ہر طرف مایوسی، بددلی اور بے یقینی ڈیرے جمائے بیٹھی ہے۔ کہیں حالات کا ماتم ہے تو کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے اندھے گڑھے منہ کھولے ہوئے ہیں۔ کئی بار کوشش کی کہ ان ڈیروں اور گھیروں سے بچ کر اس لیے نکل جاؤں کہ یہ کالم درد کہیں بڑھا نہ دے۔ باوجود ہزار کوشش کے‘ اس بار بھی ناکام اور بے بس ہی پایا گیا۔ کوئی کتنا ہی ڈھیٹ اور سخت جان کیوں نہ ہو ان حالات‘ مایوسیوں اور اندیشوں سے کیسے بچ سکتا ہے۔ کوئی ریزہ ریزہ ٹوٹتا ہے تو کوئی دھڑام سے گر پڑتا ہے۔ کوئی قطرہ قطرہ مرتا ہے تو کوئی لمحہ لمحہ سسکتا ہے۔ یہ سارے عذاب ہی آگہی کے ہیں۔ آگہی سے بڑا اور بھیانک عذاب اور کیا ہو سکتا ہے؟ طبیعت بوجھل اور اس پر بلا کی اُداسی کا غلبہ ہے۔ کیفیت بیان کرنا بھی چاہوں تو نہیں کر سکتا‘ بمشکل اتنا ہی کہ بس: ؎
آگہی مجھ کو کھا گئی ورنہ
میں نے جینا تھا اپنے مرنے تک
اس خطۂ سیاہ بخت میں بسنے والوں کا رونا کوئی ایک دن کا رونا نہیں۔ یہ رونا کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ کبھی روٹی، کپڑا اور مکان جیسے جھانسے تو کبھی طولِ اقتدار کے لیے نظامِ مصطفیؐ کے نفاذ کے دعوے۔ کبھی کوآپریٹو سوسائٹیز کے بد ترین مالی سکینڈلز جس میں لاکھوں افراد نے نہ صرف اپنی جمع پونجی گنوائی بلکہ سفید پوشی کا بھرم بھی جاتا رہا‘ کوئی بیٹی نہ رُخصت کر سکا تو کسی کا بڑھاپا رُل گیا‘ کوئی کسمپرسی کے عالم میں علاج نہ کروا سکا تو کوئی مفلسی کے ہاتھوں زندہ درگور ہو گیا۔ کوآپریٹو سکینڈل میں لاکھوں کے کلیم کوڑیوں کے بھاؤ خریدنے والی کسی سیارے کی مخلوق نہیں بلکہ ہماری سیاسی اشرافیہ اور حکمران ہی تھے۔ اس کارِ بد میں شریک ایک کردار تو آج کل عمروں کے ریکارڈ توڑتے دِکھائی دیتا ہے۔ کوآپریٹو متاثرین پر ظلم ڈھانے والے چند کردار دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں جبکہ دیگر تمام مرکزی کردار آج بھی زندہ تو ہیں لیکن شرمندہ ہرگز نہیں۔ اسی طرح لانچیں بھر بھر کر کرنسی نوٹوں کی نقل و حمل اور بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں کے ساتھ انڈے بچے دیتی کمپنیاں اور فیکٹریاں، یہ سبھی عذاب اس قوم نے نہ صرف جھیلے بلکہ آج بھی کم و بیش ایسے ہی مناظر دیکھتے دیکھتے ان کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں۔
جس ملک میں عدالت کو ہنگامی صورتحال میں بھی ازخود نوٹس لے کر حکومت سے یہ پوچھنا پڑے کہ کورونا ایمرجنسی میں عوام کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو‘ امدادی رقوم اور راشن کا حساب طلب کرنا پڑے‘ وہاں کیسا احساس‘ کیسا میرٹ اور کہاں کی گورننس؟ اَربوں روپے کی امداد اس قدر خاموشی سے تقسیم کی جا چکی ہے کہ مستحق عوام کو بھی نہ پتہ چل سکا کہ یہ امدادی رقم کس نے کب اور کہاں دی اور کس نے وصول کی۔ اسے خاموش خدمت کہیں یا خاموش واردات۔
پوری دنیا کورونا پر مخصوص اور طے شدہ ایس او پیز پر متفق اور عمل پیرا ہے جبکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے کورونا ایمرجنسی کے باوجود کوئی قومی پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی ہے۔ وفاق اور سندھ شدید اختلافات اور بیان بازی کے ساتھ آمنے سامنے اور ایک دوسرے کی ضد دِکھائی دیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ ہاتھ جوڑ کر حالات کی سنگینی کا رونا رو رہے ہیں جبکہ وفاق کا کہنا ہے کہ کورونا کے حوالے سے فیصلے اور اقدامات صوبوں کی صوابدید ہے؛ تاہم یہ صوابدیدی سہولت اور اختیار پنجاب کو میسر نہیں۔ پنجاب میں لاک ڈاؤن میں نرمی کرکے مخصوص شعبے کھولنے کی اجازت ملتے ہی سڑکوں پر گہماگہمی اور بھیڑ کے مناظر کثرت سے دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ ریکارڈ ٹریفک چالانوں کی وجہ سے بینکوں کے باہر جرمانے کی ادائیگی کرنے والوں کی لمبی قطاریں اور جمِ غفیر دیکھ کر تو ایک بار کورونا کو بھی رونا آگیا ہوگا۔ یہ کیسے غافل اور نادان لوگ ہیں۔ انہیں نہ تو اپنا کوئی خیال ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کا احساس۔ قطاروں میں لگے عوام سے پوچھو تو وہ ایسے کھانے کو پڑتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک مہینے سے گھروں میں پریشان حال ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد گھر سے نکلے تھے کہ کوئی کام دھندہ دیکھیں اور روٹی روزی کا بندوبست کرکے گھروں کو لوٹ جائیں لیکن گھر سے نکلتے ہی پولیس گھات لگائے بیٹھی تھی اور ذلت اور دھتکار کے ساتھ ساتھ مہنگے جرمانے کی پرچی بھی تھما دی ہے۔ سارا وقت تو قطار میں لگ کر جرمانے کی رقم جمع کروانے میں ضائع ہو گیا ہے‘ کام دھندا کیا خاک کرتے؟ اکثر کے پاس تو جرمانے کی ادائیگی کی رقم بھی نہیں تھی۔ وہ جرمانے کے بجائے بددُعائوں کی صورت میں ٹریفک چالان کی ادائیگی کررہے ہیں۔
