"AAC" (space) message & send to 7575

اَج دا دن وی ایویں لنگیا

بے نامی اور نمائشی معافیوں اور معذرتوں کے بعد قوم یقینا اپنے اصل روپ میں واپس آچکی ہو گی۔ شب برات کے حوالے سے پوری قوم ایک خاص کیفیت میں مبتلا تھی اور سوشل میڈیا پر معافیوں اور معذرتوں کے پیغامات کا ایک سیلاب تھا‘ جس میں کسی کا نام لیے بغیر عام معافی طلب کی جا رہی تھی۔ قارئین! آپ سب ہی جانتے ہیں کہ چودہ اور پندرہ شعبان کی درمیانی رات دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی فضیلت اور اہمیت کی حامل ہے۔ اس رات تمام مسلمان نوافل اور ذکر الٰہی کے علاوہ دُعائیں، التجائیں اور معافیاں مانگ کر اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عین اسی کیفیت میں انہیں اپنی اُن غلطیوں، کوتاہیوں اور زیادتیوں کا یقینا احساس بھی ہوتا ہے جو دانستہ اور غیر دانستہ اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب سے کر جاتے ہیں۔ 
گزشتہ رات بھی اس کیفیت کے زیر اثر سوشل میڈیا پر معافیاں اور معذرتیں طلب کی جا رہی تھیں‘ جن سے ریاکاری اور منافقت کی بُو آرہی تھی۔ اعلانِ عام کی صورت میں پوسٹیں لگانے والوں نے نہ کسی کو مخاطب کیا اور نہ ہی کسی کا نام لیا۔ وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ لگا کر یقینا یہی تصور کر رہے ہوں گے کہ انہوں نے اپنے اُن تمام رویوں اور زیادتیوں کا ازالہ کر دیا ہے‘ جن سے پریشان اور بے چین ہو کر انہوں نے بے اختیار یہ پوسٹیں سوشل میڈیا پر لگائیں اور پوسٹ لگاتے ہی ان کی تمام زیادتیاں اور کوتاہیاں نہ صرف معاف ہو چکی ہیں بلکہ اب وہ خود کو دودھ کا دھلا تصور کر سکتے ہیں۔ یہ سارا منظر نامہ مجھے معافیوں اور معذرتوں کا اتوار بازار لگا۔
تعجب ہے شب برات پر یہ نمائشی معافیاں بھی انہیں دوست احباب اور عزیز رشتے داروں سے مانگی جاتی ہیں جو پہلے سے ہی راضی اور مسلسل رابطے میں ہوتے ہیں‘ جبکہ روٹھے ہوئے اور ناراض احباب اور عزیزوں سے کوئی رابطہ کرنا بھی گوارا نہیں کرتا کیونکہ ناک جو نیچی ہو جاتی ہے۔ روٹھے اور ناراض رشتے دار روٹھے ہی رہتے ہیں۔ ہم راضی دوستوں اور عزیزوں سے ستائشِ باہمی کی یہ کارروائی کر کے خود کو ایسے ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں گویا کوئی بہت بڑا اخلاقی اور مذہبی فریضہ ادا کر دیا ہو اور سر سے کوئی بہت بڑا بوجھ اُتار پھینکا ہو۔ یہ کیفیت وقتی اور صرف ایک آدھ رات اور دن کے لیے ہی ہوتی ہے اس کے بعد اگلی شب برات تک کینہ، بغض، عناد، خفگی اور ناراضگی جاری رہتی ہے۔ یہ منافقت ہے یا خود فریبی‘ یہ رب کو دھوکا دے رہے ہیں یا خود کو‘ دونوں صورتوں میں یقینا باعث شرم اور بے حسی کا مقام ہے۔ اس طرز عمل پر غور کرنا من حیث القوم سب کی ذمہ داری ہے۔ 
اسی طرح کورونا سے نجات حاصل کرنے کے لیے رات 10 بجے چھتوں پر چڑھ کر اَذانیں تو خوب دیتے ہیں لیکن بحیثیت قوم کس کا کیا کردار ہے‘ خود ساختہ مہنگائی سے لے کر چور بازاری اور لوٹ مار تک کون سا دھندا اس لاک ڈاؤن میں نہیں ہو رہا‘ یہ کوئی نہیں سوچتا۔ اس موقع پر انور مقصود کے ایک ٹویٹ کا ذکر کرتا چلوں کہ: ''اگر اَذانیں دینے سے بھی بات نہ بنے، تو 10 روپے والا ماسک 10 کا ہی بیچ کر دیکھو شاید اﷲ کو رحم آ جائے‘‘۔ کورونا پر سرکار کی حکمتِ عملی اور کارگزاری کا رونا تو روز ہی روتے ہیں‘ لیکن عوام بھی سیزن لگانے سے کہیں پیچھے نہیں ہیں۔ جس طرح نسبتیں اور حرکتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح فیصلے اور اقدامات حکمرانوں کی نیتوں کا پتہ دیتے ہیں۔ کورونا ایمرجنسی میں اکثر مقامات پر عوام اور حکمران ایک پیج پر ہی نظر آتے ہیں یعنی جیسے عوام ویسے حکمران... تو پھر رونا کس بات کا ہے؟ 
