"AAC" (space) message & send to 7575

سارا جہاں ہمارا

مسلم اُمّہ کے'' بھائی چارے‘‘ کا اچھا خاصا چارہ تو بھارت کب کا چر چکا ہے بچاکھچا دانہ دُنکا بھی اسرائیل چُگ گیا ہے اور ہم بنے پھرتے ہیں عالمِ اسلام کی اخوت کے ''علم بردار‘‘ گویا سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ۔ زمینی حقائق سے نظریں چراتے چراتے ہم ایک دوسرے کی نظروں میں چور بنتے چلے جارہے ہیں۔ زمینی حقائق بھی ایسے کہ زمین کھسکنے کے ساتھ ساتھ آسمان بھی رنگ بدلتا نظر آتا ہے۔ جہاں ہماری سفارتوں اور وزارتوں کی کارکردگی آشکارہے وہاں خود فریبی کی دلدل میں گوڈے گوڈے دھنسنے کے باوجود نجانے کس کو جھانسے دئیے چلے جارہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے ہی جگر میں کیوں ہے؟ ابھی چند روز پہلے ہی وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے سفارتی محاذ پر مامور چیمپئنز کی کارکردگی کا پول کھول ڈالا بلکہ دفترخارجہ اور دیگر متعلقہ اداروں کو وزیراعظم کی کوششوں اور کشمیریوں کی جدوجہد کو ناکام بنانے کا ذمے دار بھی ٹھہرا ڈالا۔ 
کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے یومِ سیاہ منانے سے لے کر ترنگا جلانے تک‘یوم استحصال منانے سے ریلیاں نکالنے تک‘پرچم سرنگوں کر کے کالی پٹیاں باندھنے سے لے کر مذمتی نعرے لگانے اور قراردادیں منظور کرنے تک سبھی کچھ تو کشمیریوں کے درد میں کئے چلے جا رہے ہیں۔ کشمیر کمیٹی سے نجانے کس کس کی کمیٹیاں نکلتی رہی ہیں‘ یوم استحصال اور یومِ سیاہ بہت منا لیے‘ اگر کچھ منانا باقی رہ گیا ہے تو وہ یومِ وفا ہے ‘کسی روز وہ بھی منا لینا چاہیے اور اُن عوامل اور وجوہات کو بھی تلاش کر نا چاہیے کہ اس زندہ قوم کے برادر مسلم ممالک بھارت کی مالا جپتے کیوں نہیں تھکتے؟ 
بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370کی تنسیخ اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بہیمانہ مظالم پر کیسی کیسی شعلہ بیانیاں ہمارے ہاں دیکھنے میں آئیں۔ وطنِ عزیز کو غیر مستحکم کرنے میں برابر کے شریک قومی اسمبلی میں جوشِ خطابت سے مجبور یہ بھی فرماچکے ہیں کہ ہم مودی کے ہاتھ توڑ دیں گے‘ مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مودی کے ہاتھ توڑنے کے لیے وہ خود دہلی جائیں گے یا مودی اپنے ہاتھ تڑوانے کے لیے اُن کے حضور خود پیش ہوں گے؟ ایسے ڈھونگ بھاشن روزِ اوّل سے ہی جاری ہیں۔ 
کشمیر کمیٹی سے کمیٹیاں نکلوانے والے نواز شریف ہوں یا بے نظیر‘ پرویز مشرف ہو یا زرداری اور موجودہ حکمران سبھی نے کشمیر کاز کو ذاتی مقاصد اور سیاسی مجبوریوں سے آگے جانے ہی نہیں دیا۔ ان حالات کا مزید ماتم کرنا ڈپریشن بڑھانے کے ساتھ ساتھ الفاظ کے ضیاع کا بھی باعث ہے۔ اب صورتحال کی عکاسی کے لیے بس یہ شعر کافی ہے؎
رودادِ سفر نہ چھیڑ ناصرؔ
پھر اشک نہ تھم سکیں گے میرے
خدا ہماری خودداری قائم و دائم رکھے ‘کیونکہ خودداری کے سوا ہمارے پاس رہ ہی کیا گیا ہے۔
قارئین! آج کا کالم منتشر اور آوارہ خیالی کا شکار ہوتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ سفارتی محاذ پر گوناگوں پسپائیاں تو اپنی جگہ‘ داخلی امور بھی اس قدر پریشان کن ہیں کہ کس کس کا رونا روئیں اور کس کس کا ماتم کریں۔ اکثر احباب اور قارئین کا کہنا ہے کہ میں اپنے کالموں میں ڈپریشن پھیلانے کے ساتھ ساتھ حالات کا ماتم بہت کرتا ہوں۔ ان سبھی کا اعتراض ہے کہ حالات پہلے ہی کیا کم مایوس کن ہیں جو تم نازک صورت حال اور عوام کی حالتِ زار کا ماتم کر کے بے یقینی اور مایوسیوں کے سائے اس قدر بڑھا دیتے ہو کہ ہر طرف اندھیرا ہی چھایا دکھائی دیتا ہے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ کیا کریں ‘ کدھر جائیں‘ کہاں جاکر سر پھوڑیں۔ میرا ان احباب کو ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ملامتی حالات میں بس ماتمی کالم ہی لکھا جاسکتا ہے۔ 
