خلقِ خدا کو بنیادی ضرورتوں سے محروم کر نے کے بعد حوضِ کوثر کے تمنائی کس قدر خود فریبی کا شکا رہیں۔ اپنے اُس ربّ کوکتنی دھوکہ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں جو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے اور دلوں کے بھید بھی اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا؟ ارادوں سے لے کر نیتوں تک‘ اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔ لیلۃ القدر مسلمانوں کے لیے یقینا انتہائی قدرومنزلت والی رات ہے۔ 73برس قبل اسی رات مملکتِ خداداد معرضِ وجود میں آئی تھی۔ اس تناظر میں ہمارے لیے یہ رات دہری اہمیت کی حامل ہے۔ ایک طرف اتنی برکت کہ ہزار مہینوں سے افضل رات‘ دوسری طرف اسی رات وہ خطہ عطا کیا گیا جس کے حصول کے لیے دی گئی قربانیوں کی داستان اس قدر دلخراش اور طویل ہے کہ ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہیں۔ خاک وخوں کی یہ کہانی اس قدر دردناک ہے کہ آج بھی ہزاروں خاندان وہ زخم نہیں بھلا پائے اور زخموں سے رسنے والا خون آج بھی انہیں تقسیم ہند کے وہ ہولناک مناظر ذہنوں سے محو نہیں ہونے دیتا۔ مملکتِ خداداد کے مسلمان بھی اس رات سربسجود اپنے گناہوں کی معافی اور مغفرت کے لیے گڑگڑاتے اور آہ وزاریاں کرتے رہے ہیں کہ اے خدایا! بس ایک بار معاف کر دے‘ ایک موقع اور عطا فرما دے‘ تیری نافرمانیوں اور گستاخیوں سے توبہ کر کے‘ تجھ سے رحم طلب کرتے ہیں۔ یہ سبھی اس یقین کے ساتھ اپنی عبادات کا اہتمام کرتے ہیں کہ ان کا رب ان پر ضرور مہربان ہوگا۔ اپنے رب سے رحمت اور بخشش کی اُمید اور طلب کے لیے اچھا گمان رکھنا اس کی شانِ کبریائی کا تقاضاہے۔ اس کے خزانے میں کیا کمی ہے وہ دینے پر آئے تو دنیا بھر کے خزانے‘ نعمتیں‘ رحمتیں اور برکتیں ایک پل میں دے ڈالے۔
مگرتعجب اس امر پر ہے کہ رات بھر عبادات میں مگن اور سجدہ ریز رہنے والے یہ عبادت گزار دن چڑھتے ہی اپنے معمولات اور کام دھندوں میں اس طرح اُلجھے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں یاد تک نہیں رہتا کہ وہ چند گھنٹے پہلے اپنے ربّ سے کیسے کیسے وعدے کرکے معافیاں طلب کرتے رہے ہیں۔ ربّ کے حضور سجدہ ریز ہوکر کس طرح گریہ زاری اور بخشش کی التجائیں کرتے رہے ہیں۔ لیلۃ القدر کی مقدس رات ملنے والی اس مملکتِ خداداد کا یہ حال کرنے والے سبھی ناشکرے اس کی تباہی میں برابر کے شریک اور ذمہ دار ہیں۔ عبادات میں مگن رہنے کے باوجود ان میں سے اکثر حقوق العباد سمیت کئی دیگر معاملات میں صفر پائے گئے ہیں۔ رات بھر توبہ استغفار کرنے والے صبح اٹھتے ہی اوزان اور پیمائش میں ڈنڈی مارنے سے لے کر حقوق العباد پر چھری چلانے سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ کس ڈھٹائی سے وہ سارے کام کرتے نظر آتے ہیں جن کی معافیاں وہ گزشتہ رات مانگتے نہ تھکتے تھے۔
اس بابرکت اور مقدس رات کو معرض وجو دمیں آنے والی مملکتِ خداداد پر کیسے کیسے مفادات کے مارے اپنے اپنے ایجنڈے کے ساتھ مسلط رہے ہیں۔ ملک تو حاصل کر لیا لیکن اس تحفۂ خداوندی کی تباہی اور بربادی میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ نہ تو نفاذِ شریعت کا اہتمام کر سکے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہوسکے۔ نہ تو آئین و قانون کی حکمرانی قائم کر سکے‘ نا ہی جمہوریت سے فیض یاب ہو سکے۔ نہ ہی سماجی انصاف فراہم کر سکے‘ نہ ہی اخلاقی قدریں بچا سکے۔ طرزِ حکمرانی سے طرزِ زندگانی تک سبھی کچھ تضادات‘ بے اعتدالیوں اور بداعمالیوں کا مجموعہ نظر آتا ہے۔ نہ کہیں گورننس کا کوئی نشان ہے اور نہ ہی کہیں میرٹ کا امکان نظر آتا ہے۔ یہ سبھی کچھ انتہائی دیدہ دلیری‘ ڈھٹائی سے کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔
کیا حکمران کیا عوام‘ ارادوں سے لے کر نیت تک‘ بلند بانگ دعووں سے لے کر عملی اقدامات تک‘ سبھی الفاظ کا گورکھ دھندا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کی کوئی پروانہیں تو عوام کو شکم سیری کے سوا کوئی کام نہیں۔ مفاد پرستی سے لے کر شخصیت پرستی تک کیسا کیسا وارداتیا اپنی دھن میں مگن دکھائی دیتا ہے۔ کبھی بنامِ وطن تو کبھی بنامِ دین‘ کہیں جھانسے تو کہیں دھونس‘ حکمرانوں نے ملک و قوم کو کب اور کہاں نہیں لوٹا۔ بوئے سلطانی کے ماروں کی طرزِ حکمرانی نے عوام کو اندھیروں اور مایوسیوں کے سوا دیا ہی کیا ہے۔ بد اعتمادی اور بے یقینی کے کیسے کیسے اندھے گڑھوں میں عوام کو جادھکیلا ہے کہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ابھی تک انہیں اندھیری کھائیوں میں آج بھی بھٹک رہے ہیں۔ نجات دہندہ بن کر آنے والوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے اذانیں دینا پڑیں‘ دعائیں مانگنا پڑیں‘ جنہیں بے پناہ چاہا‘ انہی سے پناہ مانگتے رہے۔
عوام کی اخلاقی حالت کا عالم یہ ہے کہ کہیں تو یہ حکمرانوں کے سہولت کار ہیں اور کہیں ان کے پیروکار۔ ریڑھی والے سے لے کر آڑھتی تک‘ دکاندار سے لے کر کارخانہ دار تک‘ سبھی مال بناؤ اور مال بچاؤ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ کوئی آٹے سے مال بنا کر گھاٹا عوام کے کھاتے میں ڈال رہا ہے تو کوئی چینی سے اپنی دنیا سنوار کر عوام کی زندگیوں میں مہنگائی کا زہر گھول رہا ہے۔ کوئی انرجی سے بنائے مال پر خود کو ''انرجیٹک‘‘ بنانے میں مگن ہے‘ کوئی اربوں کے ریفنڈ لے کر چند کروڑ وزیراعظم ریلیف فنڈ میں دے کر حاتم طائی بنا پھرتا ہے۔ کوئی زکوٰۃ و خیرات کے پیسے سے چیرٹی کر کے اترائے پھرتا ہے تو کوئی سرکاری وسائل پر کنبہ پروری کر کے نازاں ہے۔ اخلاقی گراوٹ اور ہوسِ زر کے کیسے کیسے مناظر صبح و شام‘ جابجا ہر سو نظر آتے ہیں۔
دو روز قبل لیلۃ القدر کی تلاش میں سجدہ ریز ہو کر گڑگڑاتے ہوئے معافیاں مانگنے اور آہ و زاریاں کرنے والوں کی عملی زندگیوں کا منظر نامہ شاعر نے کچھ یوں بیان کیا ہے: ؎
مرچ میں اٹھاؤں تو
اینٹ کا برادہ ہے
دودھ پانی پانی تو
شہد لیس چینی کی
وردیوں میں ڈاکو ہیں
عصمتوں پہ بولی ہے
بھوک مرنے والوں کی
دیر تک رُلاتا ہے
رش تماش بینوں کا
بے زبان لاشوں کا
جس جگہ میں رہتا ہوں
بے حسوں کی جنت ہے
سود کے نوالوں سے
جب ڈکار آتے ہیں
شکر کی صداؤں سے
رب کو یاد کرتے ہیں
رب بھی مسکراتا ہے
جب یہ طاق راتوں میں
کچھ تلاش کرتے ہیں
سانحہ ہو یا حادثہ‘ وبا ہو یا بلا‘ جس ملک میں حکمران اور عوام مال بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار اور یکساں چوکس رہتے ہوں‘ حکمران اپنے طرزِ حکمرانی کو خلفائے راشدین سے تعبیر کرتے نہ تھکتے ہوں اور ریاستِ مدینہ کے استعارے بے دریغ استعمال کرتے ہوں‘ ایسے میں عوام ذخیرہ اندوزی سے لے کر چور بازاری تک‘ اوزان و پیمائش میں ڈنڈی مارنے سے لے کر ملاوٹ تک‘ مکروفریب سے لے کر حق مارنے تک‘ لوٹ کھسوٹ سے لے کرمار دھاڑ تک‘ اس کارِ بد میں سبھی شریک اور ذمہ دار ہوں تو کیسی معافیاں‘ کیسے سجدے‘ اور کیسی آہ و زاریاں۔ بے شک وہ ذات باری تعالیٰ الغفور اور الصبور ہے‘ المقدم بھی ہے اور المؤخر بھی ہے۔ تعجب ہے رب کی یہ سبھی صفات جاننے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہی ذاتِ باری ''العدل‘‘ بھی ہے اور سب سے بڑا عدل کرنے والا ہے اور اس کے عدل کا کون متحمل ہو سکتا ہے؟