"AAC" (space) message & send to 7575

منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

اسلام آباد ہائیکورٹ کے تازہ ترین ریمارکس نے تو سمندر ہی کوزے میں بند کر ڈالا۔ عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ وزیر اعظم کا معاون وہی ہو سکتا ہے جو متعلقہ شعبے میں مہارت رکھتا ہو۔ انصاف سرکار روزِ اوّل سے دو ٹیموں کے ساتھ معاملات چلا رہی ہے۔ ایک ٹیم ان منتخب نمائندوں کی ہے جو عوام کا ووٹ لے کر ایوانِ اقتدار میں آئے جبکہ دوسری ٹیم ذاتی رفقاء اور مصاحبین پر مشتمل ہے جن میں اکثریت کی اہلیت اور قابلیت نامعلوم اور کارکردگی بھی نامعلوم ہی ہے۔ ہر کسی کو ایک سے بڑھ کر ایک پایا گیا ہے۔ کئی ایک کی شعلہ بیانیوں کے شعلوں نے وہ کام کر دِکھایا کہ یوں محسوس ہوتا ہے گویا ''اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔ بیشتر شریکِ اقتدار ایسے ہیں جن کا تحریک انصاف کی سیاستی جدوجہد میں کبھی کوئی کردار نہیں رہا‘ لیکن وہ اہم فیصلوں اور پالیسیوں پر بدستور اثر انداز نظر آتے ہیں گویا ''منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘۔ 
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا ''میں جب بھی پچھتایا اپنے بولنے پر پچھتایا‘‘ دوسرے لفظوں میں الفاظ کے اسراف سے خاموشی کہیں بہتر ہے‘ یعنی جب ویژن کا فقدان اور خیالات کی آمدنی نہ ہو تو الفاظ کی فضول خرچی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ شریک اقتدار مصاحبین کے مشوروں، فیصلوں اور بیانات کے نتیجے میں سرکار کو اکثر سُبکی اور ندامت کا ہی سامنا رہتا ہے۔ وفاقی کابینہ میں دو درجن سے زائد غیر منتخب معاونین ووٹ لے کر آنے والوں پر روزِ اوّل سے بھاری ہیں۔ مردم شناسی ایک ایسا ہنر اور صلاحیت ہے جو انسان کی سو خامیوں پر پردہ ڈال سکتی ہے۔ کسی حکمران میں اگر سو خوبیاں ہوں لیکن مردم شناسی نہ ہو تو ساری خوبیاں کس کام کی؟ کسی لیڈر یا حکمران کا اصل کام اہداف کے حصول کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب ہے‘ یعنی ''رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کے تصور کو قائم رکھنا ہی کسی لیڈر کی کامیاب حکمتِ عملی ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی شخص چاہے وہ حکمران ہو یا لیڈر‘ سارے کام خود نہیں کر سکتا۔ ہر کام میں اس کی مہارت ممکن نہیں۔ اس کی اصل کامیابی اُس ٹیم کی تشکیل ہے جو اپنے لیڈر کے ویژن اور ایجنڈے کی عملی تصویر بن کر سامنے آ سکے۔ 
ریاست مدینہ کا ماڈل سر پر اُٹھائے برسرِ اقتدار آنے والی انصاف سرکار کو معاونین اور مؤمنین کا فرق معلوم ہونا چاہیے۔ جس ریاست میں حضرت عمر فاروقؓ جیسے خلیفہ کو اپنے کُرتے کے کپڑے کا حساب دینا پڑے اور جو خلیفۂ وقت دریائے فرات کے کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کی موت کا ذمہ دار بھی خود کو ٹھہراتا ہو، اس ریاست کے خلفاء اور ان کے مصاحبین کا انصاف سرکار سے موازنے کو کم از کم جہالت ہی کہا جا سکتا ہے۔ ادویات سے لے کر درسی کتب تک، آٹے سے لے کر دیگر اشیائے ضروریہ تک سب چیزوں کی قیمتوں کو آگ لگی ہو اور عوام کو چار سو دھواں اور راکھ کے سوا کچھ نظر نہ آتا ہو اور عام آدمی کی زندگی دن بدن اَجیرن ہوتی چلی جا رہی ہو، تنگدستی اور بدحالی کے ہاتھوں عوام زندہ درگور نظر آتے ہوں تو اس عہد کے سلطان کو کچھ نہ ہی کہنے میں عافیت ہے۔ ایسے نظام کو کس بنا پر ریاست مدینہ کے معاشی و معاشرتی نظام اور گورننس کے ماڈل پر پرکھا جا سکتا ہے؟ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رَبّ کائنات نے بھی جزا اور سزا کے تصور کو اجاگر کرنے کے لیے جنت اور دوزخ بنا رکھی ہے۔ ماں باپ بھی اپنے لخت جگر کی ناقابلِ برداشت حرکتوں اور نافرمانی پر سزا دینے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ کیسی حکومت ہے جو روزِ اوّل سے ہی دوہرے معیار پر بضد نظر آتی ہے۔ 
دیکھنا یہ ہے کہ ہر قیمت پر دوستیاں اور ذاتی مراسم نبھانے والے اپنے لیے مزید کتنی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ دوستیاں اور یاریاں یقینا نبھانے کیلئے ہی ہوتی ہیں اور نبھانی بھی چاہئیں لیکن ''دادا جی کی فاتحہ حلوائی کی دُکان‘‘ والا معاملہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ مصاحبین اور ذاتی رفقاء گورننس اور میرٹ کے حوالے سے کئی کڑے سوالات پیدا کرنے کا موجب بن چکے ہیں۔ اکثر اعلیٰ سرکاری عہدے اور وسائل انہی کے رحم و کرم پر ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے تحریکِ انصاف زرداری اینڈ کمپنی اور شریف برادران کی کرپشن، اقرباء پروری اور سرکاری عہدوں کی بندر بانٹ پر جو واویلا کیا کرتی تھی‘ آج وہی ساری روایات اضافے کے ساتھ جاری ہیں۔ 
