وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے میری نیندیں اُڑا کر رکھ دی ہیں اور یہ کہ جب عام آدمی کو تکلیف پہنچتی ہے تو میں خود کو بڑی تکلیف میں محسوس کرتا ہوں۔ انہوں نے قوم کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے یہ خوشخبری دی ہے کہ ملک کو طاقتور بناؤں گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قومیں کپاس اور کپڑا بیچنے سے نہیں تعلیم پر خرچ کرنے سے بنتی ہیں۔ مریم نواز کا دعویٰ ہے کہ حکومت جنوری سے پہلے چلی جائے گی جبکہ وفاقی وزیراطلاعات شبلی فراز نے خبر دی ہے کہ 15 جنوری تک نواز شریف جیل میں ہوں گے۔ اسی طرح نواز شریف کو واپس لانے کیلئے فیصل واوڈا کو بھی لندن سے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی اہم راز افشا کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عوام کی خدمت حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ان سبھی بیانیوں کو دیکھ کر نجانے کیوں مرزا غالب کا ایک مصرع بے اختیار یاد آگیا ع
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد شہزاد اکبر صاحب کی کثرت بیانی پر بھی نہ صرف کئی سوالات کھڑے ہو چکے ہیں بلکہ عدالتِ نے تو ان کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دے ڈالا ہے۔ درجنوں مائیک سامنے سجائے سابق حکمرانوں کی کرپشن پر روزانہ کی بنیاد پر اَپ ڈیٹ دینے والے مشیر احتساب کو صدر مملکت کا وہ بیان بھی یاد ہو گا جو انہوں نے تین ماہ قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا کہ نیب کو مالم جبہ‘ بلین ٹری اور بی آر ٹی جیسے منصوبوں کی تحقیقات بھی کرنا چاہئیں۔ صدرِ پاکستان کی اس خواہش کا ضرور احترام کیا جانا چاہیے اور عرصہ دراز سے زیرِ التوا ان کیسز پر فوری کارروائی شروع کر کے اس تاثر کی نفی کرنی چاہیے کہ احتساب صرف اپوزیشن کا ہی ہو رہا ہے۔
حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے ‘ سبھی غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر اصرار اور ضد سے سُبکی اور جگ ہنسائی کا سامان کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کے فیصلوں اور اقدامات کی قیمت عوام نے کب اور کہاں کہاں ادا نہیں کی؟ بدترین طرزِ حکمرانی میں ایک دوسرے کے ریکارڈ توڑنے کی دھن میں یہ سبھی سرپٹ دوڑے چلے جاتے ہیں۔ بھیڑ ‘بکریوں اور مرغی‘ انڈے سے معیشت کو سنبھالا دینے کا فارمولا پیش کرنے والے سربراہ حکومت کو یہ احساس تو ہوا کہ قومیں کپاس اور کپڑا بیچنے سے نہیں تعلیم پر خرچ کرنے سے بنتی ہیں ‘دیر آیددرست آید۔ منزل پہ پہنچنے کے لیے رفتار بھلے کچھ بھی ہو لیکن سمت کا درست ہونا ضروری ہے۔ عوام کی تکلیف کا احساس انہیں یقینا ہوگا لیکن جب تک یہ احساس عوام کے چولہوں تک نہیں پہنچتا اس وقت تک یہ احساس اور یہ خیال بیانات اور تقاریر ہی میں بھٹکتا رہے گا۔ نجانے قبولیت کی وہ کونسی گھڑی تھی کہ ادھر ذوالفقار علی بھٹو کے منہ سے الفاظ نکلے ادھر عوام کا مقدر بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ایٹم بم کے کریڈٹ کے اصل حقدار سر آنکھوں پر‘ لیکن نام نہاد چورن بیچنے والے بھی کہیں پیچھے نہیں رہے۔ ایٹمی طاقت بنانے کا چورن بیچنے والوں نے فارن کرنسی اکاؤنٹس پر نہ صرف شب خون مارا بلکہ قرض اُتارو ملک سنوارو جیسی واردات کے ذریعے اپنا کیا کچھ نہیں سنوارا‘ نہیں سنورے تو تاحال عوام کے نصیب نہیں سنورے۔ پتہ نہیں کب سنوریں گے؟
