وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اپوزیشن کی اے پی سی کو ملزموں اور مجرموں کا اکٹھ (اجتماع) قرار دیا ہے۔ مشیر داخلہ شہزاد اکبر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے اپوزیشن کو خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ نتیجہ پہلے بھی صفر تھا اور اب بھی صفر ہی نکلے گا۔ حکومتی چیمپئنز کے اس بیانیے کے بعد پتا نہیں کیوں جیل میں ہونے والی نماز کا منظر بے اختیار میری چشم تصور کے سامنے گھوم گیا جہاں اذان ڈاکو دیتا ہے‘ امامت قاتل کرواتا ہے اور چور‘ اُچکوں سمیت دیگر سنگین جرائم میں ملوث اسیران ایک ہی صفت میں کھڑے ہوتے ہیں۔
آج کا کالم ایک سے زائد موضوعات پر مبنی ہے کہیں نیوز بلیٹن کا شائبہ ہو تو اس کی وجہ صرف موضوعات کی بھرمار ہے۔ تواتر سے باور کروائے چلے جا رہا ہوں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ازخود نوٹسز اور مفادِ عامہ سے متعلق زیرِ سماعت کیسز کو ہرگز ایزی نہ لیں۔ گورننس کے نام پر گورکھ دھندا ہو یا میرٹ کو تار تار کرنے کی واردات‘ کورونا پر ناقابلِ یقین اخراجات ہوں یا ادویات کی قیمتوں میں لگائی گئی آگ‘ آٹے کا گھاٹا عوام کے کھاتے میں ڈالنے کے واقعات ہوں یا چینی کا زہر گھولنے کے‘ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہو یا نالائقی اور بدنیتی پر مبنی دیگر فیصلے؛ عدالت طرزِ حکمرانی پر نہ صرف مسلسل سوال اُٹھا رہی ہے بلکہ حکمران ان کڑے سوالات کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود کہیں گم نظر آتے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کے حالیہ ریمارکس بطور حوالہ شیئر کرتا چلوں جن میں جنابِ چیف جسٹس نے واضح کیا ہے کہ کسی سرکاری محکمے میں وزرا کی سفارش ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ سرکاری اداروں میں چہیتے مصاحبین کی تقرریاں‘ محکموں میں وزیروں اور مشیروں کی مداخلت پر میرٹ کی ایسی تیسی کرنے کے واقعات مسلسل حکمرانوں کی سبکی اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے چلے جا رہے ہیں۔
میرٹ اور گڈ گورننس کی ضد بننے والے اکثر فیصلے بالآخر عدلیہ کے فیصلوں کے آگے اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر چاروں خانے چت نظر آتے ہیں۔ کیسی کیسی مزاحمت اور کیسا کیسا واویلا نہیں کیا گیا کہ خدارا پی ٹی وی جیسے تاریخی ورثے کو ہی مافیا سے بچا لیں‘ لیکن وزیراعظم صاحب سمیت کوئی بھی اربابِ اختیار اس حوالے سے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی وی میں غیر قانونی تعیناتیوں کے خلاف کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی وی کے چیئرمین اور بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ڈائریکٹرز کی تعیناتیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اب تک چیئرمین رہنے والے صاحب کو آئندہ کسی عہدے پر تعینات نہ کرنے کی تاکید بھی فیصلے میں شامل ہے۔ حکمرانوں کے سر چڑھے سابقہ چیئرمین نے پی ٹی وی کا حلیہ خراب کر کے رکھ دیا۔ ان کے فیصلوں کے نتائج نجانے کب تک بھگتنا پڑیں گے۔ اسی طرح ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر کو ہٹانے کا فیصلہ بھی مناسب قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہیں بچانے کی کوشش میں ایک سابق وفاقی وزیر صحت خود کو بھی نہ بچا سکے تھے۔
جس طرح اعلیٰ عدالتوں کا وجود غنیمت اور کسی نعمت سے کم نہیں‘ اسی طرح نیب کا کردار بھی اس بند کی طرح ہے جو لوٹ مار اور کرپشن کے سیلاب کو روکنے کے لیے دستیاب وسائل میں غیر معمولی کردار ادا کر رہا ہے۔ کس بے حسی سے اُنگلی نچا نچا کر کہتے ہیں کہ ایک پائی اور دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ کمال مہارت ہے کہ ان کا دامن اور ہاتھ بھی صاف ہیں اور ادھر سرکاری خزانہ بھی صاف... ملکی وسائل اور سرکاری خزانے کو کس بے دردی سے بھنبھوڑا گیا ہے‘ الامان والحفیظ۔ اس ملک کی جڑوں کو چاٹ جانے والوں نے اس طرح چاٹا ہے کہ معیشت کا پیندہ ہی کھا گئے۔ اب معیشت کے اس برتن میں بھلے سمندر ہی اُنڈیل دو‘ انجام وہی ہوگا جو ہم بھگت رہے ہیں۔ اپنی آنیوں جانیوں‘ تام جھام اور اَللّوں تللّوں سے لے کر کنبہ پروری اور بندہ پروری تک‘ سبھی کا ناقابلِ برداشت بوجھ تو سرکاری خزانے اور وسائل پر کچھ اس طرح تھا کہ قرضے کی قسط دینے کے لیے بھی قرضہ لینا پڑا۔ اسی قرضے کی رقم سے خود بھی موجیں مارتے رہے اور جن منصوبوں کے لیے یہ قرضے حاصل کیے گئے ان منصوبوں کو بھی اپنے ذاتی اور کاروباری مفادات کے گرد ہی گھماتے رہے یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔
ان سماج سیوک نیتائوں نے کس طرح اس ملک و قوم پر پہاڑ جیسے قرضوں کا بوجھ لاد دیا اور اسی پہاڑ پر بیٹھ کر اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے رہے؛ آئیے! تاریخ کے چند اوراق پلٹتے ہیں: 1988ء تک وطن عزیز پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کا حجم 13 ارب ڈالر تھا‘ جمہوریت کے علم بردار حکمرانوں نے 1999ء تک یعنی صرف گیارہ سال کے دوران ان قرضوں کا حجم 39 ارب ڈالر تک پہنچا دیا۔ ان گیارہ سالوں کے دوران بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دو، دو مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ غضب خدا کا صرف دس سالوں میں 26 ارب ڈالر‘ یہ کہاں لگائے اور کہاں اُڑائے‘ یہ سبھی کچھ تو عیاں ہو ہی چکا ہے۔ 1999ء سے 2008ء پرویز مشرف کے عرصۂ اقتدار میں 39 ارب ڈالر کا قرضہ 40.6 ارب ڈالر تک ہی گیا۔ بیرونی قرضوں پر صدر پرویز مشرف کا کنٹرول قابلِ تعریف وتقلید تھا۔
2008ء میں میثاقِ جمہوریت کے نام پر بننے والے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں نواز، زرداری بھائی بھائی بن کر شہر اقتدار میں داخل ہوئے۔ 2008ء سے 2013ء تک زرداری صاحب نے اپنا سکہ چلایا تو اگلے پانچ سال تک وطن عزیز میں نوازراج رہا۔ ان دس سالوں میں یعنی 2008ء سے 2018ء تک مجموعی طور پر بیرونی قرضوں کا حجم 40.6ارب ڈالر سے بڑھ کر 96ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بیرونی قرضوں پر کمیشن بنانے کا اعلان کیا تو اپوزیشن نے اس پر خوب واویلا مچایا تھا۔ گزشتہ بتیس سالوں کے دوران لیے جانے والے قرضوں کے حجم سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیرونی قرضوں پر کمیشن بنانے کے اعلان پر اپوزیشن کی نیندیں کیوں اُڑ گئی تھیں۔
جمہوریت کے علمبردار اور عوام کے غم میں نڈھال ماضی کے حکمران 13ارب ڈالر کا قرضہ 96ارب ڈالر تک پہنچانے کے بعد خود تو محلات، ان گنت فیکٹریوں، خفیہ اور ظاہری اثاثوں، وسیع و عریض کاروبار، اندرون و بیرون ملک جائیدادوں اور بیش قیمت گاڑیوں سمیت نجانے کس کس کے مالک بن بیٹھے‘ لیکن انہوں نے عوام کو کس حال میں پہنچا ڈالا‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ پوری واردات ہے۔ کس بے حسی سے دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت کر دے تو سیاست چھوڑ دیں گے ۔کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟کہ ان کی سیاست تو کب کی گئی۔اب ثابت کرنے کیلئے کیا رہ گیا ہے؟ ان کی سیاست کی چھٹی تو مکافاتِ عمل اور عوام نے ہی کروا دی ہے۔ آمدن سے زائد اثاثوں میں رقوم کی بذریعہ ٹی ٹی ترسیلات کو کون اور کتنا جھٹلا سکتا ہے اور کب تک جھٹلا سکتا ہے؟ جتنا مرضی واویلا کر لیں شریف برادران اور زرداری اینڈ کمپنی سارے ہی رقوم کی ترسیلات بذریعہ ٹیلی گرافک ٹرانسفر کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں جبکہ بوئے سلطانی سے مجبور ہو کر کی جانے والی مار دھاڑ میرٹ اور گورننس کی دھجیاں اُڑا کر بنائے گئے مال اسباب کا تو شمار درکنار اس کا گمان ہی ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ بیرونی قرضوں پر کمیشن بنانے کافیصلہ تھا یا محض اعلان‘ یہ عقدہ بھی اب کھلتا نظر آتا ہے۔ اس اعلان سمیت نجانے کتنے ایسے اعلانات ہیں جو نجانے کس کیفیت اور حالات سے دوچار ہوکر‘ کر تو دیے جاتے ہیں لیکن ان پر نہ تو کبھی عملدرآمد ہوا اور نہ ہی ان فیصلوں کا کوئی پرسانِ حال نظر آتا ہے۔ صرف اپنے اعلانات پر عملدرآمد شروع کر دیں تو حالات یکسر مختلف ہو سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں تو حکمران محض اعلانات کے بادشاہ ہی نظر آتے ہیں۔