"AAC" (space) message & send to 7575

میں بھی جاہل ہوں

سقراط نے کہا تھا کہ ''میں بھی جاہل ہوں اور میرے اردگرد رہنے والے لوگ بھی ‘ فرق صرف یہ ہے کہ میں اپنی جہالت کو جان گیا ہوں اور وہ نہیں جانتے‘‘۔ سقراط کا یہ قول لاہور پولیس میں عملی نمونہ بن کر جابجا نظر آنا شروع ہو چکا ہے‘ کہ پہلی مرتبہ سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ پولیس میں قاتلوں‘ ڈاکوؤں اور قبضہ گروپوں کے سہولت کار بھرے پڑے ہیں۔ لاہور پولیس کے سربراہ کا یہ اعتراف وہ پورا سچ اوروہ تلخ حقیقت ہے جس سے نظریں چراتے چراتے اس مقام پر آگئے ہیں کہ پولیس خوف اور دہشت کی علامت بن چکی ہے۔ مظلوم ہونے کے باوجود دادرسی کیلئے جانے والا بھی تھانے جانے سے گھبراتا ہے۔ عوام میں پولیس کے خلاف نفرت کسی فردِ واحد کی وجہ سے نہیں بلکہ اس دھتکار اور پھٹکار کی وجہ سے ہے جس کا سامنا عام آدمی کو تھانوں اور ناکوں پر روزانہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی سائل افسرانِ بالا تک پہنچ ہی جائے تو فیصلہ وہی ہوتا ہے جو ''نِکّا تھانیدار‘‘ لکھ کر لایا ہوتا ہے ‘گویا دادرسی کا دارومدار اس بریفنگ اور ڈی بریفنگ پر ہے جو نیچے سے اوپر تک آتی ہے۔ 
پولیس ریفارمز کا جو نعرہ تحریک انصاف والوں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر لگایا تھا‘ برسر اقتدار آنے کے بعد اُن ریفارمز کا تو کیا ذکراُلٹا ڈیفارمز کے ڈھیر جابجا نظر آتے ہیں۔ عام آدمی کیلئے اس سے بڑی دہشتگردی کیا ہوگی کہ اس کا بچہ اس کی گلی سے اغوا ہو جائے‘ اس کے گھر کے سامنے اس کی بیوی سے گن پوائنٹ پر زیور اتروا لیے جائیں‘ سرِ بازار اس سے موٹر سائیکل یا موبائل چھین لیا جائے۔ وہ تو دن دہاڑے لٹ گیا جس کے گھر سے ڈاکو عمر بھر کی پونجی اور بچیوں کا جہیز لے جائیں‘ وہ کیا جانے پولیس کی خدمات اور قربانیوں کو؟ کبھی وردی کا رنگ بدلا گیا تو کبھی تھانوں میں کمپیوٹرائزڈ سسٹم شروع کیا گیا‘ نہیں بدلا تو پولیس کا رویہ نہیں بدلا۔ عوام کے حصے کی ذلت کے سبھی مناظر اسی طرح جاری و ساری ہیں۔ ماضی میں وردی کی تبدیلی کا بینی فشری کون کون رہا ہے؟ وردی کی تبدیلی کے بعد تھانوں اور پولیس دفاتر سے فیض کے کون سے چشمے پھوٹے؟ یہ سارے سوالات آج بھی جواب کے لیے بھٹک رہے ہیں۔ 
ناجائز قبضے پولیس اور انتظامیہ کی معاونت اور ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں‘اس حقیقت کو کون نہیں جانتا کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں پائے جانے والے ''منشا بم‘‘ ان قبضہ مافیا کے سہولت کار ہیں۔ پولیس کی ملی بھگت کے بغیر کسی بھی پراپرٹی پر قبضہ کیونکر ممکن ہے؟ اور اب بات معاونت اور سہولت کاری سے بڑھ کر ''شراکت داری‘‘ تک جا پہنچی ہے۔ ''جوائنٹ وینچر‘‘ کی بنیاد پر سرکاری اور پرائیویٹ جائیدادوں پر قبضے کروانے والے بینی فشری اور اندر کے ''منشا بم‘‘ بھی شریکِ جرم ہیں۔ ان کی نامی بے نامی جائیدادوں اور بینک بیلنس کی تحقیقات ہونی چاہئیں جو محکمہ پولیس کیلئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ قبضہ مافیا کے شریک جرم اور باوردی سہولت کاروں کے ماضی اور حال کا موازنہ ہی ان کی مالی اور سماجی حیثیت کا اندازہ لگانے کیلئے کافی ہے۔ چشم فلک نے یہ بھی پہلی بار دیکھا ہے کہ قبضہ مافیا کی سہولت کاری کرنے والے ہوں یا قبضہ مافیا کے ہاتھوں ناحق مارے جانے والے بے کس اور لاچار شہری کے خون کو پانی سے بھی کم اہمیت دینے والے قانون کے محافظ‘ جن ہاتھوں سے انہوں نے شہریوں کے جان و مال کا سودا کیا تھا انہی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں اور وہ اپنے انجام کی طرف روانہ ہیں۔ چلتے چلتے سابق آئی جی پنجاب ڈاکٹر شعیب دستگیر کے تبادلے کو سی سی پی او لاہور کی تعیناتی سے جوڑنے والوں کے ریکارڈ کی درستی کیلئے ایک اندرونی کہانی بھی شیئر کرتا چلوں۔ ڈاکٹر شعیب دستگیر کو اس گمراہ کن رپورٹ پر تبدیل کیا گیا جو انہوں نے بغیر تصدیق ارباب ِاختیار کو پیش کی تھی‘ جس کو وہ قبضہ گروپ بنا کر پیش کر رہے تھے ۔