اچھے دنوں کی آس میں عوام نجانے کن کن کو آزماتے رہے‘ پہلے سے بڑا دھوکہ کھا کر بھی کبھی سبق نہیں سیکھا بلکہ مزید دھوکوں اور جھانسوں کے لیے دوبارہ تازہ دم ہو کر انہیں کو ووٹ دینے پہنچ جاتے۔ ہر بار‘ ہر نجات دہندہ‘ نادہندہ اور ناموافق ہی ثابت ہوا۔ جہاں بھٹو کے منہ سے نکلے الفاظ قوم کا مقدر بنتے چلے گئے وہاں ہر حکمران نے ایٹمی قوم سے اس اہلیت کا تاوان برابر وصول کیا اور قوم کو گھاس پھونس پر ہی رکھا۔ تاوان اور بھتہ دینے والے عوام اپنے نجات دہندوں کو ووٹ بھی پوری تابعداری سے دیتے رہے۔ پیپلز پارٹی نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا‘پرویز مشرف نے ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا لیکن پرائی جنگ کا ایندھن بننے کی دھن میں کافی کچھ لٹا بیٹھے۔ اس جنگ میں کتنے ہی پاکستانی مرد و زن امریکہ کو پیش کر کے نہ صرف اپنی اطاعت گزاری کا جھنڈا بلند کیا بلکہ منہ بھی ہیرے اور موتیوں سے بھروا لیا‘مگراس جنگ کا جو شدید ردِعمل ملک و قوم نے بھگتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔اگر اس پر قلم آرائی کرنا شروع کر دوں تو حرف حرف لہو‘ سطر سطر بارود‘ اور سارا کالم ہی دہشت اور بربریت کا نمونہ نظر آئے گا۔
اپنے کالموں میں اکثر حکمرانوں کی ''مردم شناسی‘‘ کا رونا روتا ہوں۔ اگر حکمران مردم شناس نہیں تو عوام کون سے بندہ شناس ہیں‘ وہ بھی تو ایک ہی بندے اور ایک ہی ایجنڈے سے کتنی دہائیوں سے لٹتے اور پٹتے چلے آرہے ہیں۔ انہیں کو ن سی ہوش ہے کہ ایک مرتبہ غلطی کرنے کے بعد‘ ایک مرتبہ دھوکہ کھانے کے بعد‘ دوسری مرتبہ حق رائے دہی استعمال کرتے وقت اپنی حالتِ زار اور ان حکمرانوں کی نیتوں پر لمحہ بھر تو غور کر لیتے۔ ہر بار بلکہ بار بار کئی دہائیاں ایک کے بعد دوسرا‘ دوسرے کے بعد وہی پہلا‘ اور اس کے بعد اس کا پیش رو‘ اس طرح یہ میوزیکل چیئر چلتی رہی اور لٹنے لٹانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ نواز شریف ہوں یا بے نظیر‘ پرویز مشرف ہو ں یا آصف علی زرداری سبھی اس میوزیکل چیئرمیں برابر گیم پلے کرتے رہے۔
اسی طرح انصاف سرکار نے برسرِ اقتدار آتے ہی ''نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا تو عوام جھوم اُٹھے کہ جب آئے گا عمران‘ سب کی جان‘ بڑھے گی اس قوم شان‘ بنے کا نیا پاکستان اور وہ دو پارٹیوں کی اجارہ داری اور ملی بھگت سے آزاد ہو کر سکھ کا سانس لیں گے‘ مگر نیا پاکستان کیا بننا تھا عوام تو پرانے کو بھی ترس گئے ہیں۔ دھرنوں اور انتخابی جلسوں میں جو دعوے اور وعدے کیے گئے تھے وہ سبھی انتخابی نعرے ثابت ہوئے۔ نہ آئین اور قانون کا راج نافذ ہو سکا‘ نہ کہیں میرٹ نظر آیا‘ اور نہ ہی ان سے گورننس ہو سکی۔ سماجی انصاف اور معاشی انقلاب بھی دھرے کا دھرا رہ گیا۔ انصاف سرکار بھی سابق حکمرانوں کے سبھی ریکارڈ‘ ریکارڈ مدت میں توڑتی نظر آتی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی اپنے قائد عمران خان کی طرح گرانی پر بے چین نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ وزرا کو بازاروں میں مہنگائی کا جن بوتل میں بند کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے جبکہ وزیر صحت یاسمین راشد کو صوبائی دارالحکومت میں پرائس کنٹرول کمیٹی کا انچارج بنا دیا گیا ہے۔ انہیں یہ ٹاسک یقینا ڈینگی اور کورونا سے بچاؤ کے اقدامات اور صحت عامہ میں شاندار کارکردگی کے بعد ہی دیا گیا ہوگا۔شاید وہ مہنگائی کا جن بھی بوتل میں بند کر ہی ڈالیں۔ اس موقع پر برادرم شعیب بن عزیز کا مشہور زمانہ شعر نجانے کیوں یاد آگیا ہے۔ ؎
مرے لاہور پر بھی اک نظر کر
تِرا مکہ رہے آباد مولا