یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ دھاڑیں مار رہے ہوں۔ ہر سطر سے خون ٹپک رہا ہو۔ اعراب آبلہ پا ہوں اور پورا کالم ہی سینہ کوبی پر آمادہ ہو۔برس ہا برس بیت گئے‘ کتنی ہی رُتیں اور موسم بدل گئے لیکن کراچی کے عوام کی سیاہ بختی جوں کی توں رہی۔ نحوست بال کھولے سو رہی ہے یا سیاہ بختی پاؤں پسارے بیٹھی ہے؟ کیسی نظرِ بد تھی جو روشنیوں کے شہر کو کھاگئی۔ سانحات اور صدمات کراچی کے کونے کونے میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں اس شہرِ بدنصیب میں بسنے والوں کی حالتِ زار کیا ہوگی۔ دن کے چین اور رات کے سکون کے علاوہ اپنے پیاروں سمیت نجانے کیا کچھ کھو چکے ہیں۔
بھتوں کا دور ختم ہوا تو آوارہ کتوں کا راج قائم ہوگیا‘ بارانِ رحمت کچھ اس طرح زحمت بنی کہ جینا عذاب ہو گیا۔ حکمرانوں کی نا اہلی شہر بھر کو کوڑے دان میں تبدیل کر چکی ہے۔ خون کی ارزانی کے بعد جان لیوا پانی کی فراوانی نے کراچی کو نئے عذاب سے دوچار کر ڈالا ہے۔ حالیہ بارشوں میں مال و اسباب تو گیاہی گیا جان کے لالے الگ پڑ چکے ہیں۔ بجلی بند ہو تو سانس لینا مشکل اور بجلی آجائے تو کرنٹ شہر بھر میں کھڑے پانی میں موت بن کر پھر جاتی ہے‘ جائیں تو جائیں کہاں؟ اور اب یہ عالم ہے کہ زمین تنگ اور آسمان بھی نا مہربان دکھائی دیتا ہے۔
ایم کیو ایم کے جان لیوا آسیب کا اثر ختم ہوا تو روٹی کپڑا اور مکان کا جھانسا دینے والوں کی اولادوں نے انہی تینوں چیزوں سے عوام کو محروم کر ڈالا۔ 12 سال سے گورننس کے نام پہ سندھ کی عوام کو زندہ درگور کرنے والوں نے لوٹ مار‘ دھونس اور دھاندلی سمیت نجانے کون کون سے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں؟ سلام ہے کراچی کے عوام کو جنہوں نے گزشتہ چار دہائیوں سے ایسے عذاب جھیلے ہیں۔ ہوسِ زر سے لے کر سیاسی مصلحتوں اور اقتدار کی بھوک تک سبھی ناسور اسی شہر میں پھیلتے رہے ۔ کتنی ماؤں کی گودیں اُجاڑدی گئیں‘ کتنے سہاگ دن دہاڑے خون میں نہلائے گئے‘ کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے‘ کتنے بچے یتیمی کا روگ جھیل رہے ہیں۔جن کو عوام نے مینڈیٹ دیا اور جنہوں نے اس مینڈیٹ کی حرمت کا خیال نہیں رکھا‘ ان سبھی کے ہاتھ اس خون میں رنگے ہوئے ہیں۔
اس شہرِ بدنصیب کی بربادی اور تباہی میں سبھی برابر کے شریک اور ذمے دار ہیں۔ خدا پوچھے ان سب سے جنہوں نے جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں لگائے گئے اس زہریلے اور جان لیوا پودے کو بھر بھر مشکیں ڈال کر پروان چڑھایا۔ اس دردناک حقیقت سے کون واقف نہیں کہ مملکتِ خداداد کے طول و عرض میں کوئی ایسا مائی کا لعل نہیں جو ایم کیوایم کے وطن دشمن قائد کے در پر نہیں گیا۔ بڑے بڑے جمہوریت کے علمبردار اور عوام کے درد میں مرے جانے والے سیاستدان اپنے وسیع تر سیاسی مفاد میں مفاہمت اور تعاون کی بھیک کے لیے اس کے در پر پڑے رہتے تھے۔ اس تعاون کے عوض شہر قائد میں بسنے والوں کے جان و مال گروی رکھوا دیے گئے۔ جس نے آنکھ اُٹھائی وہ پھر سر اُٹھا کر نہ چل سکا۔ سیاسی مفاہمت اور تعاون کے نتیجے میں ہونے والے یہ گٹھ جوڑ کراچی کے عوام کے لیے عذابِ مسلسل ہی بنے رہے۔ ہر دور میں ہر حکمران نے ایم کیوایم کو سیاسی تعاون کے عوض ''لائسنس ٹو کِل دیے رکھا‘‘۔