وہ بے چارہ تو خود قبضہ گروپ کے ہاتھوں بے یارومددگار مارا گیا۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ وہ مارا جانے والا بے قصور شہری تو خود قبضہ گروپ سے اپنی زمین کا قبضہ چھڑوانے کیلئے دربدر مارا مارا پھر رہا تھا اور وفاقی حکومت کی مداخلت پر قبضہ گروپ نے مجبوراً اور مصلحتاًقبضہ تو چھوڑ دیا لیکن یہ بھی واضح کر دیا کہ تمہیں اس زمین پر بسنا نصیب نہیں ہوگا۔ وہ بے چارہ عوام کی جان و مال کے محافظوں کے پاس گیا تو انہوں نے اس کی دادرسی کی بجائے قبضہ گروپ بنا کر اعلیٰ افسران کو رپورٹ پیش کر دی اور وہی جھوٹی رپورٹ سابق آئی جی شعیب دستگیر نے وفاقی دارالحکومت بھجوا دی۔ اصل حقائق سامنے آنے تک وہ بے کس قبضہ گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد منوں مٹی تلے جاسویا تھا۔ ان حالات میں آئی جی کی طرف سے یہ پیغام دینا کہ میں رہوں گا یا سی سی پی او‘ جلتی پر تیل کا کام کر گیا۔ آئی جی کی اہلیت اور قابلیت پر پہلے ہی سوالیہ نشان لگ چکا تھا‘ تاہم انہوں نے وفاقی حکومت کو اپنی تبدیلی کا جواز خود فراہم کر کے سرکار کی مشکل آسان کر دی۔ 
عوام کے ساتھ پولیس کا رویہ اور اس کے نتیجے میں پائی جانے والی نفرت اپنی جگہ لیکن ظالم کی مددگار اور مظلوم کیلئے دھتکار اور پھٹکار دکھائی دینے والی پولیس حقائق منظر عام پر لانے والوں سے ہمیشہ نالاں رہی ہے۔ میڈیا کو بھی پولیس کے ردعمل کے ساتھ جھوٹے مقدمات‘ دھمکیوں اور خوف وہراس کا سامنا رہتا ہے۔ اس موقع پر مجھے تقریباً ستائیس سال پرانا منو بھائی کا ایک کالم یاد آرہا ہے جس کے نتیجے میں ان کی جان اور عزت کو خطرات لاحق رہے ۔آئی جی پنجاب چوہدری سردار محمد ڈی آئی جی کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے اور کئی پولیس افسران پولیس کے حوالے سے منو بھائی کے ایک کالم بعنوان ''ایس ایس پی منہ سنگھاؤ‘‘ پر سخت برہم اور انہیں سبق سکھانے کیلئے بے تاب تھے۔ چند ایک پولیس افسران تو اس پر بھی بضد تھے کہ منو بھائی کو نشان ِ عبرت بنا دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو پولیس کے خلاف لکھنے کی جرأت نہ ہو جبکہ پنجاب پولیس کے ترجمان گلزار مشہدی ان افسران کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایسا کرنا مناسب نہ ہوگا ہمیں ان کے کالم پر اپنی وضاحت دینی چاہیے۔ آئی جی چوہدری سردار محمد اپنے افسران کے سامنے بے بس دکھائی دیتے تھے جبکہ وہ ذاتی طور پر اس جارحانہ ردعمل کے بالکل حق میں نہ تھے۔ ایسے میں ایک ڈی آئی جی نے نجانے کیسے منوبھائی کو خبر کروا دی کہ آپ کے بارے میں پولیس کے ارادے ٹھیک نہیں۔ منو بھائی نے اطلاع پاکر اوپر بات کی تو چیف سیکرٹری کا دورانِ کانفرنس آئی جی سردار محمد کو فون آگیا اور آئی جی کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ اگر کسی افسر نے منو بھائی کے حوالے سے کوئی غیر قانونی ہتھکنڈا استعمال کیا تو وہ سیدھا گھر جائے گا اور حکومت کیلئے ایسی حرکت قطعی قابلِ برداشت نہ ہوگی۔ 
منو بھائی کے اس کالم کے سیاق وسباق کی مزید وضاحت کرتا چلوں کہ اس زمانے میں پولیس کا ناکوں پر شہریوں کے ''منہ سونگھنے‘‘ پر زیادہ زور تھا جبکہ سٹریٹ کرائم سے شہریوں کی زندگی اجیرن تھی۔ اس تناظر میں منو بھائی نے لکھا تھا کہ پولیس کو امن و امان کے قیام کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرنے چاہئیں نہ کہ ساری توانائیاں ناکوں پر شہریوں کا منہ سونگھنے پر خرچ کر دی جائیں۔ اگر پولیس اس عمل کو ناگزیر سمجھتی ہے تو اس کام کیلئے علیحدہ اسامی پید اکر لی جائے جو ایس ایس پی ''منہ سنگھاؤ‘‘ ہو سکتی ہے اور یہی افسر انسداد ''بوس و کنار‘‘ کیلئے بھی کام کر سکتا ہے۔ لاہور پولیس کے سربراہ شیخ عمر پورے سچ کے ساتھ یہ حقیقت تسلیم کر چکے ہیں کہ پولیس کے خلاف نفرت کی اصل وجہ وہ پولیسنگ ہے جس کا سامنا عوام کو صبح شام تھانوں اور ناکوں پر رہتا ہے۔لگتا ہے انہیں حالات کا ادراک ہو گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں