طواف ِکعبہ بند‘روضہ رسولﷺ پر حاضری بند‘ عمرہ بنداور حج بیت اللہ تک یہ پابندی بڑھنے کا اندیشہ روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے۔دنیا بھر میں کیسا کہرام اور محشر کا سماں ہے ۔ ہر کوئی گھبرایا ہوا اور ایک دوسرے سے کتراتا پھر رہا ہے۔ کورونا کی دہشت نے ملکوں کے ملک بند کر ڈالے ہیں۔کاروبارِ زندگی سے لے کر امورِ حکومت تک سبھی لاک ڈائون کی زد میں ہیں۔بقول برادر محترم حسن نثار کے مصافحہ سے مسافر تک سبھی پابندی کا شکار ہیں۔چین نے ریکارڈ مدت میں حیرت انگیز طور پر نہ صرف اس کا مقابلہ کیا بلکہ اموات اور نئے کیسز کی خبریں بھی آنا بندہوچکی ہیں۔ اس شاندار کارکردگی پر چین کی حکومت کے ساتھ ساتھ پوری چینی قوم بھی مبارکباد کی مستحق ہے۔ ثابت ہوا‘ قدرتی آفت ہو یا کوئی سانحہ‘ حکمران اور عوام مل کر ہی مقابلہ کریں تو بات بنتی ہے۔
تفتان بارڈر اور سکھر قرنطینہ کے مناظر دیکھنے کے بعد گورننس اور اہلیت کی ساری قلعی کھلتی نظر آتی ہے‘ جبکہ ملک بھر میں دیگر اقدامات بھی تسلی بخش اور قابل تعریف ہرگز نہیں‘ تاہم ہنگامی اقدامات اور فوری فیصلوں کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نمبر ون جارہے ہیں۔چین سمیت دیگر ممالک بھی لاک ڈائون کی صورت میں ہی کورونا سے مقابلہ کررہے ہیں‘کیونکہ صحت مند خوراک اورحفاظتی اقدامات ہی پہلا اور آخری حربہ ہے‘ کورونا سے بچائو کا۔ دھرنوں میں126دن شہریوں کو لاک ڈائون سے دوچار کرنے والی تحریک انصاف آج برسر اقتدار آنے کے بعد لاک ڈائون سے ہی کترا رہی ہے۔شاید انہیں حکومت اور اپوزیشن کا فرق سمجھ آنا شروع ہوگیا ہے ۔صوبائی وزرا بوکھلاہٹ کا شکار ‘ ایک دوسرے سے الجھتے اور ایک دوسرے پر الزامات لگاتے نظر آرہے ہیں ۔ایک اجلاس میں تو دو وزرا کے درمیان بحث و تکرار بڑھنے پر معاملہ چیف سیکرٹری نے رفع دفع کرایااور ایک وزیر کو یہ احساس بھی دلایا کہ انہوں نے بروقت اقدامات کیے ہوتے تو ہم علاج معالجے پر مامور ڈاکٹرز کو حفاظتی کٹس اور مطلوبہ ماسک فراہم کرسکتے تھے۔ایسے میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے بھی جمود توڑا ہے‘ اب وہ کچھ بات چیت کے ساتھ ساتھ کئی پریس کانفرنسز بھی کرچکے ہیں۔ ان کی طرف سے ابھی تک یہی عملی اقدام منظر عام پر آیا ہے۔
اس موقع پر جہاں ملکوں کے دروازے ایک دوسرے پر بند ہورہے ہیں اور شہروں کے شہر لاک ڈائون پر مجبور ہیں ‘وہاں صرف ایک توبہ کا دروازہی کھلا نظر آتا ہے ۔ حرمین شریفین کے امام کی پرسوز دعا سماعتوں سے گزری‘ جو بجا طور پر مشکل کی اس گھڑی میںعصرِحا ضر سے ہم آہنگ ہے‘ جس کا ترجمہ قارئین کے پیش خدمت ہے ''یا اللہ! یہ بیماری تیرے لشکروں میں سے ایک ہے، توُ جسے چاہے اس مرض میں مبتلا کرتا ہے اور جس سے چاہے اسے پھیر دیتا ہے۔یا اللہ ! اسے ہم سے الگ کردے اور ہمارے گھروں سے اور ہمارے گھر والوں سے اور ہمارے ازواج سے اور ہماری اولادوں سے‘ ہمارے ملک سے اور مسلم ممالک سے اور جس چیز سے ہم ڈرتے ہیں اور جس سے ہمیں متنبہ کیا جاتا ہے اس سے ہماری حفاظت فرما‘ پس تو بہترین محافظ ہے اور تو سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے‘‘۔
