آج کالم میں کہیں اُلجھاؤ‘ منتشر خیالی اور بوجھل پن محسوس ہو تو اس کی وجہ صرف اور صرف وہ خیالاتِ پریشاں ہیں جو تھوڑا بہت شعور اور دردِ دل رکھنے والے کو بے چین کر دینے کیلئے کافی ہیں۔ لکھنے پڑھنے والوں پر تو یہ حالات کسی ڈرون حملے سے کم نہیں ہوتے۔ کیسا کیسا منظر‘ کیسی کیسی خبر‘ نفسیات سے لے کر اعصاب تک کیا حشر نشر ہوتا ہے الامان و الحفیظ۔ کورونا کی ہولناک صورتحال اور حکومت کے اعلانات کے ساتھ ناقص اقدامات کیا کم تھے کہ کہیں ٹڈی دَل کی تباہ کن یلغار جاری ہے تو کہیں بد عنوانیوں اور بد انتظامیوں کی دلدل ہے۔ کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے گڑھے ہیں تو کہیں مایوسیوں کے سائے اتنے لمبے ہوتے چلے جارہے ہیں کہ عوام خود کو اس سائے کے آگے بونا محسوس کرتے ہیں۔
فضائی حادثے میں جانیں گنوانے والے بیشتر مسافروں کے لواحقین ان کی نعشیں حاصل کرنے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جاں بحق ہونے والے اپنے پیاروں کو روئیں یا اُن حکومتی اقدامات کا رونا روئیں جن کی وجہ سے ہم اُن کی آخری رسومات ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ جسے دیکھو پریشان ہے۔ کہیں عوام لاک ڈاؤن کے اثرات سے ہلکان ہیں‘ تو کہیں گورننس سر جھکائے بیٹھی ہے۔ کہیں میرٹ شرمسار ہے‘ کہیں سماجی و اخلاقی قدریں نظریں چُرائے پھرتی ہیں۔ اقتصادی چیمپئنز سے لے کر اربابِ اختیار تک‘ اہم ترین اور حساس معاملات سے لے کر اُمورِ مملکت تک‘ طرزِ حکمرانی سے لے کرمن مانیوں تک‘ سبھی معین قریشیوں اور شوکت عزیزوں کی ایکسٹینشن لگتے ہیں۔ کوئی چھوٹا موٹا معین قریشی ہے تو کوئی ننھا منا شوکت عزیز نظر آتا ہے۔ ایک بریف کیس لے کر مملکتِ خداداد میں لینڈ کرنے والوں کو ریڈ کارپٹ‘ استقبالیہ اور پرکشش مراعات کے ساتھ سبھی کچھ یوں سونپ دیا جاتا ہے گویا کوئی دیوتا یا نجات دہندہ ہو۔ یہ تو اُن کے جانے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ نجات دہندہ ہمیں کتنا نادہندہ کر گیا۔
وفاقی کابینہ میں دو درجن سے زائد غیر منتخب ارکان براجمان ہیں۔ انتہائی اہم قومی معاملات سے لے کر پالیسی سازی اور حساس فیصلوں تک سبھی کچھ تو ان کے ہاتھ میں ہے۔ کسی کو خاک بنا دیں کسی کو زردار کر دیں‘ یہ سارے کمالات وہ صبح و شام تواتر سے کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سبھی ٹیکنوکریٹ شہرت سے لے کر ساکھ تک ہر چیز سے بے پروا نظر آتے ہیں۔ ان کا فوکس صرف اسائنمنٹ پر ہوتا ہے۔ جب تک اسائنمنٹ جاری ہے وہ ہر قسم کی تنقید اور عوامی ردِعمل سے بے نیاز اپنے ہی ایجنڈے پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں معقولیت سے سروکار ہے نہ مقبولیت کی پروا‘ انہیں تو بس اپنے ٹارگٹ کا پتہ ہے کہ کون سا نشانہ کب اور کہاں لگانا ہے اور سارے نشانے ٹھیک اور تاک کر ہی لگائے جاتے ہیں۔ اسائنمنٹ ختم ہوتے ہی وہ اپنا وہی بریف کیس اُٹھاتے ہیں اور واپس اپنے اسی مقام پر جا پہنچتے ہیں جہاں سے انہیں بھیجا گیا تھا۔
یہ طرزِ حکومت منتخب ارکانِ اسمبلی پر نہ صرف عدم اعتماد کا اشارہ کرتا ہے بلکہ حقِ رائے دہی کی بھی نفی کرتا نظر آتا ہے۔ جن عوامی نمائندوں کو ووٹ دے کر عوام نے امورِ مملکت چلانے کے لیے اسمبلیوں میں بھیجا ہے وہ بے بس سبھی ''نکرے‘‘ لگے دکھائی دیتے ہیں۔ سرکاری وسائل پر کنبہ پروری پر تنقید کرنے والی تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں وزارتوں سے لے کر اہم ترین اداروں تک رفقا اور مصاحبین بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ وہ ادارے نہ صرف اپنی ساکھ کھوتے چلے جارہے ہیں بلکہ گورننس اور میرٹ بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ کورونا جیسی گلوبل ایمرجنسی میں بھی جو حکومت قوم کو ایک وزیر صحت نہ دے سکی ہو‘ اس سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ مملکتِ خداداد کے امورِ صحت چلانے والے مشیر ظفر مرزا کی اہلیت اور قابلیت پر سپریم کورٹ پہلے ہی سوال اٹھا چکی‘ جس کا جواب فراہم کرنے میں انصاف سرکار تاحال ناکام ہے۔ ابھی نجانے کتنوں کی اہلیت اور کارکردگی تاحال معمہ ہے جبکہ کابینہ میں شامل دیگر سبھی غیر منتخب ارکان نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے ساتھ نہ صرف نازاں اور اترائے پھرتے ہیں بلکہ انصاف سرکار کے لیے کڑے سوالات بنتے چلے جارہے ہیں۔
صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتِ عظمیٰ میں ایک اور جواب جمع کروا دیا ہے۔ بائیس صفحات پر مشتمل جواب میں پندرہ سوال اٹھا کر انہوں نے وزیر اعظیم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کی اہلیت اور کارکردگی سمیت ان کی شہریت کو بھی چیلنج کیا ہے۔ انصاف سرکار میں اہلیت اور کارکردگی ایک ایسا سوال ہے جو کسی پر بھی باآسانی اُٹھایا جاسکتا ہے۔ کسی کی اہلیت نامعلوم ہے تو کسی کی کارکردگی متنازعہ ہے۔ کسی کی شہریت پر سوال ہیں تو کسی کی زوجیت معمہ ہے۔ زوجیت کے حوالے سے وضاحت کرتا چلوں کہ مملکتِ خداداد کے 120اعلیٰ سرکاری افسران نے امریکہ‘ روس‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ ‘ چین‘ بھارت‘ برطانیہ‘ نائیجیریا‘ اٹلی‘ کینیڈا‘ فن لینڈ‘ ڈنمارک‘ ترکی‘ جاپان‘ جرمنی‘ ایران‘ لبنان اور قازقستان سمیت دیگر ممالک کی شہریت کی حامل خواتین سے شادیاں کر رکھی ہیں۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق اگر کسی سرکاری ملازم نے غیر ملکی خاتون یا مرد سے شادی کرنی ہو تو پہلے متعلقہ صوبے یا وفاق‘ جہاں کا وہ ملازم ہو‘سے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے ورنہ اس کا یہ عمل مس کنڈکٹ کے زمرے میں آئے گا اور اس کے خلاف مجاز اتھارٹی انضباطی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود آج تک کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آسکی ‘ گویا نہ کہیں کوئی مس کنڈکٹ ہوا ہے اور نہ ہی ملک میں کسی مجاز اتھارٹی کا وجود ہے۔ اعلیٰ سرکاری افسران کی غیر ملکی خواتین سے شادیوں کو اگر قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فیصلہ انتہائی اہمیت اور حساس نوعیت کا حامل ہے۔ یہ ماڈرن زمانہ ہے‘ حربے طریقے اور ہتھکنڈے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
شوگر کمیشن رپورٹ پبلک کرنے پر انصاف سرکار کھڑکی توڑ ہفتہ منا رہی ہے۔ معاونِ خصوصی شہزاد اکبر تواتر کے ساتھ چند مخصوص نکات پر ہی پریس کانفرنسز کرتے نظر آتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انصاف سرکار نے وہ کر دکھایا ہے جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ دھرنے کے دنوں میں تحریک انصاف حکمرانوں کے جن اقدامات پر شدید تنقید کرتے نہ تھکتی تھی‘ جن پالیسیوں کو ملک و قوم کے مفاد ات سے متصادم قرار دیتی تھی‘ وہ سبھی ریکارڈ تو سرکار نہ صرف توڑ چکی ہے بلکہ اکثر مقامات پر تو نئے ریکارڈ بھی قائم کیے جاچکے ہیں جنہیں توڑنے کے لیے بُری سے بُری گورننس کو بھی نجانے کتنے جتن کرنا پڑیں گے تب کہیں جاکر شاید ایک آدھ ریکارڈ توڑ پائے۔ رہی بات شوگر کمیشن رپورٹ کی تو اسے کئی بار اُلٹ پلٹ کر پڑھ ڈالا ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ چند سرکاری بابوؤں نے مل کر وزیراعظم کو چکمہ دینے کی کوشش کی ہے جو بظاہر ناکام نظر آتی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو برملا کہتے ہیں کہ کمیشن کی یہ رپورٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور فرانزک آڈٹ کے ماہرین کے بغیر سٹاف کالج کا کوئی پیپر یا ریسرچ لگتی ہے‘ جسے چند سرکاری بابوؤں نے ذاتی خواہشات اور مخصوص ایجنڈے کے زیر اثر اپنی نگرانی میں تیار کروایا ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کا اصل مقصد صرف ایک شخصیت کو انصاف سرکار کے جہاز سے آف لوڈ کرنا تھا‘ جس کی موجودگی میں اچھے خاصے قد و قامت والے بھی خود کو بونا محسوس کرتے تھے۔ یہ وزیراعظم کو اس بات پر بھی قائل کر چکے ہیں کہ اگر وہ اس شخصیت کی بَلی دینے میں کامیاب ہو گئے تو انصاف سرکار کو نہ صرف سیاسی فائدہ ہوگا بلکہ وزیراعظم کے میرٹ کی دھاک بھی بیٹھ جائے گی؛ تاہم کئی چیمپئنز عمران خان کے لیے ہر دور میں ناگزیر اور بہترین ثابت ہونے والے جہانگیر ترین کو صرف ''ترین‘‘ کرنے میں تو کامیاب دکھائی دیتے ہیں‘لیکن ان کی یہ کامیابی وقتی اور عارضی دکھائی دیتی ہے۔