کورونا سمیت کئی خبروں کا وائرس دِل و دماغ پر چمٹ کر رہ گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان موضوعات پر قلم آرائی کیے بغیر کوئی چارہ نہیں؛ چنانچہ قلم کے ہی اُکسانے پر چند منتخب موضوعات پر بات کریں گے۔ سب سے پہلے دنیا بھر میں دندناتے اور لاشوں کے ڈھیر لگاتے کورونا وائرس کی طرف چلتے ہیں۔ ہزاروں جیتے جاگتے انسانوں کو موت کی وادی میں پہنچانے کے علاوہ یہ جان لیوا وائرس عالمی معیشت کو کھربوں ڈالر کا جھٹکا لگا چکا ہے اس پر ستم یہ کہ موذی وائرس قابو میں آنے کو تیار نہیں۔ جن بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر جہاز چڑھنے اور اترنے کا سلسلہ رُکنے میں ہی نہیں آتا تھا‘ آج وہ ویران اور سنسان دکھائی دیتے ہیں۔ عمرے پر عارضی پابندی... ویٹی کن سٹی میں مسیحیوں کی دعائیہ تقریب کی منسوخی... ریڈالرٹ جاری کرنے والے اداروں نے باہمی میل جول، گہما گہمی اور بڑے اجتما عات سے اجتناب پر زور دیا ہے۔
سعودی عرب نے ملک بھر میں تعلیمی ادارے بند کر دئیے ہیں۔ ایران نے کورونا کی مزید تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے 70ہزار قیدی رہا کر ڈالے کہ کہیں یہ وبائی مرض ضربیں نہ کھا جائے۔ اس وقت تک تقریباً سوا سو کے قریب ممالک اس وائر س کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔دُنیا بھر کی ترجیحات، رجحانات اور اہداف تبدیل ہو چکے ہیں۔ ترقی یا فتہ ہوں یا ترقی پذیر‘ سبھی ممالک ہر ممکن احتیاطی تدابیر، حربے اور اقدامات سمیت مشکل ترین فیصلے کرنے پر مجبور ہیں۔ سوشل بائیکاٹ سے لے کر ناقابل تلافی اقتصادی اور معاشی نقصانات تک‘ یومیہ اموات سے لے کر تیزی سے بڑھتی ہوئی مریضوں کی تعداد تک‘ کون کون سی کڑی آزمائش ہے جس کا انہیں سامنا نہیں۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھی کورونا کے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی ریڈالرٹ کے مطابق ہمیں اپنی گائیڈلائن کو پیش نظر رکھنا چاہیے جن پر دیگر ممالک عمل پیرا ہیں۔ تشویشناک اَمر یہ ہے کہ ہماری اوّل اور آخر ترجیح پی ایس ایل میچز ہیں۔ تعجب ہے ہم اپنی تمام تر توانائیاں اور وسائل صرف کرکٹ ٹیموں کو لانے لے جانے اور میچز کروانے پر خرچ کیے چلے جا رہے ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس سارے کام چھوڑ کر بس اسی کام کے لیے رہ گئی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ میچز پر آنے والے شائقین کا ہجوم ان تمام احتیاطوں اور اقدامات کی کھلی نفی ہے جو دنیا بھر کے ممالک کورونا سے بچائو کے لیے اختیار کر چکے ہیں۔
معلوم نہیں اس خطے میں کوئی مسئلہ ہے یا گورننس کے ڈی این اے میں کوئی خرابی ہے... جو دنیا بھر میں نہیں ہوتا وہ ہمارے بڑے زور و شور سے ہوتا ہے۔ پی ایس ایل میں یقینا بڑے بڑے سٹیک ہولڈرز کا نجانے کیا کچھ دائو پر لگا ہوا ہے اور حصے بخروں سے لے بندر بانٹ تک سبھی اپنی اپنی وکٹ بچانے میں مصروف ہیں لیکن یہ سب کچھ صحت و سلامتی سے بڑھ کر تو ہرگز نہیں ہے۔ ہر خطر ے سے بے نیاز اور ہر رسک سے بے پروا مال بنانے اور مال بیچنے والے ناجانے کتنے ''کورونے‘‘ سٹیڈیم میں آئے روز اکٹھے کر لیتے ہو ں گے۔ ابھی تو پی ایس ایل اور مال کے مزے چل رہے ہیں‘ لیکن حفظان صحت کی بین الاقوامی احتیا طی تدابیر کی کھلی خلاف ورزی کہیں ہمارے گلے نہ پڑ جائے۔ شائقین سے کھچاکھچ بھرے سٹیڈیم دیکھ کر برادرم شعیب بن عزیز کا یہ شعر عین حسبِ حال لگتا ہے: ؎
پختہ گھروں کو چھوڑ کر کشتی میں آگئے
دریا کا خوف لوگوں کو دریا میں لے گیا
ہم آخر دنیا کو کیا دکھانا چاہتے ہیں اور ہمارے امن کی کون سی بانسری بجائی جا رہی ہیں۔ راوی کون سا چین اور کیسا سُکھ لکھ رہا ہے؟ کیا ہم دنیا کو یہ دِکھا رہے ہیں کہ ہم اپنے شہریوں کو غیر معینہ مدت کے لیے محصور کر کے کاروبارِ زندگی بند اور روزمرہ کے معمولات درہم برہم کر کے... شہریوں کی زندگی اجیرن کر کے... ایمولینسوں اور جنازوں کی پروا کیے بغیر شاہراہیں اور گزر گاہیں اس طرح بند کر دیتے ہیں گویا ان کا سایہ بھی کرکٹ میچز کے انتظامات پر پڑ گیا تو نجانے کیا ہو جائے گا۔ سکیورٹی کے نام شہریوں پر کیسا کیسا عذاب اور کون سی مصیبت نازل نہیں کی جا رہی۔
