اکثر احباب اور قارئین کا شکوہ ہے کہ میں اپنے کالموں میں ڈپریشن پھیلانے کے علاوہ حالات کا ماتم بہت کرتا ہوں۔ ان سبھی کا اعتراض ہے کہ حالات پہلے ہی کیا کم مایوس کن ہیں کہ میں مایوسیوں کے سائے اس قدر بڑھا دیتا ہوں کہ ہر طرف اندھیرا ہی چھایا دکھائی دیتا ہے۔میرا انہیں ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ملامتی حالات میں ماتمی کالم ہی لکھا جا سکتا ہے۔
کیسے کیسے مسیحا آئے اور عوام کا درد بڑھانے کے بعد اپنی دکان بڑھا گئے‘ جنہیں نجات دہندہ سمجھتے رہے‘ ان سے نجات کی دعائیں مانگنا پڑیں‘ جنہیں بے پناہ چاہا انہی سے پناہ مانگتے پھرے۔ مجھ پر اعتراض اُٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ انسانوں کے بھی کوئی حقوق ہوتے ہیں‘ ہم اپنی ضرورت سے زیادہ ہرگز نہیں مانگتے‘ انسان ہونے کے ناتے حکومت ہمیں اُن بنیادی ضرورتوں سے تو محروم نہ کرے جو بحیثیت ِانسان ہمارا حق ہیں۔ میں جواباً ان سے یہی کہتا ہوں کہ انسانی حقوق تو انسانوں کے لیے ہوتے ہیں‘ تمہارے مسیحا اور نجات دہندہ حکمران تمہیں انسان ہی کب سمجھتے ہیں؟ جب یہ تمہیں انسان کے مرتبے پر فائز کردیں گے‘ اُس دن شاید تمہیں وہ انسانی حقوق بھی مل جائیں گے‘ جن کا تم واویلا کرتے ہو۔ میں کالے کو سفید اور اندھیرے کو اُجالا کیسے لکھ دوں‘ کالے کرتوت اور اندھیر نگری میں پھیلے ان اندھیروں کو اُجلا سویرا کیسے کہہ سکتا ہوں؟ میرے اس جواب پر وہ کہتے ہیں کہ تمہاری یہی باتیں ہمیں مزید مایوس کر دیتی ہیں‘ تھوڑی بہت خوش گمانی یا اچھے دنوں کی آس توڑنے کے ساتھ ساتھ نجانے کیا کچھ توڑ ڈالتے ہو۔
ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسا مائی کا لعل نہیں‘ جو صاحب ِ اقتدار و اختیار ہو‘ اور گردن اُٹھا کر چل سکتا ہو۔ اُنگلی اٹھا کر جس کی شہادت دی جاسکتی ہو کہ اس نے حقِ حکمرانی ادا کر کے عوام کے مینڈیٹ کا مان رکھا ہو۔ یہ کسی آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ یوں لگتا ہے ہماری زمین قہر زدہ ہو چکی ہے۔ زمین قحط زدہ ہوتو اُمید اور امکان بہرحال رہتا ہے‘ ہماری زمین کا کیس اور ہے‘ یہ قحط کا نہیں قہر کا کیس ہے۔ قحط زدہ زمین سے بہتری کا گمان کیا جاسکتا ہے‘ لیکن قہر زدہ زمین سے امکان اور امید کی توقع نہیں لگائی جاسکتی۔
ہماری مذہبی تاریخ گواہ ہے کہ کہیں عمر بن خطابؓ جیسا حکمران عوام کی عدالت میں اپنی صفائی پیش کر رہا ہے تو کہیں حضرت علیؓ کو بتایا جارہا ہے کہ آپ کے حق میں حضرت حسنؓ کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی‘ کیونکہ وہ آپؓ کے صاحبزادے ہیں اور نہ ہی غلام کی شہادت آقا کے حق میں معتبر ٹھہرائی جاسکتی ہے۔ خلیفہ وقت ہو کر کرتے کے کپڑے کا حساب دینے والے اور دریائے فرات کے کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کی ذمہ داری لینے والے خلفا کو ماڈل بناکر دھرنوں اور انتخابی تحریکوں میں پیش کرنے والے حکمرانوں پر جب عمل اور تقلید کا وقت آیا تو سماجی انصاف سے لے کر معاشی اصلاحات تک‘ میرٹ اور گورننس سے لے کر قول و فعل میں مطابقت تک‘ سبھی معاملات میں یہ ناکام و نامراد ہی ٹھہرے۔
کرموں جلے عوام نے بھی کیا قسمت پائی ہے‘ کیسے کیسے حکمران ان کے نصیب میں لکھے گئے ہیں جو اپنی اپنی باریاں لگا کر چلتے بنے۔ سرکاری وسائل اور ریاستی اداروں پر غول در غول حملہ آور ہوئے‘ انہیں ملیا میٹ کیا‘ وسائل کولوٹا اور کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ کر کے کنبہ پروری کے ساتھ ساتھ بندہ پروری کو بھی خوب رواج دیا۔ جب سماجی عدل و انصاف کا وقت آیا تو سماج سے لے کر ریاست تک نہ انصاف ہو سکا‘ نہ گورننس پروان چڑھ سکی اور نہ ہی میرٹ کا بول بالا ہوسکا۔ ان حکمرانوں کو بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح نا اہل پالیسی ساز اور بوئے سلطانی کے مارے سہولت کار میسر آگئے۔ ایسی ایسی خبر‘ صبح و شام دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے جو اعصاب سے لے کر نفسیات تک‘سبھی پر نجانے کون کونسے ڈراؤنے حملوں کا باعث بنتی ہے۔عوام کی حالتِ زار اور اس ملامتی صورتحال پر غالب کی شہرئہ آفاق غزل کے یہ اشعار کیا حسبِ حال نہیں؎
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
غالبِؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
رویے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوں
حکمران ہوں یا افراد‘ غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار اور ضد کی وجہ سے تباہ ہوتے ہیں۔ غلطیوں پر ڈھٹائی اور ضد نہ صرف واپسی کے راستے مسدود کر دیتی ہے بلکہ بہتری کے امکانات بھی ختم کر ڈالتی ہے۔ خدا جانے وزیراعظم نے ریاستِ مدینہ کو کس چشم تصور سے دیکھنے کے بعد گورننس اور فیصلہ سازی کی باگ ڈور کن ہاتھوں میں تھما دی ہے۔ سرکاری وسائل پر کنبہ پروری‘ بندر بانٹ اورلوٹ کھسوٹ اسلامی ریا ست کا کونسا ماڈل اور کون سے تصور کا استعارہ ہے؟ اس پر ستم یہ کہ ذاتی مصاحبین اور رفقا کی ضد اور شوق کی تکمیل کے لیے اہم ترین قومی اداروں کو نت نئے تجربات اور ناقابلِ عمل پالیسیوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے‘ جبکہ گمراہ کن اعداد و شمار اور دلفریب بریفنگز کے ساتھ حقائق کو بھی بری طرح مسخ کیا جا رہا ہے۔ جو آنے والے وقت میں بھاری مالی نقصان کے ساتھ ساتھ بدنامی اور سُبکی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
جس ملک میں کورونا وبا جیسی صورت ِ حال پر پارٹی اُمیدواروں کو یہ کہا جائے کہ اپنے حلقوں میں پھیل جائیں اور کورونا پر حکومتی اقدامات اپنے کھاتے میں ڈالیں۔ گویا جہاں لوگ مر رہے ہیں‘ کاروبارِ زندگی معطل ہے‘ اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ چکے ہیں‘ تنگدستی سے فاقہ کشی تک‘ لاک ڈاؤن سے بھوک تک‘ ہر طرف بے چینی‘ افراتفری اور مایوسی کا دور دورہ ہے‘ لیکن سیاست ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ کوئی مرے کوئی جیئے ان کی بلا سے‘ فوٹو سیشن اور ویڈیو لنکس پر امدادی پروگرامز اور عوام کی حالتِ زار کی ننگی حقیقتیں جابجا تمام دعوؤں اور وعدوں کا منہ چڑاتی پھرتی ہیں۔
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے باوجود ہسپتالوں کے دروازے مہلک اور جان لیوا امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے تاحال بند ہیں‘ جبکہ 90کروڑ کی مالیت سے ایکسپو سنٹر لاہور میں قائم فیلڈ ہسپتال میں آئے روز لگنے والا تماشے چیخ چیخ کر سوال کر رہے ہیں کہ اس قرنطینہ سنٹر میں جن مریضوں کو بنیادی سہولیات کے بغیر بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا گیا ہے ان کا قصور کیا ہے؟بنیادی سہولتوں سے محروم ان سنٹرز پر لگائی جانے والی ناقابلِ یقین حد تک بھاری رقومات کہاں غرق ہو گئیں؟ یہ حالتِ زار ماڈل فیلڈ ہسپتال کی ہے‘ جبکہ دیگر قرنطینہ سنٹرز کی حالت کا اندازہ بھی اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ان سنٹرز میں محصور مریض دہائی دے رہے ہیں کہ ہمیں اُن امراض کا علاج تو فراہم کرو جن کا ہم پہلے سے شکار ہیں‘ لیکن حکومتی سقراط اور بقراط کچھ سننے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں‘ ان قرنطینہ سنٹرز میں کسی کی شوگر کنٹرول نہیں ہو رہی تو کسی کا فشارِ خون آخری حدودوں کو چھو رہا ہے‘ کوئی دل کا مریض ہے تو کسی کو گردے کا عارضہ لاحق ہے‘ لیکن سرکار کی صرف ایک ہی پالیسی ہے کہ بندہ کورونا سے نہیں مرنا چاہیے بھلے بے موت مارا جائے۔ پچھلے ماہ میو ہسپتال میں اسی پالیسی کی بھینٹ چڑھ کر مرنے والے ایک ضعیف العمر دل کے مریض کی موت پر وزیر صحت نے فرمان جاری کیا تھا کہ کسی مریض کے ہاتھ پاؤں باندھ دینا علاج کا حصہ ہے۔ اربوں کی امداد جاری ہو چکی ہے‘ لیکن عوام کی ذلتِ جاریہ کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ معلومات میں اضافے کے لیے شیئر کرتا چلوں کہ اس ناگہانی صورتحال میں چار ارب کی خطیر رقم سے تیار کیا گیا شاہکار منصوبہ انصاف صحت کارڈ بھی کسی کے کام نہ آسکا۔ ایسے ملامتی حالات میں ماتمی کالم کیوں نہ لکھا جائے؟