حالیہ ایک دو کالموں میں باور کروا چکا ہوں کہ حکومت کورونائی اقدامات پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کو ہر گز ایزی نہ لے۔ نجانے وہ کون سی کیفیات ہیں جن کے زیر اثر کیسے کیسے فیصلے اور کیسے کیسے اقدامات انتہائی ڈھٹائی اور تواترسے جاری ہیں۔ جلد یا بدیر ان سبھی اقدامات کا نتیجہ سبکی کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی تازہ ترین اور حالیہ سماعت کے دوران چند سوالات تو ایسے ہیں جن پر ماتم اور ملامت کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے بڑا سوال جو گزشتہ ایک ماہ سے حکومت کے لیے کڑی آزمائش بنتا چلا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اربوں روپے کہاں جا رہے ہیں؟ اس کا تسلی بخش جواب فراہم کرنے میں انصاف سرکار تاحال ناکام ہے۔ اربوں روپے کی امدادی رقوم جاری بھی ہو گئیں اور امداد کے لیے بھٹکنے والے بھی تاحال بھٹک رہے ہیں۔ گویا خزانہ بھی خالی اور ضرورت مندوں کی جیبیں بھی خالی۔ خزانے اور جیبوں کی یہ صفائی اس قدر صفائی سے جاری ہے کہ بس کچھ نہ پوچھئے۔سپریم کورٹ کے سوالات کی طرف چلتے ہیں ‘جو خاصے قدر فکر انگیز ہیں۔ ایک مریض پر 25لاکھ کا خرچہ‘ مگر نظر نہیں آرہا‘ شریان پھٹنے اور دل کے مریضوں کو بھی کورونا کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ کورونا اس لیے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسہ لے جائے‘ عوام حکومت کی غلام نہیں‘ قرنطینہ کے نام پر لوگوں کو غلام بنایا جا رہا ہے‘ عوام سڑکوں پر آئے تو کیا انہیں گولیاں ماریں گے؟ مشیرِ صحت کی اہلیت اور کارکردگی پر سپریم کورٹ پہلے ہی سوال اٹھا چکی ہے‘ جبکہ کورونا کی صورتحال یعنی اڑھائی ماہ کے دوران چار وفاقی سیکرٹری برائے صحت تبدیل ہو چکے ہیں‘ جنہیں سیکرٹری قومی صحت بھی کہا جاتا ہے۔ قومی ادارئہ صحت کا انتظامی سربراہ کوئی فٹ نہیں ہو رہا تو دیگر معاملات میں ''ٹامک ٹوئیاں‘‘ تو بنتی ہیں۔ وزیراعظم جن کے پاس وزارتِ صحت کا قلمدان بھی ہے چند روز قبل ہی انہوں نے مشیرِ صحت کے مالی اختیارات بھی سلب کر لیے ہیں۔ اس حوالے سے دیگر فیصلے کب تک ہوتے ہیں‘یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ قبل ازیں ظفر مرزا وزیرصحت یعنی وزیراعظم کی منظوری کے بغیر بھی مالی اختیارات کا استعمال کر رہے تھے‘ خدا خیر کرے‘ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا اور نکلتا ہے کیا کیا۔
ملک بھر میں لاک ڈاؤن سے متعلق پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی انتشار اور بدانتظامی کا دور دورہ ہے بلکہ اکثر مقامات پر تو دہرے تہرے سے کہیں بڑھ کر نجانے کتنے معیار رائج ہیں۔ کاروباری حلقوں کے لیے متضاد پالیسیاں اور اکثر معاملات میں ہٹ دھرمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سپریم کورٹ نے ملک بھر میں پورا ہفتہ کاروبار کرنے کی ناصرف اجازت دے دی ہے بلکہ اس حکومتی اقدام کو آئین کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے۔ اس تازہ ترین صورتحال پرقلم آرائی کے دوران شدت سے یہ احساس بے چین کیے ہوئے ہے کہ موضوعات کی تکرار کے علاوہ اپنے ہی کسی کالم کا چربہ لکھ رہا ہوں۔ بعض اوقات یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ کالم نہیں بلکہ الفاظ کی جگالی کر رہاہوں۔ وہی اعلانات‘ وہی اقدامات‘ وہی حالات‘ وہی مسائل‘ وہی مصائب‘ وہی کورونا اور وہی رونا دھونا‘ کچھ بھی تو نہیں بدل رہا۔ بدانتظامی سے بدحالی تک کچھ بھی کہیں ٹھہرنے کو تیار ہی نہیں۔ دن بدن حالات اَبتر اور پریشان کن ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایسے میں کہاں کی بہتری اور کیسی تبدیلی؟ جب تک حالات میں تبدیلی اور بہتری نہیں آئے گی موضوعات نہ صرف تکرار کا شکار رہیں گے بلکہ گھوم پھر کر انہی مسائل اور مصائب کا ماتم بھی ہوتا رہے گا۔