کاروباری بڑا ہو یا چھوٹا‘ کس کی مجال تھی کہ وہ بھتے کی پرچی پر مطلوبہ رقم بروقت نہ پہنچائے۔ جس نے مزاحمت کا سوچا وہ راستے سے ہٹا دیا گیا۔ بڑے سے بڑے سرکاری افسر اور ماتحت اہلکاروں کی کیا حیثیت کہ وہ اُن کی منشاکے مطابق کام نہ کریں۔ ایم کیوایم کے مدِمقابل الیکشن لڑنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا‘ ماسوائے بڑی جماعتوں کے کوئی عام شہری الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اگر کوئی ان سے مقابلے کی جرأت کرتا تو اسے سیدھا سیدھا پیغام بھیجا جاتا تھا کہ ''بیٹھنا ہے یا لیٹنا ہے‘‘۔ یعنی ہمارے حق میں بیٹھ جاؤ ورنہ قبر میں لٹا دیے جاؤ گے۔ کم و بیش تیس سال پہلے جنرل آصف نواز جنجوعہ نے جب کراچی میں آپریشن شروع کیا تو سب سے پہلے حاکمِ وقت نواز شریف کو اپنے اقتدار کے لالے پڑ گئے تھے۔ عقوبت خانوں کی دلخراش داستانیں جب منظر عام پر آئیں تو ہر دردِ دل رکھنے والا لرز کر رہ گیا‘ نہیں لرزے تو یہ مجبوریوں‘ مصلحتوں اور بوئے سلطانی کے مارے سیاستدان نہیں لرزے۔ کیسا کیسا انمول ہیرا ایم کیوایم کے غضب کا نشانہ نہیں بنا۔ کیسی کیسی قدآور شخصیات کی آواز ہمیشہ کیلئے بند نہیں کر دی گئی اور پھر جعلی بیمار اور وطن دشمن کوکس طرح ملک سے فرار کروایا گیا‘ اس درد ناک اور شرمناک حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے۔
کراچی کے عوام لمحہ لمحہ‘ قطرہ قطرہ‘ ریزہ ریزہ‘ دھیرے دھیرے‘ ٹکڑوں میں اور پَل پَل نجانے کتنی بار مرتے ہیں۔ تبدیلی کا سونامی برسرِ اقتدار آیا کو یہ خوش گمانی بھی لاحق ہوئی کہ شاید اب اس شہرکے دن پھر جائیں گے۔ ا س کی راتیں پہلے کی طرح جاگا کریں گی۔ اس کی روشنیاں چڑھتے سورج کے ساتھ ہی گل ہوا کریں گی۔ قانون اور انصاف کی حکمرانی ہو گی‘ شہری سہولیات کے ساتھ زندگی آسان ہو گی۔ میرٹ کا راج اور گورننس مثالی ہو گی۔ سرکاری ادارے عوامی خدمت پر مامور ہوں گے‘ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ نہ عوام کے دن پھرے اور نہ ہی قانون کی حکمرانی قائم ہو سکی۔ مفادِ عامہ کے ادارے باہمی مفادات کے ہاتھوں مجبور دکھائی دیے تو شہر کی صفائی پہ مامور ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنا بیٹھے ۔محکمہ مال میں ڈنڈی مارنے کا نظام نہ صرف آج بھی قائم ہے بلکہ مال بنانا بھی اولین ترجیح ہے۔ دن پھرنا تو دور کی بات پورا شہر دربدر دکھائی دیتا ہے۔ جگمگاتی روشنیوں کا خواب اس قدر بے رحمی سے چکناچور ہوا کہ اس کی کرچیاں آج بھی اس شہر بدنصیب کو لہولہان کیے ہوئے ہیں۔
اٹھارہویں ترمیم کی آڑ میں پیپلز پارٹی نے سندھ کے عوام سے جو کھلواڑ کیا اس کے اَن گنت نمونے کراچی سمیت پورے سندھ میں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ سرکار کی بداعمالیوں اور لوٹ مار کی چونکا دینے والے اَن گنت داستانیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ لوٹ مار اور نفسانفسی کے اس گھمسان میں نہ کسی حکمران نے کوئی لحاظ کیا اور نہ کسی منصب دار نے۔ایسا اندھیر مچائے رکھا کہ بند آنکھ سے بھی سب صاف صاف نظر آرہا ہے۔ زرداری سے لے کر پٹواری تک کسی پر کوئی الزام لگا دیجئے ‘کلک کر کے فٹ بیٹھ جائے گا۔ انصاف سرکار نواز شریف کو وطن واپس لانے کی باتیں اور دعوے کر رہی ہے۔ ملک بھر میں مباحثے کا سماں ہے‘ تحریک انصاف حکومت کے وزرا کی ایک دوسرے پہ الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے۔ نوازشریف کو واپس لانے کے دعوے ضرور کریں‘ لیکن قوم کو یہ بھی بتائیں کہ الطاف حسین کو واپس لانے کے لیے انصاف سرکار نے اب تک کون سے اقدامات کیے ہیں؟ اور سانحہ 12مئی میں ناحق مارے جانے والوں کے لواحقین کو جو انصاف دلوانے کے دعوے کنٹینر پر کھڑے ہوکر کیے تھے وہ انصاف کہاں رہ گیا؟ وطن دشمن قائد کے اطاعت گزار آج حکومت کے حلیف اور شریکِ اقتدار ہیں۔ مصلحتوں اور مفاہمت کی سیاست کی بدبودار روایت آج بھی جاری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اس مٹی سے غداری کی‘جس نے بھی وطنِ عزیز کے عوام کے خون کو پانی سے بھی ارزاں جانا‘ نہ وہ رہا اور نہ اُس کا اقتدار۔پرویز مشرف ہوں یا مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری... نواز شریف ہو ں یا الطاف حسین ‘کون کہاں کس حال میں ہے؟ یہ قوم کچھ نہیں مانگتی... بس وفا مانگتی ہے۔ اس ملک کی مٹی کے ساتھ... اس ملک کے عوام کے ساتھ۔