کورونا پر تو روز بات ہورہی ہے اور جب تک یہ اَن دیکھا موذی غارت نہیں ہوجاتا اس پر بات ہوتی ہی رہے گی۔اب چلتے ہیں سسٹم کے اس کرونے کی طرف جو کئی دہائیوں سے گورننس اورانصاف کی ضد بنا ہوا ہے۔ گزشتہ روز ایک عزیز نے کہا کہ فلاں تھانے میں چوری کا ایک مقدمہ ہی بمشکل درج کروایا تھا کہ اب تفتیشی افسر پکڑائی نہیں دے رہا۔کبھی عدالت گیا ہوتا ہے تو کبھی ملزمان چھوڑنے جیل گیا ہوتا ہے۔ کبھی فون اٹینڈ نہیں کرتا تو کبھی انتظامی ڈیوٹی پر ہوتا ہے۔میں نے مدد کرنے کی غرض سے جواب دیا‘ مجھے اس کا فون نمبر دو کوشش کرتا ہوں کہ تمہارا مسئلہ حل ہوجائے۔ دو تین گھنٹیوں کے بعد تفتیشی صاحب نے فون اٹینڈ کرلیا‘ میں نے ان سے مدعا بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی سائل اور مدعی مقدمہ نے جناب سے ملنا ہو تو وہ کیا کرے؟ جواباً اس نے کہا کہ جناب ہم نے کہاں جانا ہے ‘ڈیوٹیوں کی گٹھڑی اٹھائے پھرتے ہیں ‘ صبح سے شام اور شام سے رات ہوجاتی ہے۔بوجھ ہے کہ کم ہونے میں نہیں آتا ۔ہمارا کیا ہے‘ جینا یہاں مرنا یہاں‘اس کے سوا جانا کہاں۔ایک تھانے دار کے منہ سے شاعرانہ کلام میرے لیے انتہائی غیر متوقع اور حیرت کا باعث تھا۔خیر‘ گفتگو مکمل ہونے کے بعد اپنے عزیز کا تھانے دار سے ملاقات کا وقت طے کروا کے اسے تو چلتا کیا اور خود چشم تصور میں زمانہ ٔرپورٹنگ میں جاپہنچا ۔اُس وقت بھی تھانے اور تھانیداروں کے یہی حالات تھے۔جس تھانیدار کو بین الاقوامی ایس او پیز کے مطابق تیس سے زیادہ کیسوں کی تفتیش نہیں کرنی چاہیے‘ وہ سو‘ ڈیڑھ سو کیسوں کی تفتیشوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے۔ جس نے صبح عدالت جانا ہے‘ وہاں سے جیل جانا ہے اور پھر دن ڈھلے تھانے واپس آکر مقدمات کی تفتیش کرنی ہے‘ایسے میں کون سا میرٹ اور کیسا انصاف ہو سکتا ہے؟اس پر نہ رہنے کا کوئی ٹھکانہ اور نہ غسل خانہ۔وہیں سونا ‘وہیں تفتیش کرنی اور وہیں فائلوں کا پیٹ بھرنا۔ایک منجی اور ایک کرسی کسی تفتیشی کا کل اثاثہ ہوتا ہے۔
پنجاب کے 717 تھانوں کے لئے حکومت 4.6ارب روپے فراہم کرتی ہے‘ جبکہ اخراجات 8.6ارب روپے ہیں۔ باقی 4ارب کے اضافی اخراجات کا بوجھ محکمہ پولیس کہاں سے پورا کرے‘ جبکہ 110تھانے خیموں میں قائم ہیں اور 154 تھانوں کی عمارتوں کو مخدوش اور خطرناک قرار دیا جاچکا ہے۔گزشتہ برس پنجاب بھر میں 490,000مقدمات درج ہوئے اور ان کی تفتیش کی مد میںصرف 25کروڑ روپے دیئے گئے جو فی مقدمہ 525روپے بنتا ہے۔اس رقم میں زیر حراست ملزم پر اُٹھنے والے تفتیشی اخراجات‘ کھانا پینا اور علاج معالجہ کیسے پورا کیا جا سکتا ہے؟ جبکہ قتل اور دیگر سنگین جرائم کے مقدمات پر پراسیکیوٹر‘ پٹواری ‘ فرانزک لیب‘ کرائم سین کے شواہد اور گواہان سمیت دیگر ان دیکھے اور بھاری اخراجات کی تفصیل اور ٹیرف علیحدہ ہے۔