سندھ حکومت نے اب آکر کہیں ہوش مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کورونا وائرس کے پیش نظر سٹیڈیم میں کرکٹ میچ دیکھنے والے شائقین پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اب کرکٹ میچز تماشائیوں کے بغیر ہوں گے۔ سندھ حکومت نے تو بڑھتی ہوئی تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر صوبہ بھر کے تمام تعلیمی ادارے اڑھائی ماہ کے لیے بند اور امتحانات منسوخ کر دئیے ہیں۔ سندھ سرکار نے تو یہ الزام بھی لگایا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی اور نہ ہی ہماری کوئی معاونت کر رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس وبائی مرض سے ہمیں اکیلے ہی لڑنا پڑے گا۔ سندھ حکومت اگر تعلیمی ادارے بند کر کے کرکٹ سٹیڈیم میں شائقین کے داخلے پر پابندی لگا کر بین الاقوامی احتیاطی اقدامات پر عمل پیرا ہے تو پنجاب اور دیگر صوبے کس بات کا انتظار کر رہے ہیں۔ البتہ ایک بات ضرور قابلِ فہم ہے کہ سندھ اور پنجاب میں بنیادی فرق فیصلہ سازی کا ہے۔ بزدار سرکار ''مقامِ بالا‘‘ کی منشاء اور منظوری کے بغیر کہاں کوئی فیصلہ کر سکتی ہے بھلے صورتحال ہنگامی ہو یا جنگی... فیصلہ ''مقامِ بالا‘‘ سے ہی آتا ہے۔ اس موقع پر بھارتی شاعر جاوید اختر کے یہ اشعار بے اختیار یاد آگئے: ؎
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سب ہی جانتے ہیں...
اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی کورونا سے متاثرہ علاقے میں آنے جانے سے روکنا شرعی قرار دے دیا ہے جبکہ احتیاطی تدابیر اور ہر ممکن اقدامات کرنا یقینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ابھی چند ہی روز قبل رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع میں لاکھوں افراد نے شرکت کی تھی لیکن اجتماع مشاورت کے بعد جلد ختم کر دیا گیا ۔ ہمیں ایک ایسے عالم گیر وبائی مرض کا سامنا ہے جو روزانہ سینکڑوں جیتے جاگتے انسانوں کو موت کی وادی میں پہنچا رہا ہے اس لیے ہمیں ہوشمندی اور احتیاط کا مظاہرہ بہرحال کرنا ہو گا۔ یہاں بزدار سرکار نے ہسپتالوں سے متعلق متنازعہ ایکٹ ایم ٹی آئی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس پر ہائی کورٹ کا تبصرہ چشم کشائی کے لیے کافی ہے۔ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''کورونا آرہا ہے اور آپ نے ڈاکٹروں کے خلاف بل پیش کر دیا ہے‘‘ نجانے وہ کون سے سقراط اور بقراط ہیں جو بلنڈر کرنے کے لیے ہمیشہ غلط ٹائمنگ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان حالات میں اگر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف ہڑتال پر چلے گئے تو کورونا وائرس کیا حشر نشر کرے گا یہ سبھی جانتے ہیں۔
اب چلتے ہیں شاہد خاقان عباسی کے اس بیان کی طرف جس میں انہوں نے برملا اظہار کیا ہے کہ اگر دوبارہ حکومت ملی تو سب سے پہلے نیب کو ختم کریں گے۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار ان کے قائد نواز شریف بھی دورانِ اَسیری کر چکے ہیں کہ کاش وہ آرٹیکل 62,63 کو ختم کرنے کر لیے پیپلز پارٹی کی پیشکش مسترد نہ کرتے یعنی انہوں نے کڑا احتساب اور سخت قوانین کا گڑھا صرف سیاسی مخالفین اور حریفوں کو دھکیلنے کے لیے ہی کھودا تھا لیکن وہ خود بھی اسی میں جاگرے۔
بات چلی ہے نیب کی تو اس موقع پر ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد کی ڈگری کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جس کی تصدیق ہائیر ایجوکیشن نے کر دی ہے اور سپریم کورٹ نے کیس خارج کر دیا ہے۔ شہزاد سلیم نے بلا امتیاز اور بے رحم احتساب کا کون سا نظارہ نہیں دِکھایا... کیسا کیسا شجر ممنوعہ جڑ سے ایسے اُکھاڑ ڈالا کہ سوکھے پتوں کی طرح ہوا میں اِدھر اُدھر اُڑتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ عدالتِ عظمی نے تو ان کے حق میں فیصلہ جاری کر دیا ہے لیکن اس دوران ان کی کردار کشی اور ساکھ تو نقصان پہنچانے والوں کو کم از کم ڈوب مرنا چاہیے۔ پہلے وہ پاک فوج کے شانہ بشانہ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتے رہے ہیں اور اب وہ اس ملک و قوم کی دولت اور وسائل بھنبھوڑنے والوں کے لیے اس طرح خوف کی علامت بن چکے ہیں جنہیں ''شوقِ کمال ہے... نا خوفِ زوال‘‘۔