بعض اوقات اخبارات کامطالعہ کرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی پرانا اخبار سامنے آگیا ہے۔ اعداد و شمار اور مقامات میں تبدیلی کے سوا کچھ نہیں بدل رہا۔وہی پوائنٹ سکورنگ‘ وہی دعوے‘ وہی وعدے‘ وہی فوٹو سیشن اور وہی ویڈیو لنکس اور ان سبھی کا وہی حشر نشر جو چند دن پہلے ہم پڑھ چکے ہیں۔ کورونا کے اقدامات کے حوالے سے ایسی ایسی خبر صبح و شام دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے جو اعصاب سے لے کرنفسیات تک سبھی کو ریزہ ریزہ کر ڈالتی ہے۔ جس ملک میں حکمران جماعت پارٹی کارکنوں کو یہ ترغیب دے کہ اپنے اپنے حلقوں میں پھیل جائیں اور کورونا ریلیف کے سارے حکومتی اقدامات اپنے کھاتے میں ڈال لیں۔ لوگ مر رہے ہوں اور کاروباری زندگی جمود کا شکار ہو‘ جہاں اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ چکے ہوں‘تنگ دستی سے فاقہ کشی تک سبھی کا ننگا ناچ جاری ہو یعنی ہر طرف بے چینی‘ افراتفری اور مایوسی کا دور دورہ ہو‘ لاک ڈاؤن نے معمولاتِ زندگی سے لے کر روٹی روزی تک سبھی کچھ تو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہو‘ ایسے حالات میں سرکاری وسائل پر سیاست ناقابلِ فہم ہے۔
اس صورتحال نے نجانے کس کس کوبے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ جو قابلیت اورمہارت کے پہاڑ بنے پھرتے تھے وہ ریزہ ریزہ نظر آتے ہیں۔ باریاں لگی ہوئی ہیں‘ جھاکے اُتر چکے ہیں‘ہر طرف نمبرگیم اور مارو مار کا سماں ہے۔ کون کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟اور کس مار پر ہے؟ سب کو سبھی کا پتہ چل چکا ہے۔ ہر منظر کا پس منظر بے نقاب ہو چکا ہے۔ نہ چور بازاری ختم ہوئی اور نہ ذخیرہ اندوزی‘نہ کوئی کم تولنے سے باز آیا ہے اور نہ ہی کوئی ملاوٹ کو گناہ سمجھتا ہے۔ مال بنانے کی دوڑ میں ہر کوئی حرام و حلال سے بے نیاز سرپٹ دوڑے چلے جارہا ہے کہ لاک ڈاؤن کا خسارہ بس کسی طرح پورا ہو جائے۔ اخلاقی گراوٹ نے معاشیات سے لے کر سماجیات تک سبھی کو ''لیرولیر‘‘ کر ڈالا ہے۔ اقتصادیات کا رونا رونے والے اخلاقیات سے عاری پائے گئے ہیں۔
اس صورتحال میں آٹے سے مال بنانے والے بھی کسی طور پیچھے نہیں رہے۔ آٹے کا گھاٹا عوام کے کھاتے میں ڈال کر لاک ڈاؤن کا خسارا پورا کرنے والے ذخیرہ اندوز بھی بے نقاب ہو چکے ہیں ‘ اب یہ خبریں ہیں کہ حکومت پنجاب سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف متحرک ہے اور اس سلسلے میں جو کارروائیاں کی گئی ہیں ان میں51477میٹرک ٹن گندم برآمد کر چکے ہیں جو صوبے کی تاریخ کی ایک بڑی انسدادی کارروائی ہے۔ اس کے علاوہ گندم کی خریداری کے حوالے سے پہلی مرتبہ 45لاکھ میٹرک ٹن ہدف مقرر کیا گیا ہے‘ جبکہ گندم کی خریداری کا جو ہدف مقرر کیا گیا ہے اسے پورا کرنے کے لیے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک 72 فیصد کے قریب ہدف حاصل ہو چکا ہے۔رہی بات ذخیرہ اندوزوں اور گندم کی سمگلنگ کرنے والوں کی تو اِن پر کوئی حربہ کارگر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔بہرکیف حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ کسی بلیک میلنگ میں آئے بغیر گندم کی خریداری کے تمام اقدامات بروئے کار لا ئے جا رہے ہیں اور تمام امور کے لیے شفافیت کے ساتھ کام جاری ہے‘ تاکہ آٹے سے مال بنا کر عوام کے کھاتے میں خسارہ ڈالنے والوں کا محاسبہ کیاجا سکے۔ بے شک شہریوں کو ملاوٹ سے پاک معیاری خوراک فراہم کرنا حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے حکومتیں جو کچھ کر رہی ہیں وہ یقینا بہت اہم ہے مگر جدید خطوط پر مزید فیصلے کرنے کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ خوراک کا معاملہ ایسا ہے کہ تمام صوبوں کو اپنی ضرورت کے مطابق ذخائر کرنے چاہئیں ‘ تا کہ ہنگامی صورتحال سے بچا جا سکے اور لوگوں کو سارا سال مناسب داموں میں آٹا ملتا رہے اور اس حوالے سے کوئی تشویش پیدا نہ ہو۔
لوگ مر رہے ہوں اور کاروباری زندگی جمود کا شکار ہو‘ جہاں اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ چکے ہوں‘تنگ دستی سے فاقہ کشی تک سبھی کا ننگا ناچ جاری ہو ‘ بے چینی‘ افراتفری اور مایوسی کا دور دورہ ہو‘ لاک ڈاؤن نے معمولاتِ زندگی سے لے کر روٹی روزی تک سبھی کچھ تو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہو‘ ایسے حالات میں سرکاری وسائل پر سیاست ناقابلِ فہم ہے۔