پنجاب میں لاک ڈاؤن کی نرمی دوہرے معیار کا شکار دِکھائی دیتی ہے۔ بعض مقامات پر تو صورتحال دلچسپ اور مضحکہ خیز بھی نظر آتی ہے۔ دیہاڑی دار اور مزدور طبقہ کو لاک ڈاؤن کی پابندی سے آزاد کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کام دھندے پر جا سکتے ہیں جبکہ کام کہاں کرنا ہے اور کیسے جانا ہے‘ یہ معمہ تاحال حل طلب ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش کی صورت میں یہ کام کی تلاش میں کیسے نکلیں گے اور کیسے واپس آئیں گے۔ ممکن ہے انصاف سرکار نے ان دیہاڑی دار مزدوروں کے آنے جانے کے لیے کوئی اُڑن کھٹولہ یا سپیشل ٹرین چلانے کا فیصلہ کر رکھا ہو؛ تاہم مزدور پیدل ہی دھکے کھاتے اور سڑکوں پر خوار ہوتے دِکھائی دیتے ہیں۔ حکومتی بیان بازیوں اور تضاد بیانیوں کا سماں سرکس کا منظر نظر آتا ہے۔ ویڈیو لنکس، پریس کانفرنسز اور فوٹو سیشنز کا نہ رُکنے والا سلسلہ جاری ہے جبکہ اَپوزیشن کی پوائنٹ سکورنگ اور کہیں کہیں فوٹو سیشنز کے مناظر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اِمدادی رقوم اور راشن کے حصول کے لیے مارے مارے پھرنے والے مستحقین سڑکوں پر کثرت سے دِکھائی دے رہے ہیں جبکہ انہیں یہ سرکاری سوغاتیں پہنچانے والی انصاف سرکار کی ٹائیگر فورس کہیں نظر نہیں آرہی۔ عین ممکن ہے اُن کی ذمہ داری تبدیل کرکے رمضان المبارک میں عوام الناس کو سحری کے وقت جگانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہو۔
سندھ بالخصوص کراچی میں پراسرار اموات اور کورونا کے کیسز سے پیدا ہونے والی تشویشناک صورتحال اور پنجاب میں دی جانے والی نرمی سے اقدامات اور فیصلوں میں دوہرا معیار کھل کر سامنے آچکا ہے۔ اگر صورتحال سنگین ہے تو پنجاب میں لاک ڈاؤن کی نرمی کیوں اور اگر صورتحال اتنی سنگین اور نازک نہیں ہے تو سندھ میں اتنی سختی کیوں کی جارہی ہے۔ یہ سوالات پوری قوم کو کنفیوز کیے ہوئے ہیں اور انصاف سرکار کے بیانات سے یوں لگتا ہے کہ وہ سندھ کے معاملات سے دانستہ کنارہ کیے ہوئے ہے۔
دور کی کوڑی لانے والے تو کہتے ہیں کہ انصاف سرکار نے پنجاب میں لاک ڈاؤن کی نرمی صرف اس خوف سے کی ہے کہ آنے والے دنوں میں چھینا جھپٹی، لوٹ مار کے ساتھ ساتھ انتشار اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال نازک ہونے کا اندیشہ تھا۔ ایسے میں سارا الزام اور ذمہ داری انصاف سرکار کے گلے پڑ سکتی تھی اور یہ صورتحال حکومت کو مزید غیر مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ اَپوزیشن کو مستحکم کرنے کا باعث بن سکتی تھی جبکہ لاک ڈاؤن میں نرمی کی صورت میں کورونا کیسز بڑھنے اور اموات کا الزام سرکار کے بجائے سیدھا کورونا وائرس کو ہی جائے گا اور باآسانی یہ عذر بھی اختیار کیا جا سکے گا کہ پوری دنیا میں ہی لوگ متاثر اور ہلاک ہو رہے ہیں ایسے میں ہمارے ہاں کیسز کا بڑھنا اور اموات کوئی اچنبھے کی بات نہیں جبکہ وزیراعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جتنی اموات کی وہ توقع کر رہے تھے اموات اس سے کہیں کم ہوئی ہیں؛ تاہم حکومت نے سخت لاک ڈاؤن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ممکنہ، بداَمنی اور انتشار کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے عوام کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے آپشن کو ترجیح دی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان پہلے ہی وفاقی کابینہ میں مشیروں اور معاونین کے غلبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مشیر صحت ظفر مرزا کی اہلیت اور کارکردگی پر سوال اُٹھا چکی ہے جبکہ بدنامی اور الزامات کے اعزازات حاصل کرنے والے سابق وزیر صحت عامر کیانی کو دوبارہ انصاف سرکار میں اہم ذمہ داری دینے کی اطلاعات بھی بہت گرم ہیں۔ ایسے میں یہ سارے عذاب جھیلنے والے سیاہ بخت عوام کی حالت زار کچھ یوں ہے:؎
کون پرسانِ حال ہے میرا
زندہ رہنا محال ہے میرا