"AAC" (space) message & send to 7575

Nears & Dears

منصب کا لحاظ نہ آئین کی پاسداری‘ قانون کی حکمرانی نہ اخلاقی و سماجی قدروں کا پاس۔ احساسِ ذمہ داری‘ وضع داری اور رواداری جیسی صفات تو کبھی چھو کر بھی نہیں گزریں۔ عوام نے بھی کیا قسمت پائی ہے‘ کیسے کیسے حکمران ان کی بدنصیبی میں شب و روز اضافے کا باعث بنتے چلے جارہے ہیں ۔ جن حکمرانوں کی اہلیت معمہ اور قابلیت نامعلوم ہو وہ کتنی دہائیوں سے اپنی اپنی باریاں لگائے چلے جارہے ہیں۔ سالہا سال گزر گئے‘ کتنے ہی حکمران بدل گئے لیکن عوام کے نصیب نہ بدلے۔ ان کے مسائل اور مصائب جوں کے توں ہیں۔ روٹی ‘کپڑا اور مکان کا جھانسہ ہو یا کسی نظامِ کا دلاسا‘ لانگ مارچ ہو یا تحریک نجات یا ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ‘ تبدیلی کا دھرنا ہو یا آزادی مارچ‘ یہ سارے کھیل تماشے حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک عوام کو کیسے کیسے عذابوں سے دوچار رکھے ہوئے ہیں۔ حکمران عہدِ ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ نہ تو انہیں عوام کا کوئی درد ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے استحکام سے کوئی سروکار۔ زمین قحط زدہ ہو تو بحالی اور اُمید کا امکان بہرحال رہتا ہے‘ بدقسمتی سے ہماری زمین کا کیس ہی کچھ اور ہے‘ یہ کیس قحط کا نہیں قہر کا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں شاید کوئی مائی کا لعل ایسا نہیں جو صاحبِ اقتدار و اختیار ہو اور گردن اُٹھا کر چل سکتا ہو۔ اُنگلی اٹھا کر اُس کی شہادت دی جاسکتی ہو کہ اس نے حق حکمرانی ادا کر دیا۔ 
سرکاری وسائل کو بھنبھوڑ کر کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ اور کنبہ پروری کے ساتھ ساتھ بندہ پروری کا رواج کوئی نیا نہیں ۔ یہ کھلواڑ یہاں روزِ اول سے جاری ہے‘ صرف کردار اور چہرے بدل رہے ہیں اور عوا م کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جس معاشرے میں سب کچھ چلتا ہو وہاں کچھ بھی نہیں چلتا۔ جس ملک کے حکمرانوں کی دیانت اور اہلیت پر آئے روز سوالات اُٹھتے ہوں تو پھر کیسی قیادتیں اور کہاں کی حکومتیں؟ بوئے سلطانی اور ہوسِ زر کے مارے ان حکمرانوں نے کون سا شارٹ کٹ نہیں لگایا؟ ایسا ایسا شارٹ کٹ کہ پورا سسٹم ہی شارٹ کر کے رکھ دیا۔ سسٹم شارٹ کیا ہوا‘ پھر ان کے ہاتھ سے کچھ نہیں بچا‘ اخلاقی و سماجی قدروں سے لے کر عوام کو تواتر سے دکھائے گئے سہانے خوابوں تک سبھی کچھ چکنا چور ہو چکا ہے۔ ٹریفک سگنل سے لے کر آئین و قوانین تک توڑنے والوں نے کیا کچھ نہیں توڑا‘ ریاست کا نظام چلانے کے لیے ادارے اپنے ضابطوں اور قوانین کے ساتھ موجود ہوں اور ان کی کارکردگی صفر ہو تو کچھ ایسا ہی منظرنامہ ہوتا ہے جو آج کل وطنِ عزیز کا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا سو کیا‘ کسر تو موجودہ حکمرانوں نے بھی کوئی نہیں چھوڑی۔ دو سالوں سے اہلیت اور قابلیت پر اُٹھنے والے سوالات بڑھتے چلے جارہے ہیں بلکہ انصاف سرکار ان سوالات میں دن بدن دھنستی چلی جارہی ہے۔ انتہائی اہم اور کٹھن فیصلوں کا بار اٹھانے سے قاصر حکومتی وزرا بے بسی کی تصویر بن کر زبانی جمع خرچ سے الفاظ کا گورکھ دہندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی سیاسی دباؤ اور مصلحتوں کا شکار ہو گیا تو کوئی رنگ میں رنگا گیا گویا سبھی کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ ان سبھی کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملاح کو جہاز اُڑانے کے لیے کاک پٹ میں بٹھا دیا گیا ہو۔ وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں اور بھینسوں کی نیلامی سے شروع ہونے والے معاشی انقلاب کے ثمرات عوام بھگتتے بھگتتے ہلکان ہو چکے ہیں۔ حکومتی سقراطوں اور بقراطوں نے گا‘گے‘گی کا ایسا راگ چھیڑا ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ 