مملکتِ خداداد میں شہر شہر‘ گلی گلی‘ قریہ قریہ‘ صبح شام روزانہ کی بنیاد پر سماجی و اخلاقی قدروں کی گراوٹ سے لے کر قانون اور متعلقہ اداروں کی بے وقعتی تک‘مالی خوردبرد سے لے کر انتظامی بددیانتی تک‘ اقربا پروری سے لے کر کنبہ پروری تک‘ لوٹ مار سے لے کر مار دھاڑ تک‘ ایوانوں سے لے کر بیابانوں تک‘ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مناظرجا بجا نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو موضوع کا انتخاب بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ کس پہ لکھیں اور کس کو چھوڑیں۔ بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ وطنِ عزیز کے حکمرانوں کے ذاتی رفقا اور مصاحبین انہی کے پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے چلے آئے ہیں۔ تازہ ترین کارکردگی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف حکومت کے فرنٹ لائن وزرا کی کارکردگی ناقص اور غیر تسلی بخش قرار پائی ہے۔ ان میں شیخ رشید احمد‘ فیصل وائوڈا‘ عمر ایوب‘ مراد سعید‘ غلام سرور خان‘ پرویز خٹک‘ علی زیدی‘ خسرو بختیار‘ فروغ نسیم‘ شیریں مزاری اور فواد چودھری کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ جب ان نامی گرامی وزرائے کرام کی کارکردگی کا یہ عالم ہے تو باقی کابینہ کا تو یقینا اﷲ ہی حافظ ہو گا۔ 
ایک سال قبل ستائیس وزارتوں کو غیر سنجیدگی اور عدم تعاون کی بنا پر وزیراعظم آفس ریڈ لیٹر بھی جاری کر چکا ہے۔ وزارتوں کو ''تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے تحت ریڈ لیٹر جاری کیا گیا۔ یہی لیٹر ان وزرا کو بھی ضرور جاری ہونا چاہیے جو آنیوں جانیوں اور شعلہ بیانیوں کے سوا کچھ بھی نہیں کر پائے۔ ایک سال گزرنے کے باوجود وزیراعظم آفس سے جاری ہونے والا یہ ریڈ لیٹر جب ان وزارتوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو وزرا پر اس کا کیا اثر ہو گا کیونکہ
اَکھ دا چانن مَر جاوے تے 
نیلا‘ پیلا‘ لال برابر
اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ میں نواز شریف کی سرگرمیاں تحریک انصاف کی حکومت کے اعصاب پر بجلی بن کر گرتی ہیں اور پھر کبھی انفرادی تو کبھی اجتماعی پریس کانفرنسز میں ایسا ایسا واویلا اور ایسا ایسا تماشا لگایا جاتا ہے کہ بے اختیار یہ پوچھنے کو دل چاہتا ہے کہ نواز شریف کی بیماری اپنی اَپ ڈیٹ سے لے کرعلاج معالجے تک سبھی کچھ تو حکومت کے زیر نگرانی سرکاری ہسپتال میں ہو رہا تھا اور وزیراعظم کے انتہائی قریبی اور معتمد ِخاص ڈاکٹر فیصل سلطان نے سروسز ہسپتال کے دورے کے بعد وزیراعظم کو یہی اطلاع دی تھی کہ نواز شریف کی حالت انتہائی نازک ہے۔ ایسے حالات میں مزید کوئی رسک لینا حکومت پہ بھاری پڑ سکتا ہے ‘جبکہ حلیف جماعتیں بھی وزیراعظم کو یہی سگنل دے رہی تھیں کہ نواز شریف کا مزید یہاں رہنا حکومت کے لیے وبال بن سکتا ہے۔ اب نواز شریف کی بیماری کو ڈرامہ اور ڈھونگ کس طرح قرار دیا جارہا ہے؟ 
ایسے میں حکومت کے چیمپئنز کو ایک اجتماعی پریس کانفرنس بھی کر لینی چاہیے جس کا ایجنڈا خود مذمتی ہو۔ نوازشریف اور دیگر اپوزیشن کا رونا دھونا کافی ہو چکا‘ اب کچھ توجہ اصل کام پر بھی دیں‘ اپنی ناکامیوں کا ملبہ کب تک سابق حکمرانوں پر ڈالتے رہیں گے۔ ہر دور میں شریکِ اقتدار رہنے والے کس بے حسی سے سابق حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں شامل دو درجن سے زائد غیر منتخب شخصیات کے علاوہ سابق ادوار میں شریک ِاقتدار ہو کر موجیں اُڑانے والے آج انصاف سرکار کے وزرا کی حیثیت سے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس میں سابق حکمرانوں کے ''لَتّے‘‘ نہ لیتے ہوں۔ وزیر ہوا بازی جن کی ڈگری کے بعد اب کارکردگی بھی بے نقاب ہو چکی ہے‘اسی طرح شیخ رشید احمد‘ عمر ایوب‘ نور الحق قادری‘ میاں محمد سومرو‘ اعظم سواتی‘ سید فخر امام‘ طارق بشیر چیمہ‘ فواد چودھری‘ فروغ نسیم‘ فہمیدہ مرزا‘ فردوس عاشق اعوان‘ زبیدہ جلال اور عبدالحفیظ شیخ سمیت دیگر کئی سابق ادوار میں نجانے کتنی باریاں لگانے کے باوجود آج حالات کی خرابی کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہراتے پھرتے ہیں۔ تعجب ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں