پوری دنیا کورونائی اثرات میں گھری ہوئی ہے۔ کیا سیاست کیا ریاست‘ کونے کونے پر کورونا گردی کا راج ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو حالات کیسے بھی ہوں۔بات کورونا پر آکر ہی ختم ہوتی ہے۔ روز مرہ کے معمولات سے لے کرمستقبل کے معاملات اور اہداف تک ‘ سبھی کورونا سے مشروط ہوکر رہ گئے ہیں۔انصاف سرکار کے چیمپئنز کے بیانات سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبھی اعلانات کے بادشاہ ہیں۔ زمینی حقائق اور درپیش چیلنجز سے بے نیاز اعلانات پر اعلانات کیے چلے جارہے ہیں۔ایسا ایسا ارسطوایسا ایسا بقراط درجنوں مائیک سامنے سجائے کورونا پرماہرانہ رائے دیتا نظر آتا ہے گویا کورونا ان سے پوچھ کر ہی پھیلتا اور سکڑتا ہے۔ عدالت پہلے ہی ازخود نوٹس لے کر انصاف سرکار کے کورونائی انتظامات اور اقدامات پر تحفظات اور عدم اطمینان کا اظہار کرچکی ہے۔ ازخود نوٹس اور پانچ رکنی بینچ کی تشکیل کو ایزی لینے والے اس اقدام کو ایزی ہر گز نہ لیں۔
وفاقی کابینہ پر غیر منتخب افراد کا غلبہ اور وزیر صحت کے بغیر سارے اقدامات ، ٹامک ٹوئیاں اور سنجیدگی کی ضد نظر آتے ہیں۔مشیر صحت ظفر مرزا کی اہلیت اور کارکردگی پر بڑے سوال اٹھائے جانے کے باوجود حکومت تاحال کوئی قابل اور مستقل وزیر صحت دریافت نہیں کرسکی ہے۔ اس سے بڑا لطیفہ کیا ہوسکتا ہے کہ پورے ملک میں ڈیڑھ ماہ سے کورونا ایمرجنسی نافذ ہے‘ وہ بھی غیر معینہ مدت کیلئے ‘ اورملک میں نہ وزیر صحت ہے اور نہ کورونا پر کوئی قومی پالیسی۔ ہر صوبے اور شہر کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کہیں سختی تو کہیں نرمی۔ کہیں نیم سختی کہیں مکمل آزادی۔ ریلوے سٹیشن کا تازہ ترین منظر دیکھ کر کورونا کو خود ہاتھ باندھ کر انصاف سرکار کے آگے پیش ہوجانا چاہیے کہ جناب ! تم جیتے میں ہارا‘ میری تباہ کاریوں کے آگے تمھاری غفلتیں اور ہٹ دھرمیاں کہیں زیادہ مہلک اور جان لیوا ہیں‘ تمھاری حماقتوں بھری حکمت عملیاں ہی تباہ کاریوں اور ہلاکتوں کیلئے کافی ہیں‘مجھے یہاں اپنا وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کئی ممالک تاحال میری تباہ کاریوں سے بچے ہوئے ہیں‘ مجھے وہاں بھی پہنچنا ہے‘پاکستان میں میری اب کافی فرنچائزیں اور کئی معاونین موجود ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ گورننس اور احتیاطی تدابیروں کے لیے بھی کسی کورونے سے کم نہیں۔
صوبہ سندھ میں سخت لاک ڈائون جاری ہے اور مزید سختی کی اطلاعات بھی آرہی ہیں جبکہ پنجاب میں لاک ڈائون مخصوص تھیوری کی وجہ سے آدھا تیتر آدھا بٹیر بن کر رہ گیا ہے۔ مزدوروں کو کام پر جانے کی اجازت ہے لیکن نہ کہیں مزدوری ہے نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب ہے۔ درزی کو دکان کھولنے کی اجازت ہے لیکن کپڑے کی دکانیں بند ہیں۔ ایک دل جلے نے تو تلملا کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب کپڑے کی دکانیں بند ہیں تو درزی کی دکانیں کیا کفن سینے کے لیے کھلوائی گئی ہیں؟ اسی طرح پلمبر تو لاک ڈائون کی سختیوں سے آزاد ہوگیالیکن سینٹری کی دکانیں کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے میں مطلوبہ سامان کے بغیر کیا وہ دم کرکے نقائص دور کرے گا؟ اسی طرح تعمیراتی شعبے کو ایمنسٹی اور فری ہینڈ دے کر کھول دیا گیا ہے لیکن ٹائلز اور دیگر تعمیراتی سامان کی دکانیں بند رہیں گی۔ صرف گرے سٹرکچر بنانے کی اجازت ہوگی دوسرے معنوں میں صرف تعمیراتی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی اجازت ہے‘ جبکہ ٹائلز ، پتھر اور دیگر تعمیراتی سامان کی اجازت ملنے تک اس ادھورے ڈھانچے کی آرتی اتاری جاسکتی ہے۔ باقی شعبہ جات بھی کم و بیش انہی تضادات کا شکار نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا مطالبہ ہے کہ انہیں صرف سلامی پر نہ ٹرخایا جائے بلکہ حفاظتی کٹس بھی فراہم کی جائیں۔ مطلوبہ کٹس کی عدم فراہمی اور دیگر مطالبات کی منظوری کیلئے سیکرٹری سپیشلائز ہیلتھ کے دفتر میں ینگ ڈاکٹرز کا دھرنا مذاکرات میں ڈیڈلاک کے ساتھ جاری ہے، جبکہ محکمہ صحت کے دونوں شعبے متضاد حکمت عملی کی وجہ سے تضادات کا انبار دکھائی دیتے ہیں۔کورونا کا اسی فیصد مقابلہ پرائمری ہیلتھ کا شعبہ کررہا ہے جبکہ سپیشلائز ہیلتھ شعبہ کے خلاف ٹیچنگ ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف روز اول سے ہی سراپا احتجاج ہیں۔ اس سے بڑھ کر نالائقی اور کیا ہوگی کہ عدالت کی شدید برہمی کے باوجود ہسپتالوں کے دروازے دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کیلئے تاحال نہیں کھل سکے ہیں‘ جبکہ ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو بھی وقتی ریلیف دے کر ٹرخادیا جاتا ہے کہ کورونا ایمرجنسی چل رہی ہے‘ باقاعدہ علاج اور ایڈمیشن نہیں ہو سکتاجبکہ اکثر مریض پرائیویٹ ہسپتالوںمیں منہ مانگی فیس دے کر آپریشن کروانے پر مجبور ہیں جنہیں سرکاری ہسپتالوں سے انکار اور دھتکار کے سوا کچھ نہیں ملا۔
ڈاکٹر ز خالی خولی سلامی پر راضی نہیں ہیں جبکہ انھیں سلامی دینے والی پولیس فورس کے بارے میںواقفان حال بتاتے ہیں کہ پولیس سے یہ سلامی حکومتی دبائو کے تحت زبردستی دلوائی گئی ۔ پولیس فورس کا موقف ہے کہ ہم بھی تو فرنٹ لائن پرہی ہراول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں‘ ہمیں سلامی تو درکنار شاباش کے دو لفظ بھی نصیب نہیں ہوئے۔ اس پر ستم یہ کہ فیلڈ میں کام کرنے والی فورس کیلئے ماسک ، حفاظتی کٹس اور خوراک کے بھی مسائل درپیش ہیں۔ صرف لاہور میں پولیس فورس کے سات ہزار جوان اور افسران شب وروز کام کررہے ہیں۔ اسی طرح پنجاب بھر میں تقریباً ساٹھ ہزار افسران اور جوان فرنٹ لائن کا حصہ ہیں۔ سڑکوں اور ناکوں پرحفاظتی اقدامات کے بغیر ساڑھے سات لاکھ افراد کو چیک کیا جاچکا ہے۔ پونے چار لاکھ موٹرسائیکل اور ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں چیک کرنا جواں مردی اور حب الوطنی کی اعلیٰ مثال ہے جبکہ خوراک اور حفاظتی سامان وغیرہ کیلئے نہ کوئی اضافی گرانٹ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان۔ بھلاہو سماجی تنظیموں اور دیگر پرائیویٹ اداروں کا جن کے تعاون سے یہ سارے معاملات چلائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی آپریشنز، آر پی او فیصل آباد، آر پی او راولپنڈی، سی پی او گوجرانوالہ پولیس کے ساتھ ساتھ پنجاب بھر میں کوآرڈی نیشن اور مثالی عملدرآمد کو یقینی بنانے والے ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب اور ڈی آئی جی آپریشنز اور ڈی آئی جی ویلفیئر کی کارکردگی بھی قابل ذکر ہے۔ پنجاب کابینہ میں بھاری ذمہ داری کے ساتھ عبدالعلیم خان کی واپسی کے بعد وزیر اعلیٰ تو اکثر فضائی جائزہ پر ہوتے ہیں جبکہ علیم خان اہم اجلاسوں کی صدارت کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ سال سے چھایا جمود توڑتے نظر آتے ہیں۔ آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ چینی اور آٹے کے گھاٹے تو شاید کبھی نہ کبھی پورے ہو ہی جائیں گے لیکن ''انرجی‘‘ کی واردات کا صدمہ اور گھائو عوام کو مزید گھائل کرنے کے درپے ہے۔ یہاں تو مشیر صحت سمیت دیگر مشیروں کی کارکردگی کا رونا دھونا ختم نہیں ہوا تھا کہ مشیر انرجی کی اچھوتی کہانیاں منظر عام پر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ دور حکومت سابق ہو یا موجودہ وہ سبھی ادوار میں متحرک اور حکومت کے ساتھ ساتھ سٹیک ہولڈرز کے بھی مشیر نظر آتے ہیں۔ یعنی دونوں طرف کھیلنے کے ماہر ہیں۔ معروف اور بڑی کاروباری شخصیت کی کوآرڈی نیشن کے نتیجے میں وہ انصاف سرکار میں بھی اپنے قدم جما چکے ہیں اور پرانے کھلاڑیوں کے ساتھ نئے کھلاڑیوں کو بھی انرجی ٹورنامنٹ میں شامل کر چکے ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ چینی کی بدنامی کے بجائے انرجی سیکٹر میں ٹی ٹونٹی کھیلا جا سکتا ہے اور سینکڑوں گنا زیادہ مال بنایا جا سکتا ہے کیونکہ اس واردات کو دستاویزی تحفظ بھی حاصل ہے۔
چینی کی واردات اور آٹے کے گھاٹے پر رونا دھونا چھوڑیئے اور انرجی کے ماتم کی تیاری کیجئے۔ رونا دھونا تو چلتا ہی رہتا ہے۔ ماتم اور سینہ کوبی کے لیے خود کو تیار کر رکھیے۔ آنے والے موسم ماتموں کے موسم دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے بھی کورونا ایمرجنسی میں لاک ڈائون کی متضاد پالیسیاں کوئی اچھا شگون نہیں ہیں۔ کسی موت کا الزام کبھی ملک الموت پر نہیں آتا۔ یہ سارے الزام کبھی دل کے دورے پر‘ کبھی ایکسیڈنٹ پر‘ کبھی قدرتی آفت پر اور کبھی جان لیوا بیماری پر ہی آتے ہیں۔ اسی طرح نئی تھیوری کے تحت کورونا ایمرجنسی کے دوران ہلاکتوں کا ذمہ دار کورونا وائرس کو با آسانی ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ لاک ڈائون کی سختی کے نتیجے میں ممکنہ بد امنی، لوٹ مار اور خانہ جنگی کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات اور جانی و مالی نقصان کی ذمہ داری براہ راست حکومت پر ہی آ سکتی تھی۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے نئی تھیوری کے تحت کورونا وائرس پر الزام بہتر آپشن ہے۔