جس عہد میں سرکاری ادارے حکمرانوں کے مصاحبوں اور رفقا کے رحم و کرم پر ہوں تو بہتری کی اُمید لگا کر خود فریبی کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ فاتحہ پڑھ لی جائے۔ وزیر اعظم کے دو معاونینِ خصوصی کے استعفوں کے بعد وفاقی کابینہ میں ڈاکٹر فیصل سلطان کی شمولیت سے Nears & Dearsکا خسارہ ایک بار پھر پورا ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر فیصل سلطان وزیراعظم کے انتہائی بااعتماد اور شوکت خانم ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ نواز شریف کی بیماری کی تصدیق کے لیے سروسز ہسپتال کا دورہ کرنے کے بعد انہوں نے ہی وزیراعظم کو رپورٹ دی تھی کہ نوازشریف کی حالت واقعی تشویشناک ہے۔ اب انصاف سرکار کے وزرا اور دیگر چیمپئنز برطانیہ میں مقیم نوازشریف کی بیماری کو ڈھونگ قرار دے کر اپنی ہی سرکار کے ہسپتال‘ ڈاکٹرز‘ لیبارٹریوں اور تشخیص پر سوالیہ نشان لگائے چلے جارہے ہیں۔ 
ان حالات میں اعلیٰ عدالتوں کا کردار قابلِ تعریف اور ان کا دم غنیمت ہے۔ عدلیہ کے ازخود نوٹسز کے نتیجے میں بے ضابطگیوں اور دیگر خرابیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ بہتری کا گمان بہرحال رہتا ہے۔ کہیں 'شفافیت‘ کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے تو کہیں 'افادیت‘ سوالات کے گھیرے میں ہے‘ کہیں اہلیت معمہ ہے تو کہیں قابلیت سرنگوں دکھائی دیتی ہے‘ کہیں گورننس شرمسار ہے تو کہیں میرٹ تار تار ہے ‘ لیکن سربراہ حکومت اپنے معاونین پر نازاں اور مطمئن ہیں۔ ماضی کے سبھی ادوار میں احتساب کے ذمہ داران سربراہان حکمرانوں کی کٹھ پتلی بن کر انہی کے اشاروں پر کام کرتے رہے تھے۔ سیاسی مخالفین کو زیر عتاب رکھنے کے لیے ریاستی جبر کا بدترین آلہ ٔ کار بن کر انہوں نے حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق اس ادارے کو چلائے رکھا۔ چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ یہ ادارہ بنانے والے خود ہی اس ادارے کے سب سے بڑے ناقدین بن چکے ہیں۔ گویا سبھی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں کہ یہ ادارہ ہم نے اپنے لیے نہیں بلکہ مخالفین اور حریفوں کو زیر عتاب رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ پہلی مرتبہ اسے ایک خود مختار اور غیر جانبدار ادارے کی شناخت دینے کی کوشش کی گئی‘ کیا حکومت کیا اپوزیشن‘ کیا افسر شاہی‘ کیا سہولت کار سبھی کو احتساب کی چکی میں برابرکا پیس ڈالا۔ شریف فیملی ہو یا زرداری‘ سبھی کو جوابدہی کے مرحلے کا سامنا کرنا پڑا۔ نوازشریف تو اس پچھتاوے کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ کاش وہ آرٹیکل 62/63 ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی پیشکش مسترد نہ کرتے۔ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے نواز شریف کو اپنے ہی دورِ اقتدار میں کرپشن‘ بدعنوانی اور ندامت کا داغ لیے اقتدار سے علیحدہ ہوکر نہ صرف احتسابی عمل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ نااہلی کی سزا کا طوق بھی گلے میں ڈالے پھرتے ہیں۔ اسی طرح بے نامی اکاؤنٹس‘ جائیدادوں‘ فیکٹریوں‘ شوگر ملوں اور لانچوں پر کرنسی نوٹوں کی نقل و حمل کے علاوہ سندھ کے سرکاری وسائل کو بے دردی سے بھنبھوڑنے والوں سے کون واقف نہیں ہے۔ 
حکمران ماضی کے ہوں یا موجودہ ان سبھی کے لیے نیب آنا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ انہیں نہ سبکی محسوس ہوتی ہے نہ ندامت‘ کلف لگی پوشاک پر واسکٹ زیبِ تن کیے ہوئے‘ چم چم کرتے جوتے سلیقے سے بنائے گئے بال اور خوب کھینچ کر کی گئی شیو دیکھ کر لگتا ‘یہ پیشی بھگتنے نہیں بلکہ فیتہ کاٹنے آئے ہیں۔ پیشی بھگت کر باہر نکلتے ہی وکٹری کا نشان ایسے بناتے ہیں گویا کوئی معرکہ سر کر آئے ہوں اور اپنے کارناموں کی ایسی ایسی توجیہہ اور وضاحت پیش کرتے ہیں کہ الفاظ خود شرما جائیں۔ سبکی‘ ندامت اور شرمندگی کے ساتھ ساتھ جلنا کڑھنا تو بس عوام ہی کا نصیب ہے کہ انہوں نے جنہیں نجات دہندہ اور اپنے دکھوں کا مداوا سمجھا وہی خائن نکلے۔ حکمران جس ریاستِ مدینہ کو ماڈل بنائے پھرتے ہیں انہیں یہ بھی بخوبی یاد ہوگا کہ اس ریاست کے خلفاء سے کرتے کے کپڑے کا حساب طلب کرنے کا حق بھی رعایا کو حاصل تھا۔ حکمران کی اہلیت اور دیانت پر سوال آجائے تو وہ حقِ حکمرانی کا اہل نہیں رہتا مگر ہمارے ہاں نیئر اینڈ ڈیئرز کے تمام حقوق محفوظ ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں