"AAC" (space) message & send to 7575

دلِ مرحوم یاد آتا ہے

زندگی کے جھمیلوں سے گہماگہمی تک‘ روزمرہ کے معمولات سے محفلِ یاراں تک‘ سماجی تقریبات سے مذہبی رسومات اور عبادات تک‘ سبھی کورونائی اثرات سے نا صرف بری طرح متاثر ہو چکے ہیں‘ بلکہ ویرانی اور بدحالی کے مناظر بھی جا بجا ہر سو پھیلے نظر آتے ہیں۔ کہیں بھوک اور افلاس کے ڈیرے ہیں‘ تو کہیں ہوسِ زَرّ اور بدانتظامی پاؤں پسارے بیٹھی ہے۔ کہیں سخت‘ تو کہیں نرم‘ کہیں جزوی تو کہیں سمارٹ‘ کئی طرح کے لاک ڈاؤن ملک کے مختلف علاقوں میں جاری ہیں۔ کہیں محفلیں اُجڑ گئیں‘تو کہیں بیٹھکیں بند ہو گئیں‘ کوئی جانے سے انکاری ہے‘ تو کوئی بلانے سے گریزاں ہے۔میل جول فاصلوں کا شکار ہے۔ سماجی رابطے اور معاشی تقاضے سبھی اس جبرِ مسلسل کے ہاتھوں بے بس اور مجبور دِکھائی دیتے ہیں۔ محفل ِ یاراں سے لے کر بزم ناز تک دلوں پر حکومت کرنے والے بھی دیدار کو ترس گئے ہیں۔ طبیعت کچھ اس طرح بوجھل اور مضحمل دِکھائی دیتی ہے کہ؎
راہ میں ہم ملیں کہاں 
بزم میں وہ بلائیں کیوں
آنیوں جانیوں سے لیکر‘ خاطر داریوں تک‘ وضع داریوں سے دلداریوں تک‘ سبھی کچھ تو لاک ڈاؤن ہے۔ گرما گرم بحث مباحثہ ہو یا طویل نشستیں‘ سبھی کچھ تو روٹھ گیا ہے۔ اُداسی اور بددلی کا غلبہ ہے۔ عجب بیزاری اور بے بسی نے زِندہ دِلی کو مُردہ دِلی میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس کیفیت میں برادرم شعیب ؔبن عزیز کا یہ شعر بے اختیار یاد آتا ہے:؎ 
دلِ مرحوم یاد آتا ہے 
کیسی رونق لگائے رکھتا تھا
عالمی ادارۂ صحت اور طبی ماہرین لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کروانے پر زور دے رہے ہیں‘ جبکہ حکومت لاک ڈاؤن اور بھوک کے تصادم سے تذبذب کا شکار ہے۔ ممکنہ انتشار اور حالات کی گرمی سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن میں مزید نرمی جاری ہے۔ مسجدوں میں دروازے پر نمازیوں کو روک لیا جاتا ہے‘ ماسک نہ پہننے پر واپس بھی بھجوا دیا جاتا ہے۔ جمعۃالمبارک کے اجتماعات اور نمازِ تراویح پر بھی کورونا ایس او پیز سختی سے لاگو ہیں‘ جبکہ ''کچھ ‘‘ دفاتر کے باہر مرد و زَن کی طویل قطاریں اور سبزی منڈی میں لوگوں کا جمِّ غفیر‘ بینکوں اور بازاروں میں بے تحاشا ہجوم‘ سڑکوں پر جگہ جگہ ٹریفک جام کے مناظر اب نظارئہ عام ہو چکے ہیں۔ ایسے میں مسجدوں میں گھس کر نمازیوں کی عبادات میں خلل ڈالنا اور غیر ضروری سوال جواب ناصرف حالات کی خرابی کا باعث بن سکتے ہیں‘ بلکہ دوہرے معیار کی بھی نشاندہی ہے۔ کیا سارے ایس او پیز صرف مساجد کے لیے ہی ہیں۔ 
