کورونائی حالات اور حکومتی اقدامات کیا کم پریشان کن تھے کہ عید سے ایک روز قبل حادثے کا شکار ہونے والے طیارے نے ملک بھر کو مزید افسردہ اور سوگوار کر دیا۔ بدقسمت طیارے میں سوار متعدد مسافروں کی لاشیں شناخت کی منتظر ہیں جبکہ حادثے کے ذمہ دار اس بار بھی گرفت سے دور ہی نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں غفلتوں اور مصلحتوں کے نتیجے میں رونما ہونے والے سانحات کو فقط حادثہ قرار دینے کی روایت پرانی ہے؛ البتہ ''فیس سیونگ‘‘ کیلئے چند بکرے بَلی چڑھانے کو مل ہی جاتے ہیں۔ انکوائریاں، کمیشن، تحقیقات اور ذمہ داران کو کیفرِکردار تک پہنچانے کے سبھی دعوے اس بار بھی زوروشور سے جاری ہیں، نہ پہلے کسی کو لٹکایا گیا‘ اور نہ اب کوئی کیفرِکردار تک پہنچتا نظر آتا ہے۔
ہرحادثے پر اس قسم کی نمائشی کارروائیوں کا ڈھول تو ضرور بجایا جاتا ہے لیکن اگلے سانحے کی پرورش بھی باقاعدہ جاری رہتی ہے۔ جہاں جزا اور سزا کا نظام نہ ہو، وہاں کیسی انکوائریاں، کیسے کمیشن اور کہاں کی تحقیقات؟ حادثے سے کچھ سیکھنے کے بجائے اگلے حادثے تک چین کی بانسری بھی خوب بجائی جاتی ہے۔ اس فضائی حادثے کی ذمہ داری کوئی پرندے پر ڈال رہا ہے تو کوئی انجن کی خرابی قرار دے رہا ہے۔ ذمہ دار کوئی پرندہ ہو یا غفلت میں ڈوبا ہوا کارندہ... خرابی انجن کی ہو یا طیارے میں سوار مسافروں کے نصیبوں کی... زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ چند سرکاری بابوؤں اور ٹیکنیشنز کو بَلی کا بکرا بنا کر ان کو بچا لیا جائے گا جن کی گورننس اور پالیسیاں ادارے کی بربادی کا سامان بن چکی ہیں۔ تقرریوں سے لے کر ترقیوں تک سبھی بدنیتیوں، بداعمالیوں، مصلحتوں اور مجبوریوں میں غرق نظر آتی ہیں۔
کبھی ٹریڈ یونینز کے معاملات تو کبھی بندہ نوازیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ‘ بے حسی کا عالم یہ کہ ابھی تک نہ تو کسی کو شرمندگی کا کوئی احساس ہے اور نہ ہی کسی نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذمہ داری قبول کی ہے۔ اربابِ اختیار کے رویے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ طیارہ بالکل فٹ تھا اور اس میں کوئی تکنیکی خرابی نہیں تھی۔ پائلٹ گلی میں لینڈنگ کرنے کی کوشش اس لیے کر رہا تھا کہ وہ کوئی عالمی ریکارڈ قائم کرکے مسافروں سے داد وصول کر سکے۔
ابھی چھ ماہ ہی گزرے ہیں‘ کیا کسی کو تیزگام ایکسپریس کی بوگی نمبر12 یاد ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا ملک آج بھی بوگی نمبر12 ہی بنا ہوا ہے۔ فرّاٹے بھرتی تیزگام ایکسپریس کراچی سے راولپنڈی کی طرف رواں دواں تھی کہ رحیم یار خان کے قریب بوگی نمبر12 سے بھڑکنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے ساتھ جوڑی گئی دیگر بوگیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گیا۔ آسمان کو لپکتے آگ کے شعلوں اور کالے دھوئیں میں لاچار مسافروں کی چیخیں اور آہ و بکا سے پیدا ہونے والی صورتحال کا قیامت خیز منظر ناقابلِ بیان ہے۔
ٹرین کے اندر اذیت ناک اور یقینی موت دیکھتے ہوئے کتنے ہی مسافروں نے چلتی ٹرین سے چھلانگیں لگا دیں۔ ان میں سے اکثر کو دماغ کی ہڈی کا فریکچر ہو گیا، کسی کا بازو ٹوٹا تو کسی کی ٹانگ۔ شدید زخمی حالت میں سبھی ہسپتال میں زیر علاج رہے جبکہ 74 بدنصیب مسافر جل کر اس طرح خاکستر ہوئے کہ خواتین اور بچوں سمیت 58 مسافروں کی شناخت بھی نہ ہو سکی۔ ان کے علاوہ درجنوں مسافر بری طرح جھلس گئے تھے۔ تحریک انصاف کے اتحادی اور سیاسی پنڈت شیخ رشید صاحب نے پہلے ہاتھ ہی آتشزدگی کی ہولناک واردات تبلیغی جماعت کے اجتماع پر جانے والوں پر ڈال کر خود اور ریلوے انتظامیہ کو بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔ عینی شاہدین اور ریلوے عملہ کے بیانات اس وقت بھی وزیرریلوے کے الزامات اور دعووں کو ردّ کرتے نظر آتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آتشزدگی پنکھے میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوئی۔ شارٹ سرکٹ کی شکایت کئی روز قبل ہو چکی تھی لیکن نہ تو کسی نے اس پر توجہ دی اور نہ ہی کسی نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا۔ انجام یہ ہوا کہ شارٹ سرکٹ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی چنگاریاں آن کی آن میں شعلوں میں بدل گئیں اور ان شعلوں نے جیتے جاگتے 74 مسافروں کو بھسم کرکے رکھ دیا۔ بعد ازاں انکوائری نے ریلوے کے اربابِ بست و کشاد کے دعووں کی نا صرف قلعی کھول دی بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ بوگی نمبر12 میں آتشزدگی کی وجہ ناقص وائرنگ اور مجرمانہ غفلت تھی۔
دھرنے کے دوران 27 اگست 2014ء کی رات 11 بجکر 42 منٹ پر تحریک انصاف کا آفیشل ٹویٹ من و عن پیشِ خدمت ہے جو عمران خان صاحب کی طرف سے جاری کیا گیا تھا:
"All over the world, just on an incident on railway accidents, minister resigns. This is real democracy, says Imran Khan".
انصاف سرکار کے عرصہ اقتدار کے دوران ہلاکت خیز اور ریکارڈ ریلوے سانحات سمیت تازہ ترین طیارہ سانحہ پر حکومتی ردِّعمل تاحال اس ٹویٹ کا منہ چڑا رہے ہیں۔ نہ کسی نے اپنے بیانیے کا پاس رکھا اور نہ ہی کسی نے اپنے دعووں اور وعدوں کا۔ تضاد بیانیوں کے سارے ریکارڈ شب و روز ٹوٹتے چلے جارہے ہیں۔ جو مطالبات سابق حکمرانوں سے یہ کرتے نہ تھکتے تھے آج ان مطالبات کی زد میں خود آچکے ہیں۔
اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں مسافر چلتی ٹرین میں جل کر مریں یا جہاز گرنے کے نتیجے میں جل مریں ذمہ دار بہرحال حکمران اور اربابِ اختیار ہی ہیں۔ احساس ذمہ داری محسوس کرنا تو درکنار یہاں تو احساس شرمندگی بھی دور دور تک دِکھائی نہیں دیتا۔ وہی دعوے‘ وہی اعلانات‘ وہی انکوائریاں‘ وہی تحقیقات‘ وہی کمیشن‘ وہی آنیاں جانیاں‘ نتیجہ اس بار بھی وہی ہوگا جو ہمیشہ سے نکلتا آیا ہے یعنی اعلیٰ حکام اور پالیسی سازوں کے ردِّ بلا کے لیے بَلی کے چند بکرے اور بس۔
سانحات اور حادثات میں فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سانحہ کے ذمہ داروں کو محفوظ راستہ دینے کے لیے حادثے کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ یہ قوم اس سے پہلے بھی نجانے کتنے ہی حادثات اور سانحات جھیل چکی ہے اور مزید ابھی نجانے کیا کچھ جھیلنا باقی ہیں۔ خستہ حال، کھجل خراب اور تھکے ہوئے یہ جہاز کب تک جیتے جاگتے مسافروں کو نگلتے رہیں گے اور کب تک ان ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے بھٹکتی رہیں گی۔ طیارہ حادثہ کی تحقیقات کی پیش رَفت پر مبنی خبریں چند دن مزید سننے اور دیکھنے کو ضرور ملیں گی اور پھر وقت کی گرد ان تحقیقاتی فائلوں کو بھی ایسے ہی قبر میں تبدیل کر دے گی جیسے طیارہ میں سوار بدنصیب مسافروں کی قبریں۔
ابھی ان حادثات و سانحات کا گریہ جاری تھا کہ ٹیلی ویژن سکرین پر چلنے والی ایک خبر نے اپنی طرف کچھ اس طرح متوجہ کیا کہ کالم کا دھارا ہی بدل کر رہ گیا۔ خبر کچھ یوں ہے کہ عید پر مرغی کا گوشت مہنگے داموں فروخت کرنے والے چھوٹے دکانداروں کو دھڑادھڑ گرفتار کیا جا رہا ہے جبکہ اکثر دکانداروں کو محض اس لیے پابندِ سلاسل کیا گیا کہ انہوں نے سرکاری نرخ نامہ آویزاں نہیں کیا تھا۔ انصاف سرکار کے ایک وزیر باتدبیر اس آپریشن کی سربراہی کر رہے تھے جبکہ عید پر گرفتار ہونے والے دکاندارکا رونا تھا کہ پیچھے سے ہی مال مہنگا آیا ہے تو ہم سرکاری نرخنامے کے مطابق کیسے فروخت کر سکتے ہیں؟ سرکار کا بس تو صرف ہم غریب دیہاڑی دار اور بے وسیلہ دکانداروں ہی پر چلتا ہے!
لاک ڈاؤن کے دوران پولٹری فارمرز پر خساروں کے جو پہاڑ ٹوٹے‘ اس پر حکومت نے نہ کبھی کوئی توجہ دی اور نہ ہی ان کے نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے کوئی پیکیج دیا۔ یہ لوگ مارکیٹ میں ڈیمانڈ ختم ہونے کی وجہ سے ٹرالیاں بھر بھر کر چوزوں سے جان چھڑا کر بھی خساروں سے نہ بچ سکے۔ زمینی حقائق سے نظریں چرا کر اِن کیمرہ محض نمائشی کارروائیوں سے وقتی ستائش حاصل کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ چھوٹے دکانداروں کو ہتھکڑیاں لگوا کر غریب ماری کرنے کے بجائے حکومتی رِٹ منوانے کے لیے ''رَٹے رَٹائے‘‘ بیانات سے باہر نکل کر ان عوامل پر بھی غور کریں جو ڈیمانڈ اور سپلائی کے توازن کو بگاڑنے کا باعث بن رہے ہیں‘ ورنہ بحران اور گرانی عوام اور حکومت دونوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو سکتا ہے۔