حکمران ماضی کے ہوں یا موجودہ‘ پولیس کو غیر سیاسی اور پروفیشنل بنانے کے دعوے سبھی کرتے رہے ہیں‘لیکن سبھی کی سیاسی مداخلت اور ذاتی مفادات کے تحفظ کی داستانیں اتنی طویل ہیں کہ ایسے کئی کالم کم پڑ سکتے ہیں۔دھرنوں میں پولیس ریفارمز کے دعوے کرنے والی تحریک انصاف کو برسر اقتدار آئے ڈیڑھ برس ہوچکا ہے۔ ریفارمز تو درکنار تیزی سے ہوتی ڈیفارمز بھی نہیں روک پائے۔ سماجی عدل و انصاف کا وقت آیا تو سماج سے لے کر ریاست تک‘ نہ گورننس پروان چڑھی نہ میرٹ کا بول بالا ہوا۔ان کو بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح بداعمال پالیسی ساز اور بوئے سلطانی کے مارے سہولت کار میسر آگئے اور وہ کچھ بھی نہ ہو سکاجس کے دعوے اور وعدے عوام سے کیے گئے تھے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو یا مزاحمتی حملے ‘ لاء اینڈ آرڈر ہو جلسہ جلوس ‘ جشنِ بہاراں ہو یا پی ایس ایل کے میچز یااحتجاجی دھرنے...بے نظیر بھٹو کا قتل ہو یا سانحہ ماڈل ٹائون‘سانحہ ساہیوال ہو یا حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کی حفاظتی ڈیوٹیاں... قربانی کا بکرا ہمیشہ پولیس بنتی ہے‘جبکہ پولیس کا نہ کوئی ہسپتال ہے نہ بچوں کی تعلیم کیلئے سکول‘ نہ کوئی ہائوسنگ سوسائٹی ہے نہ کوئی سوشل سکیورٹی۔آج پولیس کی فیلڈ فورس کی سکریننگ کروائی جائے توپتا چلے کہ ان کی کثیر تعداد ٹی بی ‘ ہیپا ٹائٹس اور دیگر مہلک امراض لیے پھر رہی ہے۔ 1934ء کے پولیس رولز کے مطابق آج بھی 80 ہزار کی نفری کی کمی کا سامنا ہے۔فیلڈ فورس کی 27 فیصد گاڑیاں 7 لاکھ کلو میٹر سے زیادہ جبکہ 54فیصدگاڑیاں 10لاکھ کلومیٹر سے زیادہ چل چکی ہیں ‘ مزید چلنے سے قاصرہیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہیں کہ خدارا اب تو ہمیں ناکارہ قرار دے دو۔
اس مایوس کن صورتحال میں روشنی کی ایک کرن نظر آئی ہے کہ تھانوں کی حالتِ زار سے لے کرتفتیشی استعداد کار تک اور مقدمات کی تفتیش سے لے کر مناسب بجٹ اور دیگر سہولیات کی فراہمی تک کے لیے پیش رفت ہورہی ہے۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ پہلی بار ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب ایک پیج پر اکٹھے ‘ شانہ بشانہ اور ہمقدم ہیں۔ایسے میں بجا طور پر امید کی جاسکتی ہے کہ پولیس کی حالتِ زار بدلنے کے لیے یہ اپنا حصہ ضرور ڈالیں گے۔تب کہیں جاکر گورننس اور انصاف یقینی بنایا جاسکتا ہے۔