بے موسمی بارشیں ہوں یا قدرتی آفات‘ کورونا بلا ہے یا وبا‘ دونوں صورتوں میں قیامت خیز ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سماجی و اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ مذہبی فریضوں میں ریاکاری اور دکھاوا منہ پر مار دیا جاتا ہے۔ بھلے کوئی خود فریبی میں مبتلا رہے یا خوش گمانی میں‘ کوئی تقویٰ کے تکبر میں اترائے پھرے یا عاجزی کے غرور میں‘ یہ صورتحال پوری قوم کے لیے مقامِ فکر ہے۔ حکمرانوں کی نیتوں اور اقدامات کا رونا ضرور روئیں لیکن کچھ وقت نکال کر اپنے اعمال پر بھی غور کریں۔ ایک دور کی کوڑی لانے والے نے خوب بات کہی کہ ''چین کے پاس علی بابا ہے تو کیا ہوا‘ ہمارے پاس چالیس چور جو ہیں‘‘۔ کفن چوروں سے لے کر جوتا چوروں تک‘ چینی چوروں سے لے کر آٹا چوروں تک‘ ٹیکس چوروں سے لے کر سرکاری وسائل اور خزانے کی چوری تک ایک طویل فہرست ہے جو ہمیں چین کے علی بابا سے کہیں زیادہ ممتاز کیے ہوئے ہے۔ 
کورونا کا رونا تو ہم روز ہی روتے ہیں‘ اور جب تک اس کے خطرات اور خدشات باقی رہیں گے یہ رونا روتے رہیں گے‘ لیکن مایوسی کے سائے دن بدن طویل ہوتے چلے جا رہے ہیں جبکہ غیر یقینی کے گڑھے بھی دن بدن گہرے ہوتے دِکھائی دیتے ہیں۔ اسی ڈپریشن اور بے چینی سے بچنے کے لیے کوشش کی ہے کہ آج کورونا کی تباہ کاریوں اور حکومتی کارستانیوں سے جتنا ہو سکے اجتناب کیا جائے۔ لاک ڈاؤن جاری ہے اور اس کے طویل ہونے کے امکانات بھی دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جہاں سماجی رابطے تعطل کا شکار ہیں وہاں خود سے ملاقات کے لیے بے پناہ وقت ہی وقت ہے۔ ہر خاص و عام کم و بیش ایک ہی کیفیت کا شکار ہے۔ بعض اوقات اس منظرنامے پر منیر نیازی کی یہ نظم بے اختیار نہ صرف یاد آتی ہے بلکہ اکثر اوقات حسبِ حال بھی لگتی ہے:
اَج دا دن وی ایویں لنگیا
کوئی وی کَم نہ ہویا 
پورب وَلوں چڑھیا سورج 
پچھم آن کھلویا
نہ ملیا میں خلقت نوں 
نہ میں یاد خدا نوں کیتا 
نہ میں پڑھی نماز 
تے نہ میں جام شراب دَا پیتا 
خوشی نہ غم کوئی کول نہ آیا 
نہ ہنسیا نہ رویا 
اَج دا دن وی ایویں لنگیا
چلتے چلتے کچھ خبریں شیئر کرتا چلوں کہ غریبوں اور مستحقین کے لیے حکومتی اِمدادی پروگرام شروع ہو چکا ہے۔ دیکھتے ہیں اس احساس پروگرام میں کتنے غریبوں کا عملی احساس کیا جاتا ہے۔ اچھی شہرت رکھنے والی کچھ سماجی تنظیمیں/ این جی اوز پہلے سے ہی کورونا ایمرجنسی میں غیر معمولی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اگر ان تنظیموں کو حکومت اپنے نیٹ ورک میں شامل کر لے تو اصل مستحقین تک رسائی اور احساس پروگرام کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ ایک کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ اس ہنگامی صورتحال میں بلدیاتی اداروں کی اہمیت اور کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ 
کورونا ایمرجنسی کے پیش نظر حکومت اگر وسیع تر قومی مفاد میں پنجاب بھر کے بلدیاتی اداروں کو اپنا معاون اور مددگار بنا کر قومی دھارے میں شامل کر لے تو اس بد ترین صورت حال سے بخوبی نمٹنا آسان ہو سکتا ہے۔ معاشی حالات کے پیش نظر لوگوں کا گھروں میں بند رہنا اور لاک ڈاؤن کی پابندی برقرار رکھنا دن بدن مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں ریاستی تقاضوں اور معاشی مجبوریوں میں اختلافات سامنے آ سکتے ہیں۔ ایسا ہوا تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے لہٰذا ضرورت اس اَمر کی ہے کہ آنے والے چیلنجز کے پیش نظر بلدیاتی اداروں کو فعال کیا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں