوجود یہ ممالک کورونا کا مقابلہ نہیں کر سکے تو ہم کتنا مقابلہ کر سکیں گے؟
اس تازہ ترین عالمی منظر نامے کے پیش نظر ہمیں متوقع خطرات سے نمنٹنے کے لیے انتہائی ہوشمندی اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ جس ملک میں پہلے سے ہی الارمنگ صورتحال ہو‘ مہنگائی اور گرانی کے عذاب نے عوام کو بد حال کر رکھا ہو‘ وہاں اس جان لیوا وائرس سے نبرد آزما ہونا کسی معجزے سے کم نہ ہو گا۔ ہمارے ہاں تو ڈینگی مچھر کے آگے ساری تیاریاں، احتیاطیں اور حربے نہ صرف دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں بلکہ ہم ڈینگی کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کے آگے بھی بے بس ہی نظر آئے۔
اس نازک ترین صورتحال میں ہوشمندی اور استغفار کے بجائے پوری قوم کو کس بے مقصد بحث میں الجھا ڈالا گیا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہو۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس تو زمانوں سے سنتے آئے ہیں یعنی ''لاٹھی میرے ہاتھ میں ہے تو بھینس بھی میری ہی ہو گی‘‘۔ بات اب لاٹھی اور بھینس سے نکل کر کچھ یوں شکل اختیار کر چکی ہے کہ میری حکومت میری مرضی‘ میری پارٹی میری مرضی‘ میرا صوبہ میری مرضی‘ میری گاڑی میری مرضی وغیرہ وغیرہ کے بعد 'میرا جسم میری مرضی‘ لانچ کر دیا گیا ہے۔ یہ مرضی اب من مرضی اور خود غرضی کی تمام حدود پار کرکے اخلاقی اور معاشرتی قدروں کے لیے دہشت گردی سے کم نہیں۔
میں نے بہت کوشش کی کہ جسم اور مرضی کے ''پرچارکوں‘‘ سے دور ہی رہوں اور کئی دن تک لاتعلقی بھی اختیار کیے رکھی۔ قومی میڈیا پر ہو یا سوشل میڈیا پر اس بحث کو قومی مباحثہ بنانے والوں پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ کچھ دن کڑھنے اور اندر ہی اندر ملامت کرنے کے بعد اب نہیں رہا گیا اور انتہائی بوجھل دل اور منتشر خیالات کے ساتھ اس موضوع پر خود کو لکھنے پر آمادہ کیا۔ یہ ''تہذیبیے‘‘ کس جسم اور کون سی مرضی کی بات کرتے ہیں؟ کرۂ ارض پر انسانی جسم سے زیادہ بے وقعت چیز شاید ہی کوئی ہو۔ چند ہزار کا موبائل بازار خریدنے جاؤ تو دکاندار اس کی بھی گارنٹی اور وارنٹی دیتا ہے‘ لیکن اس جسم فانی کا تو اگلے پل کا نہیں پتہ ہوتا۔ رات کو سونے سے لے کر صبح اٹھنے تک جسم پر کس کا اختیار ہے؟ کون اپنی مرضی سے سو سکتا ہے اور اپنی مرضی سے جاگ سکتا ہے؟ رات کی نیند کو آدھی موت کہا گیا ہے۔ اس آدھی موت کے بعد زندگی دینے والا وہی ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے اور بس!!!
سانس لینے پہ اختیار نہیں۔ قدم اُٹھانے پر اختیار نہیں۔ منہ پر بیٹھی مکھی اڑانے کا اختیار نہیں۔ جسم کو پہنچنے والی تکالیف روکنے پہ اختیار نہیں۔ ایسے بے اختیار اور لاچار انسان کے پاس جسم کا اختیار کیسے آ سکتا ہے؟ اپنے جسم کو اپنی مرضی کے مطابق کوئی کیسے چلا سکتا ہے؟ جیسے گاڑی بنانے والے نے سڑک پر چلانے کے لیے ہی بنائی ہے۔ باوجود ہزار کوشش کے دیوار یا چھت پر نہیں چلائی جا سکتی۔ بھلے کوئی کہتا رہے کہ میری گاڑی میری مرضی۔ اسی طرح خالق کائنات نے انسان کو اپنے ضابطے اور ایک قاعدے کے تحت تخلیق کیا ہے جو صرف اسی کے وضع کیے گئے نظام کے تحت چل سکتا ہے۔ اس کی خلاف ورزی قانون فطرت سے روگردانی کے سوا کچھ نہیں۔ قانونِ فطرت کے آگے من مانیاں اور مرضیاں نہیں چلتیں اور اس کے دئیے ہوئے نصاب اور قاعدے کے برعکس جانا عین تباہی ہے۔
جس طرح اس موضوع پر دانشوری بگھاری جا رہی ہے اور ہر لمحہ سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے‘ اخلاقی اور سماجی قدروں پر بمباری کی جا رہی ہے‘ بخدا بمشکل اپنے جذبات اور قلم کو سنبھال پا رہا ہوں کیونکہ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔ احتیاط اور اختصار کے ساتھ رب سے یہی دعا ہے کہ ایسے نام نہاد دانشورانِ قوم سے اس ملک کو محفوظ فرما۔ ان کی توجیہات، ان کے جواز اور ان کی منطقیں جس طرح پوری قوم کو ذہنی کرب سے دوچار کیے ہوئے ہیں‘ خدا ہماری اخلاقی و سماجی اقدار اور فکری رجحانات کی حفاطت فرمائے۔
ابھی کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ سامنے پڑے اخبارات میں ایک خبر پر نظر اٹک کر رہ گئی جس میں وزیر اعظم نے اپنے وزرا کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابینہ میں ایسے ارکان بھی موجود ہیں جو دفتر سے زیادہ کوہسار مارکیٹ میں بیٹھے رہتے ہیں اور اپوزیشن کچھ نہ بھی کرے تو کسی وزیرکا بیان مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کے اس بیان کا خیر مقدم تو بنتا ہے کہ انہیں ان چیمپئنز کا بخوبی علم ہے جو کوہسار مارکیٹ کے کیفیز میں بیٹھ کر چائے کی پیالی پر ایسا ایسا طوفاں اٹھاتے ہیں‘ جس سے بعض اوقات انصاف سرکار بھی چکرا کر رہ جاتی ہے۔ کوہسار مارکیٹ میں جمنے والی محفلوں اور ان چیمپئنز کے بارے میں بطور استعارہ خاصے کی بات بتاتا چلوں ''ایک صاحب نے اپنے دوست سے کہا: جب دنیا کی سیر کو تمہارا دل چاہے اور جیب اجازت نہ دے تو تم گوگل پر دنیا کے کسی بھی کونے کی سیر کر لیا کرو۔ میں خود اس وقت نیاگرا فال کے دلکش نظاروں سے محظوظ ہو رہا ہوں‘‘۔ آئندہ کالم میں کچھ اور خاصے کی باتیں شیئر کریں گے۔