ٹی وی چینلز اور اخبارات شہباز شریف کی گرفتاری پر تبصروں اور تجزیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اس پر کیا بات کریں؟ کیا کیا بات کریں؟ اور کب تک بات کریں؟ وقت اور مقام کی تبدیلی کے ساتھ سبھی کچھ دہرایا جا رہا ہے۔ عوام یہ نوٹنکی دیکھتے دیکھتے پتھرا چکے ہیں۔ حکومت اپنا بیانیہ بچانے کے چکر میں انہیں بھی احتساب سے بچائے جا رہی ہے جن کی اہلیت اور دیانت کافی عرصے سے معمہ بنی ہوئی ہے۔ قابلِ احتساب ہونے کے باوجود کوئی کابینہ میں پناہ گزین ہے تو کوئی منظورِ نظر ہونے کی وجہ سے ایوانِ اقتدار میں محفوظ ہے۔ کہیں رسیدوں کی تقاضا ہے تو کہیں جابجا تماشا ہے۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ اگلے تین سے چار ماہ کے دوران اپوزیشن کا صفایا ہونے کو ہے۔ یہ اُن کا گیان ہے یا محض بیان‘اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا جبکہ سراج الحق صاحب نے تو احتسابی کارروائیوں کو امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ منی لانڈرنگ میں ملوث کئی شخصیات شریکِ اقتدار ہیں‘ لیکن حکومت ان کے احتساب سے گریزاں ہے۔ اپوزیشن کی منطق ہے کہ انتخابات میں صرف 16فیصد رائے دہندگان نے اپنا فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں دیا‘ جبکہ 20.8فیصد ووٹرز نے تحریک انصاف کو مسترد کر دیا تھا۔ (ن) لیگ نے 12فیصد‘ پیپلز پارٹی نے 5.6فیصد جبکہ ایم ایم اے نے 3.2فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس تناسب سے 20.8 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی جماعتیں ایک مضبوط اور بڑی اپوزیشن کے طور پر حکومت کے سامنے مزاحمت پر آمادہ ہیں۔شہباز شریف کی اس گرفتاری نے دنیا بھر کی پارلیمانی تاریخ میں ایک انوکھا ریکارڈ ضرور بنا ڈالا ہے کہ باپ اور بیٹا بیک وقت پارلیمانی ایوانوں میں قائدِ حزب اختلاف ہوں اور دونوں ہی کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوں۔ شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ‘یہ جاننے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ دونوں طرف سے لفظی جنگ جاری رہے گی۔ تندوتیز بیانات سے لے کر شعلہ بیانیوں تک ‘ سبھی میں اضافہ تو ضرور ہوگا لیکن گلشن کا کاروبار جوں کا توں چلتا رہے گا‘ اسی لیے آج ہم اس سیاسی سرکس کا مزید حصہ بننے کے بجائے ایک مثبت کالم پر اکتفا کرتے ہیں۔
اس کالم کو مثبت کالم قرار دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اکثر احباب اور قارئین کا کہنا ہے کہ میں اپنے کالموں میں ڈپریشن پھیلانے کے علاوہ حالات کا ماتم بہت کرتا ہوں۔ ان سبھی کا اعتراض ہے کہ حالات پہلے ہی کیا کم مایوس کن ہیں کہ تم نازک صورتحال اور عوام کی حالت زار کا رونا رو کر بے یقینی اور مایوسیوں کے سائے اس قدر بڑھا دیتے ہو ۔ ایسے میں کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ کیا کریں اور کہاں جاکر سر پھوڑیں۔ میرا انہیں ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ملامتی حالات میں ماتمی کالم ہی لکھا جا سکتا ہے۔ انہی مایوس کن حالات میں چھائے گھپ اندھیرے میں جگمگاتے ہوئے کارکردگی کے ان جگنوؤں کا ذکر نہ کرنا بھی پروفیشنل بددیانتی اور کم ظرفی ہے۔ آج ہم کارکردگی کے ان جگنوؤں کا ذکر ضرور کریں گے جو مایوسیوں کے اندھیروں سے نہ صرف برسرِ پیکار ہے ہیں بلکہ کارکردگی کے چھوٹے چھوٹے انبار اس طرح لگائے جا رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں کامیابی کا یقینا بڑا پہاڑ بن سکتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے کئے گئے چند اقدامات بظاہر تو معمولی ہیں لیکن ان کے نتائج دور رس اور دیرپا ہوں گے۔ عام آدمی سے جڑے سبھی چھوٹے چھوٹے کام توجہ اور دلجمعی سے کیے جارہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو یہ چھوٹے کام بڑی کارکردگی کا سنگِ میل ثابت ہوسکتے ہیں۔سڑکوں پر صدقے کا گوشت بیچنے والے نہ صرف ٹریفک حادثات کا سبب بنتے چلے جارہے تھے بلکہ شہر میں تعفن اور آلودگی کا باعث بھی بن رہے تھے‘ ان پر پابندی لگا کر شہریوں کو ایک عذاب سے بچانا ایک احسن قدم ہے۔ اسی طرح شہر بھر میں چوراہوں اور اہم شاہراہوں پر گداگر شہریوں اور گاڑیوں پر اس طرح جھپٹتے ہیں گویا اپنا حق مانگ رہے ہوں‘ اس پر ستم یہ کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو بھی اس دھندے پر لگانے والے ٹریفک میں خلل اور حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔ ان پر پابندی کے دعوے ہر دور میں کیے جاتے رہے ہیں لیکن گداگروں سے شہریوں کا چھٹکارا کبھی میسر نہ آسکا۔ اگر بزدار سرکار یہ کام کر گئی تو نہ صرف ایک بڑا سماجی مسئلہ حل ہو جائے گا بلکہ ہمارے معاشرے کو ایک بدنما دھبے سے بھی چھٹکارا حاصل ہو سکے گا۔
اکثر شہروں میں آوارہ کتوں نے شہریوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ اس پر اقدامات شروع کر دئیے گئے ہیں‘ اسی طرح میٹرو برج اور انڈر پاسز کے قریب منشیات کے عادی افراد کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کامیابی سے جاری ہے‘ جبکہ وال چاکنگ پر پابندی اور گرین بیلٹوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ شہروں کی صفائی کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ اگر ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے تو یہ اہداف بھی بخوبی پورے کیے جاسکتے ہیں۔ کارکردگی کے ان جگنوؤں میں والڈسٹی کے ایک مہم جو افسرکا ذکر نہ کرنا بھی ناانصافی ہوگی۔ شاہی قلعہ لاہور میں400سال پرانا نکاسی آب کا نظام اصل حالت میں دریافت کرنے کا سہرا انہی کے سر ہے۔ 800میٹر طویل نالیوں میں روشنی کرنے کے انتظامات کے آثار آج بھی محفوظ ہیں۔ اس شاہکار طرزِ تعمیر نے دورِ حاضر کے ماہرین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ شاہی قلعہ میں صدیوں سے زمین کے اندر دھنسا ہوا جو سیوریج دریافت کیا گیا ہے‘ وہ آج بھی پوری طرح فعال ہے۔ نکاسی آب کا یہ منصوبہ ممکنہ طور پر دورِ جہانگیری کا شاہکار ہو سکتا ہے۔ 400برس قبل تعمیر ہونے والے نکاسی آب کا یہ نظام پوری مضبوطی کے ساتھ آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ بارشوں کے دوران قلعے سے نکاسی آب کے لیے اس نظام کو نہ صرف بھرپور طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ بارش کے بعد ٹھہرے ہوئے پانی سے قلعے کے درودیوار کو پہنچنے والے نقصان سے بھی بخوبی بچایا جاسکتا ہے۔
چلتے چلتے ایک متنازعہ لیکن قابلِ ذکر معاملہ بھی گفتگو طلب ہے۔ لاہور پولیس کے سربراہ شیخ عمر پولیس فورس میں ''کورٹ مارشل‘‘ کا نظام نہ صرف متعارف کروانا چاہتے ہیں بلکہ وہ اعلیٰ سطحی حکومتی فورمز پر بھی اس کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔ جس پر پولیس فورس میں انتہائی بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے اور اختلاف کرنے والے کہتے ہیں کہ پولیس میں جزا اور سزا کا نظام کتابوں میں درج ہے۔ آؤٹ آف باکس فیصلے قابل عمل نہیں ہوسکتے۔ دوسری طرف حقیقت حال یہ ہے کہ پولیس کے خلاف نفرت کی اصل وجہ وہ پولیسنگ ہے جس کا سامنا عوام کو صبح و شام تھانوں اور ناکوں پر ناصرف کرنا پڑتا ہے بلکہ اس کے بھیانک نتائج بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ پولیس کے خلاف نفرت کی وجہ وہ دھتکار ہے جو ہر عام آدمی کا مقدر بن چکی ہے۔حصولِ انصاف کے لیے تھانوں کے چکر لگانے والے نجانے کس کس در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد پھر اسی تھانیدار کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جو کسی کو خاک بنا دے‘ کسی کو زر کر دے۔ ظالم کو مظلوم اور مدعی کو ملزم بنانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ انصاف کے ساتھ جو کھلواڑ تھانوں میں ہوتا چلا آرہا ہے وہ کتاب میں درج سزاؤں سے ختم نہیں ہوسکتا۔ دو چار کوے ٹانگ کر اگر کوؤں کے غول سے جان چھڑوائی جاسکتی ہے تو دو چار کے بچائے دس بیس کوبھی سزادی جائے تو عوام کے حق میں یہ سودا ہرگز برا نہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو یہ بھی کارکردگی کے جگنو میں شمار ہو سکتا ہے۔