حکومت کو خدشہ ہے کہ طبی ماہرین اور عالمی ادارئہ صحت کی سفارشات پر عمل کیا تو لوٹ مار اور بداَمنی سمیت قتل و غارت کے واقعات بڑھ سکتے ہیں جو حکومت کے لیے یقینا اچھا شگون نہیں ‘ اسی لیے بداَمنی سے کورونا کہیں بہتر آپشن ہے۔ کورونا سے مرنے والوں کا الزام تو بہرحال کورونا پر ہی آنا ہے‘ جبکہ تصادم اور بداَمنی کی صورت میں سارا ملبہ حکومت پر ہی آگرے گا۔ اس ملبے سے بچنے کے لیے عوام کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑا جارہا ہے۔ جزوی لاک ڈاؤن کے بعد سمارٹ اور اب سمارٹ لاک ڈاؤن کے بعد نرم اور ''کُھلّاڈُلّا‘‘ لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا ہے‘ جس میں کورونا سے بچاؤ کے تمام حفاظتی اقدامات اور مجوزہ ایس او پیز کی کھلی خلاف ورزی کے علاوہ من مانی کی بھی اجازت ہوگی۔ 
جن سرکاری محکموں کے منہ کو پرانا خون لگا ہوا ہے‘ وہ کورونائی حالات میں بھی عوام کو کسی صورت معاف کرنے کو تیار نہیں۔ بھتہ نہ دینے پربازاروں میں سبزیاں اور پھل بیچنے والوں کی ریڑھیاں اُلٹانا اور ذلیل و خوار کرنا آج بھی جاری ہے‘ اسی طرح پولیس بھی اس ریس میں کہیں پیچھے نہیں‘جتنے لمبے ہاتھ قانون کے ہوتے ہیں اُتنا ہی لمبا مال بے دھڑک اور بے دریغ بنایا جارہا ہے۔ پہلے سے مَرے ہوئے عوام کو مزید مارنے کے علاوہ گھسیٹا بھی جارہا ہے۔ معقول معاوضہ کے عوض بند شٹر کے ساتھ کھلے عام کاروبار کی اجازتِ عام ہے۔ لوٹ مار‘ دھتکار اور پھٹکار کے یہ سبھی مناظر دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے جاری و ساری ہیں۔ 
کورونا مریضوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک جاری ہے ‘وہ بھی ایک شرمناک داستان ہے۔ تمام سرکاری وسائل کے باوجود کورونا ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنائی جا چکی ہے‘ جو ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ براہِ راست کوآرڈینیشن میں ہوگی۔ خداجانے وہ کس حیثیت میں ان سرکاری افسران سے رابطہ کریں گے اور ریلیف کے لیے کارِ سرکار کا حصہ بنیں گے۔ کسی بدانتظامی یا بدعنوانی کی صورت میں کس قانون اور ضابطے کے تحت ان سے جواب طلبی کی جاسکتی ہے‘ جو شخص سرکار کا ملازمین ہی نہ ہو‘ اسے سزا اور جزا کی کیا پروا ہوگی؟ سرکاری ملازمین کو تو اپنی نوکری اور اس سے جڑے دیگر مفادات کا پاس رکھنا پڑتا ہے‘ اسے معطلی اور برطرفی سمیت دیگر محکمانہ سزاؤں کا بھی خوف ہوتا ہے۔ ہر قسم کے خوف سے بے نیاز یہ ٹائیگر کون سے نئے ریکارڈ بنائیں گے؟ 
سرکاری وسائل اور مشینری کی موجودگی میں اس ٹائیگر فورس کا قیام یقینا ماضی کے حکمرانوں کی نقالی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تجربہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایف۔ایس۔ایف بنا کر شدید تنقید اور مزاحمت کا سامنا کیا تھا ‘جبکہ نواز شریف نے اپنے ادوار میں خدمت کمیٹیاں اور اینٹی کرپشن کمیٹیاں بنا کر نہ تو کوئی خدمت کی اور نہ ہی کرپشن میں کوئی کمی کی۔ اسی طرح تحریک انصاف بھی اپنی سُبکی اور جوابدہی کے سارے سامان اپنے ہاتھوں سے کیے جا رہی ہے۔ ریفارمز کی دعویدار انصاف سرکار برسرِ اقتدار آنے کے بعد ریفارمز کی بجائے ڈیفامز کے کئی نئے ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ سماجی انصاف اور احتساب‘ جس تحریک انصاف کا انتخابی نعرہ اور سلوگن تھا۔ عوام اسی سلوگن کے گن گاتے اور سردُھنتے رہے۔ آج وہی احتساب‘ انصاف سرکار کے لیے آزمائش بن چکا ۔ 
ادھرنیب کا غیب بالآخر پوری طرح آشکار ہو چکا ‘جو احتساب‘ تحریک انصاف کا فخریہ بیانیہ تھا‘ وہ اب منہ چھپائے پھر رہا ہے۔ ڈیڑھ سال قبل نیب کی جن کارروائیوں پر تحریک انصاف کے قائدین دھمال ڈالتے نہ تھکتے تھے‘ آج اسی نیب سے خائف اور نالاں نظر آتے ہیں۔ اِدھر اپوزیشن کی کسی اہم شخصیت کی گرفتاری عمل میں آئی‘اُدھر تحریک انصاف نے پریس کانفرنس کر ڈالی‘ نا صرف پریس کانفرنس ‘بلکہ نیب کے اگلے اہداف کے بارے میں پیش گوئیوں سے بھی گریز نہ کیا جاتا‘ گویا سارا احتسابی عمل بس اپوزیشن تک ہی محدود رہے گا‘ تحریک انصاف میں تو سارے ہی دودھ کے دھلے بیٹھے ہیں۔ 
اپوزیشن جماعتوں پر نیب کی یلغار پر شادیانے بجانے والوں کے کان اس وقت کھڑے ہوئے‘ جب چیئرمین نیب نے واضح کیا کہ ہواؤں کا رُخ بدل رہا ہے۔ کوئی کسی خوش فہمی یا خوش گمانی میں نہ رہے۔ احتساب سب کے لیے یکساں ہوگا۔ چیئرمین نیب کے اس بیانیے کے بعد حکومتی کیمپوں میں کھلبلی سی مچ گئی تھی اور بیوروکریسی پہلے ہی تاک میں بیٹھی تھی کہ کوئی کمزور لمحہ آئے اور وہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ ایسے میں انصاف سرکار کی بے چینی اور پریشانی بیوروکریسی کے لیے کسی نعمت سے کم ثابت نہ ہوئی ‘وہ پہلے ہی یہ عذر تراش کر کام کرنے سے گریزاں تھی کہ وہ نیب کے خوف سے اکثر اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔ لوہا گرم دیکھ کر چیمپئنز نے نشانے پر چوٹ لگائی اور انصاف سرکار باآسانی آمادہ ہوگئی اور بذریعہ آرڈیننس نیب کا دائرہ کار اور دائرہ اختیار دونوں ہی محدود کر ڈالے۔ 
نیب آرڈیننس کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ احتساب کے عمل کو محدود ہی رکھنے کے لیے نیا مسودہ لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ انصاف سرکار اپنے بیانیے کی نفی کب اور کس طرح کرتی ہے؟ تاہم یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ نیب کو عذر بنا کر کام نہ کرنے والی سرکاری مشینری نے اس دورانیے میں کون سا تیر چلایا ہے؟ کون سے انقلابی اقدامات کی طرف پہلا قدم اٹھایا ہے؟ عوامی فلاح اور بہبود کے کون سے منصوبوں کی پہلی اینٹ رکھی ہے؟ الغرض اگر اس احتسابی ادارے کو کمزور اور محدود کیا گیا تو یہ اقدام ڈیفامز کا ایک نیا ریکارڈ ہو سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں