سیاسی درجہ حرارت نقطۂ عروج پر ہے بلکہ دور کی کوڑی لانے والے تو برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ میدان لگنے والا ہے اور سیاست کا بھڑکتا ہوا سورج جلد سوا نیزے پر ہوگا۔ کون غدار ہے‘ کون چور ہے‘کون اپنے بیانیے سے پھرا اور کون اپنے وعدوں سے مکر گیا؟ یہ سیاسی سرکس تو عوام کا مستقل مقدر بن چکا ہے۔ آج ہم اس سرکس کا حصہ بننے کے بجائے صرف ان عوام کی بات کریں گے جو اس سیاسی سرکس کے متاثرین ہیں۔
وزیراعظم نے مہنگائی کے جن کے خلاف ایکشن لینے کا اعلان کر ڈالا ہے۔ وزیراعظم نے یہ اعلان موٹروے پر آرام گاہوں پر زائد قیمتیں وصول کرنے والوں پر اظہار برہمی کے بعد کیا۔ وزیراعظم کی اس برہمی پر مہنگائی کا جن کہیں مزید غضبناک نہ ہو جائے‘ کیونکہ انصاف سرکار کا یہ خاصا رہا ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے جو بھی اقدامات کئے جاتے ہیں نتیجہ ہمیشہ اس کے برعکس ہی نکلا ہے۔ چینی کا نوٹس لیا تو عوام کی چیخیں نکل گئیں‘ آٹے کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا چاہا تو سارا گھاٹا عوام کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ۔ادویات کی قیمتوں پر بلند بانگ دعوے کئے تو مہنگائی کے جن کے حکومتی اعلان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے من چاہی قیمتیں مقرر کروا ڈالیں۔ تعجب ہے وزیراعظم کا چھبیس ماہ گزرنے کے بعد مہنگائی کی طرف دھیان گیا بھی تو موٹروے کے حوالے سے ... ملک بھر کے بازاروں اور گلی کوچوں میں مہنگائی کے جن نے جو تگنی کا ناچ عوام کو نچا رکھا ہے وہ آج تک نجانے کیوں اُن کی آنکھوں سے اوجھل ہے جبکہ مہنگائی کا ماتم تو گلی گلی جاری ہے۔ خیر دیر سے ہی سہی خیال تو آیا... عوام کے لیے اس سے بڑھ کر اعزاز کیا ہوگا کہ ان کا وزیراعظم مہنگائی کے خلاف ایکشن کا اعلان کر چکا ہے ‘اس ایکشن کا رِی ایکشن کیا ہوتا ہے اور مہنگائی کا جن اس اعلان پر کیا دھمال ڈالتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
زبان اور قول کی حرمت سے ناآشنا کیا جانیں کہ جب وہ عوام کے سامنے بلند بانگ دعوے کر رہے ہوتے ہیں اس وقت الفاظ بھی سراپا احتجاج ہوتے ہیں کہ ان نادانوں کو خود نہیں معلوم کہ جو الفاظ اپنے منہ سے ادا کر رہے ہیں ان کے معانی اور مفہوم کیا ہیں۔ زبان سے ادا ہونے والے ان الفاظ کا دل و دماغ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جو منہ میں آتا ہے بس کہے چلے جاتے ہیں۔ انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اُن کے بلند بانگ دعوے عوام کو نجانے کیسی کیسی خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں میں مبتلا کر ڈالتے ہیں اور کھلی آنکھ سے خوابوں کے کیسے کیسے محل سجا ڈالتے ہیں اور جب اُن کے خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو آنکھوں میں سجائے خوابوں کی جگہ کرچیاں لے لیتی ہیں۔ یہی کرچیاں ان کے نفسیات اور اعصاب کو کس طرح لہولہان کرتی ہیں‘ اس کا اندازہ تو حکمران کر ہی نہیں سکتے۔
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جب بھی پچھتایا اپنے بولنے پر پچھتایا‘ الفاظ کے اسراف سے کہیں بہترہے کہ خاموش رہا جائے یعنی جب وژن کا فقدان اور خیالات کی آمدن نہ ہو تو الفاظ کی فضول خرچی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ یہاں معاملہ وژن کے فقدان سے کہیں آگے جاچکا ہے۔ فہم کا نہ ہونا اور بات ہے۔ یہاں تو سبھی کچھ جانتے بوجھتے اپنے ہی بیانیوں اور شعلہ بیانیوں کی نفی کا ایسا سلسلہ جاری ہے کہ سننے والوں کے ہوش اُڑ جاتے ہیں کہ کیا یہ وہی حکمران ہیں جو عوام کو اچھے دنوں کے سنہری خواب دکھایاکرتے تھے۔ کیا یہ وہی سماج سیوک نیتا ہیں جو کڑے احتساب اور سماجی انصاف کا بھاشن دیا کرتے تھے۔ کیا یہ وہی نجات دہندہ ہیں جو دوپارٹی نظام کے نتیجے میں عوامی استحصال کا ماتم کیا کرتے تھے۔ کیا یہ وہی سیاسی جماعت ہے جو معاشی انقلاب کے دعوے کیا کرتی تھی۔ قیمتوں میں لگی آگ پر آگ بگولہ ہونے والے ان عوامی نمائندوں کو اسی آگ میں جلتے ‘ جھلستے عوام کیوں دکھائی نہیں دیتے؟ سابق حکمرانوں کو پولیس سٹیٹ کا طعنہ دینے والے آج پولیس ریفارمز کے نام پر کیسی کیسی ڈیفارمز کے ڈھیر لگائے چلے جارہے ہیں۔ کس کس کا رونا روئیں‘ ان کے دعووں اور وعدوں کا یا ان کی بے وفائیوں اور بدعہدیوں کا۔
تحریک انصاف کے انتخابی دعووں سے لے کر حکومت میں آنے کے بعد کیے جانے والے وعدوں اور اقدامات تک کا نصف بھی اگر سچ ہو جاتا تو بخدا صورتحال اتنی مایوس کن ہرگز نہ ہوتی۔ عوام کو روٹی کے لالے تو ویسے ہی پڑے ہوئے تھے۔اب تو روٹی پوری کرتے ہیں تو یوٹیلٹی بلز دیکھ کر بلبلا اُٹھتے ہیں۔ ادویات کی قیمتیں پہنچ سے دور پاکر اکثر مریض خود کو یہ دلاسا دیتے بھی دکھائی دئیے ہیں کہ ''دوائی نہ وی کھاواں گے تے کی ہوئے گا‘ موت تے اپنے وقت تے ای آؤنی اے‘‘۔ یعنی ادویات بھی مریضوں کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔
دھرنوں اور حالیہ عام انتخابات کے دوران انتخابی نغمے اس جوش اور ولولے سے بجائے جاتے تھے گویا جنگی ترانے سنائے جا رہے ہوں اور عوام ان کے سحر میں مبتلا ہوگئے۔ چھ ماہ قبل وزیراعظم صاحب کا ایک انقلابی اعلان بھی بے اختیار یاد آرہا ہے کہ: ''اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا اور انصاف سرکار 25ہزار سے کم آمدن والوں کی راشن کی خریداری میں معاونت کرے گی‘‘۔ مگر یہ ہو نہ سکا اور عوام کی حالتِ زار بیان کرنے کے لیے ان اشعار سے بہتر سہارا اور استعارہ کیا ہو سکتا ہے:
نجانے کب سے بیٹھی ہوں
جلا کر آگ چولہے میں
بڑے سے دیگچے میں پھر
بہت سا پانی ڈالا ہے
کبھی چمچ چلاتی ہوں
کبھی ڈھکن ہٹاتی ہوں
مگر پتھر نہیں گلتے
میرے سب بچے بھوکے ہیں
مجھے بھی بھوک کھاتی ہے
نہ سالن ہے نہ روٹی ہے
فقط پتھر ہی باقی ہیں
پکانے کا سلیقہ ہے
بہت آساں طریقہ ہے
مگر پتھر نہیں گلتے
سنا ہے دور وہ بھی تھا
خلیفہ خود نکلتا تھا
کوئی بھوکا‘ کوئی پیاسا
اگر اس رات ہوتا تھا
بھرا گندم سے اک تھیلا
کمر پر لاد لاتا تھا
یہاں کوئی نہیں آتا
نجانے کب سے بیٹھی ہوں
مجھے جو بھی میسر ہے
میں بچوں کو کھلا تو دوں
مگر پتھر نہیں گلتے
ریاستِ مدینہ کو ماڈل بنا کر برسرِ اقتدار آنے والوں نے اُن خلفائے راشدین کو فراموش کر ڈالا جن کے طرزِ حکمرانی کا پرچار وہ کنٹینر پر کیا کرتے تھے۔ کارخانوں کا جال بچھانے کے دعویداروں نے عوام کو لنگر خانوں کا راستہ دکھانا شروع کر دیا۔ نئی تاریخ رقم کرنے والے ملک و قوم کی رقمیں کہاں لگا رہے ہیں‘ یہ وہ جانتے ہیں یا رب جانتا ہے۔ ذاتی رفقا اور مصاحبین پر مشتمل حکومتی ٹیم کی وجہ سے گورننس شرمسار تو میرٹ تار تار دکھائی دیتا ہے۔ اکثریت کی اہلیت اور قابلیت تاحال نامعلوم ہے۔ بیان بازی سے لے کر زبان درازی تک ایک سے بڑھ کر ایک پایا گیا۔ کئی ایک کی شعلہ بیانی کے شعلوں نے وہ کام کردکھایا کہ صاف نظر آتا تھا کہ ''اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ ۔ غیر منتخب ذاتی رفقا اور مصاحبین کے انتخاب سے لے کر اُن کے مشوروں اور فیصلوں تک کے نتیجے میں حکومت کو کئی بار سبکی کا سامنا بھی رہا ہے... ہر سبکی کے بدلے تھپکی دے کراُن کے حوصلے اور عزائم بلند ہی رکھے گئے!
جب وژن کا فقدان اور خیالات کی آمدن نہ ہو تو الفاظ کی فضول خرچی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ یہاں معاملہ وژن کے فقدان سے کہیں آگے جاچکا ہے۔ فہم کا نہ ہونا اور بات ہے۔ یہاں تو سبھی کچھ جانتے بوجھتے اپنے ہی بیانیوں اور شعلہ بیانیوں کی نفی کا ایسا سلسلہ جاری ہے کہ سننے والوں کے ہوش اُڑ جاتے ہیں۔