ضیاء الحق کے مارشل لاء کے سائے میں ''بیک ٹو ڈیموکریسی‘‘ کے تحت 1985ء کے غیر جماعتی عام انتخابات میں مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے جو پنیری لگائی گئی وہ آج خاردار اور زہریلی بیل کی شکل میں ہر سو پھیل چکی ہے۔ اس کی مضبوط جڑیں آج بھی سسٹم کو جکڑے ہوئے ہیں۔ اس دوران جمہوری عمل کے تسلسل کیلئے نو مرتبہ عام انتخابات کرائے گئے اور برسرِ اقتدار آنے والے سبھی حکمران تمام خرابیوں کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہراتے ہوئے ماضی میں ہونے والی لوٹ مار اور بدترین طرزِ حکمرانی کے سارے ہی ریکارڈ بے دردی سے توڑتے رہے۔ جمہوریت کی فصل کو کھاتے کھاتے عوام کا منہ پک چکے اور آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ 
جمہوریت کے ان چیمپئنز نے ملک و قوم کا جو حشرنشر کیا‘ اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ پیشِ خدمت ہے۔ سرکاری خرچ پر اسمبلی اجلاس کے لئے گھر سے نکلنے والے رکن اسمبلی کی گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی اس کا اپنا میٹر ڈاؤن ہو جاتا ہے۔ پھر اجلاس میں شرکت سے لے کر کھانے اور نہانے تک جتنے دن بھی وہ قیام کرے اخراجات کا سارا بوجھ ملک و قوم پر ہی ہوتا ہے۔ اس کے بدلے عوام کو کیا ملا؟ اس سوال کا جواب پارلیمنٹ کے کسی بھی اجلاس کا منظرنامہ دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ماسوائے قانون سازی اور مفاد عامہ کے وہ سب کچھ وہاں ہوتا ہے جسے دیکھ کر ہر پاکستانی جلتا ہے‘ کڑھتا ہے اور شرمسار بھی ہوتا ہے کہ کیا اسی لیے اس نے ووٹ دیا تھا کہ اس کے نمائندے ذاتی مفادات، استحقاق کے تحفظ کیلئے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالیں اور دست و گریباں ہونے سے بھی گریز نہ کریں۔ لیکن مشترکہ مفادات کو جہاں خطرہ لاحق ہوا وہاں یہ سب اکٹھے اور یکجا نظر آتے ہیں۔ کیا حلیف‘ کیا حریف‘ سبھی مفادات کے جھنڈے تلے کھڑے نظر آتے ہیں۔
کیا یہ طرز حکومت اور سیاست دان ڈلیور کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں یا انہیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا؟ یہ بحث دن بدن زور پکڑتی جارہی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان سوالات کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ طرز حکومت تبدیل کرنے کی باتیں کیا کسی نئے نظام کی طرف اشارہ ہے؟ مذکورہ صورتحال میں پارلیمنٹ اور اس کی کارکردگی پر بھی کئی کڑے سوال کھڑے ہو چکے ہیں۔ کہیں صدارتی نظام کی باتیں ہو رہی ہیں تو کہیں آئین کو ''ریسٹ‘‘ دینے کی باتیں۔ سیاستدانوں کو ناکام اور نااہل قرار دے کر کہیں کوئی چارج شیٹ تو نہیں آرہی؟ سیاسی جوتشیوں کا سیاسی مستقبل کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ سال کسی ایک پارٹی کے حوالے سے نہیں بلکہ وطن عزیز کے سارے سیاستدانوں کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے‘ ان کے مستقبل کا اہم ترین فیصلہ اسی سال آنے کو ہے‘ عوام سے طرز تغافل برتنے والے سیاستدانوں سے چھٹکارا طرز حکومت کی تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ چارج شیٹ آنے کو ہے یا بد عہدی کا طویل عہد اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے؟
برادرِ محترم حسن نثار نے برملا ہی کہہ ڈالا ہے کہ اس ملک کو مسائل اور عوام کو مصائب سے کوئی حکومت پانچ سالہ دورانیے میں چھٹکارا نہیں دلوا سکتی‘ اس کیلئے مقتدر حلقوں کو کم از کم 10 سے 15 سال پر محیط ریلیف پلان لانا ہو گا۔ بلا لحاظ و تمیز اور مصلحت سے پاک ملک و قوم کے مفادات کے عین مطابق عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور رکاوٹ پیدا کرنے والے عناصر کو ملک و قوم کا دشمن ڈکلیئر کر کے ریاستی رِٹ کو حرکت میں لانا ہو گا۔ تب کہیں جا کر اس ملک و قوم کے دِن پھر سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں