جس حکومت میں دو درجن سے زائد مشیر غیرمنتخب ہوں اور اہم ترین فیصلہ سازی ان کے ایجنڈوں اور مشوروں کے گرد گھومتی ہو اس کے وزرا کا ہوشربا مہنگائی پر پھٹ پڑنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مہنگائی پر واویلا کرنے والے وزرا عوام کے درد میں نہیں پھٹے۔ یہ ان کپڑوں کو بچانے کے لیے پھٹے ہیں جن کے پھٹنے کا اندیشہ ان سبھی کو لاحق ہے۔ انہیں اپنے حلقہ انتخاب میں اس لیے گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے کہ نہ جانے کب کوئی راستہ روک کر پوچھ لے کہ تم بیش قیمت جھنڈا لگی گاڑی پر مہنگے برانڈ کی پوشاک پہنے ہوئے کیسے اترائے پھر رہے ہو اور یہاں ہمیں روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کہاں گئے تمھارے وعدے‘ دعوے اور وہ سبھی بھاشن جو تم صبح شام دیا کرتے تھے؟ کیا یہی ہے وہ خوشحالی جس کا دلفریب جھانسہ دے کر تم نے ہم سے ووٹ مانگے تھے۔ ان کے طرزِ حکمرانی سے لے کر من مانی تک‘ بیان بازی سے رنگ بازی تک‘ سڑکوں اور گلیوں کی صفائی ستھرائی سے لے کر ہاتھ کی صفائی تک‘ کورونے سے لے کر حالات کے رونے تک‘ قانون سے لے کر سماجی انصاف تک‘ سماجی اقدار سے لے کر اخلاقی قدروں تک‘ دروغ گوئی سے لے کر فروغ بیانی تک‘ سُبکی سے لے کر پسپائی تک‘ رُخ سے لے کر پیکر تک‘ خود نمائی سے لے کر خود پرستی تک‘ موقع پرستی سے لے کر شخصیت پرستی تک‘ مکّاری سے لے کر سہولت کاری تک‘ گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ اداؤں سے لے کر خطاؤں تک‘ آٹے کے گھاٹے سے لیے کر چینی کے زہر اور پٹرول کی چھترول تک‘ حزبِ اختلاف سے لے کر حزبِ اقتدار تک‘ منتخب سے لے کر غیر منتخب تک‘ خیال سے لے کر تکمیل تک‘ خواب سے لے کر تعبیر تک‘ یوٹیلٹی بلوں سے لے کر عوام کی بلبلاہٹ تک‘ سبھی موضوعات ایسے ہیں جن پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔
جہاں حکمرانوں کی اہلیت معمہ اور قابلیت نامعلوم ہو۔ ہر طرف مایوسی، بددلی اور بے یقینی ڈیرے جمائی بیٹھی ہو۔ کہیں حالات کا ماتم ہو تو کہیں اندیشوں اور وسوسوں کے اندھے گڑھے منہ کھولے ہوں۔ جہاں ذاتی رفقا اور مصاحبین پائوں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے چلے جاتے ہوں۔ جن مشیروں کی وجہ تقرری بتانے سے حکومت قاصر ہو۔ عدالت ان کی گورننس پر آئے روز سوال اٹھا دیتی ہو۔ طرز حکمرانی سرکس کا سماں پیش کرتا ہو اور اعلیٰ عدالتوں کو یہ باور کروانا پڑے کہ وزیر اعظم کا معاون وہی ہو سکتا ہے جو متعلقہ شعبہ میں مہارت رکھتا ہو۔ وہاں کون جانتا ہو گا کہ نا معلوم مہارت اور صفر کارکردگی کے ساتھ کب تک عوام کو بہلایا جا سکتا ہے؟
میرے سمیت سبھی جانتے ہیں کہ انصاف سرکار روزِ اوّل سے دو ٹیموں کے ساتھ معاملات چلا رہی ہے۔ ایک ٹیم ان منتخب نمائندوں کی ہے جو عوام کا ووٹ لے کر ایوانِ اقتدار میں آئے جبکہ دوسری ٹیم ذاتی رفقا اور مصاحبین پر مشتمل ہے جن میں اکثریت کی اہلیت اور قابلیت نامعلوم اور کارکردگی بھی نامعلوم ہی ہے۔ ہر کسی کو ایک سے بڑھ کر ایک پایا گیا۔ کئی ایک کی شعلہ بیانیوں کے شعلوں نے وہ کام کر دِکھایا کہ یوں محسوس ہوتا ہے گویا ''اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔ بیشتر شریکِ اقتدار ایسے ہیں جن کا تحریک انصاف کی سیاستی جدوجہد میں کبھی کوئی کردار نہیں رہا‘ لیکن وہ اہم فیصلوں اور پالیسیوں پر بدستور اثر انداز نظر آتے ہیں گویا ''منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘۔
حواس گم کر دینے والی ایسی ایسی خبر صبح شام دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے جو دن کا چین اور رات کی نیند حرام کر دیتی ہے۔ کہیں گورننس بانجھ نظر آتی ہے تو کہیں میرٹ اپاہج دکھائی دیتا ہے‘ کہیں قول کی حرمت پامال ہے تو‘ کہیں عمل تضادات کا شکار‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک سب تماشادکھائی دیتا ہے۔ ''منٹ دی ویل نئیں تے ٹَکے دی سیل نئیں‘‘ کے مصداق زبانی جمع خرچ کے ساتھ گمراہ کن اعدادوشمار کا گورکھ دہندہ جاری ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مسلسل باریوں اور طویل اجارہ داری کو مسترد کرکے عوام نے تحریکِ انصاف کو کیا اسی لیے مینڈیٹ دیا تھاکہ ان کے حالات بد سے بدتر ہوتے ہوتے عذابِ مسلسل کا منظر پیش کرنے لگیں۔
مشیروں کی وزارتوں میں بے جا مداخلت اور متعلقہ وزیر یا انچارج کو ''بائی پاس‘‘ کرنے سے کنفیوژن اور ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ یہ ابہام نہ صرف وزارتوں میں گروپنگ کا باعث بن رہا ہے‘ بلکہ اہداف کی حصول میں رکاوٹ کا موجب بھی ہے۔ کئی ایسی وزارتیں ہیں جن میں وزیر ایک اور چلانے والے کئی ایک ہیں‘ جبکہ مشیروں کا کام مشورے اور فیڈ بیک تک محدود ہونا چاہیے نہ کہ وزارت کے افسران کو براہِ راست ہدایت دینا اور وزارت کے معاملات میں مداخلت کرنا۔ ایسے میں وزارتوں میں تعینات افسران غیر اعلانیہ گروپ بندی کا شکار ہو جاتے ہیں‘ اور ساری توانائیاں اور صلاحیتیں ''پوائنٹ سکورنگ‘‘ کی نذر ہو جاتی ہیں۔
مردم شناسی ایک ایسا ہنر اور ایسی صلاحیت ہے جو انسان کی سو خامیوں پر پردہ ڈال سکتی ہے۔ کسی حکمران میں اگر سو خوبیاں ہوں لیکن مردم شناسی نہ ہو تو ساری خوبیاں کس کام کی؟ کسی لیڈر یا حکمران کا اصل کام اہداف کے حصول کیلئے موزوں ترین شخص کا انتخاب ہے یعنی ''رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کے تصور کو قائم رکھنا ہی کسی لیڈر کی کامیاب حکمتِ عملی ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی شخص‘ چاہے وہ حکمران ہو یا لیڈر‘ سارے کام خود نہیں کر سکتا‘ ہر کام میں اس کی مہارت ممکن نہیں۔ اس کی اصل کامیابی اُس ٹیم کی تشکیل ہے جو اپنے لیڈر کے ویژن اور ایجنڈے کی عملی تصویر بن کر آ سکے۔ وطن عزیز کو آج تک ایسا کوئی حکمران نصیب نہیں ہوا جو مردم شناسی کا ہنر جانتا ہو۔ ذاتی مفادات اور خواہشات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل اور تکمیل کے لیے انہیں ذاتی رفقا اور مصاحبین کے سوا کچھ دِکھائی نہیں دیتا۔
جو احتساب تحریکِ انصاف کا فخریہ بیانیہ تھا وہ اب منہ چھپائے پھر رہا ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کی کسی اہم شخصیت کی گرفتاری عمل میں آئی‘ اُدھر تحریک انصاف نے کہیں دھمال ڈالی تو کہیں پریس کانفرنس کرڈالی۔ ان پریس کانفرنسز میں اگلے اہداف کی پیشگوئیوں سے بھی گریز نہ کیا جاتا۔ گویا سارا احتسابی عمل بس اپوزیشن تک محدود رہے گا‘ حکمران تو سارے دودھ کے دُھلے بیٹھے ہیں۔ روزِ اوّل سے لمحہ موجود تک ان کے مسائل اور حالات جوں کے توں ہیں۔ نجانے یہ آسیب اس ملک و قوم کی قسمت میں کیوں ہے؟ انہیں عوام کا کوئی درد ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے استحکام سے کوئی سروکار۔ حکومتِ وقت کو ''ٹف ٹائم‘‘ دینے کے لیے کبھی لانگ مارچ کیے گئے‘ کبھی تحریک نجات چلائی گئی تو کبھی دھرنوں میں ایسی دھمال ڈالی گئی کہ کچھ نہ پوچھئے... یوں لگتا تھا‘ کوئی نجات دہندہ اُتر آیا ہے اور قدرت نے عوام کی مشکل کشائی کا فیصلہ کر لیا ہے‘ اب جلد ہی عوام کے دن پھر جائیں گے۔ تبدیلی کا سونامی تو زوروشور سے آیا لیکن نہ تو عوام کے دن پھرے اور نہ ہی ان کی قسمت بدلی۔ قانون کی حکمرانی قائم ہو سکی اور نہ ہی سماجی انصاف اور گڈ گورننس۔ میرٹ کا جو حشرنشر ہوا اس کی ماضی میں کہیں مثال نہیں ملتی۔
شریف برادران کی جس کرپشن کا ڈھول کنٹینر پر کھڑے ہوکر بجایا جاتا تھا‘ وہ آج بھی جوں کا توں جاری ہے۔ دوسال بیت چکے‘ اپنی ہر ناکامی اور بدترین طرز حکمرانی کا جواز پیش کرنے کی تان شریف برادران پر آکر ہی ٹوٹتی ہے۔ انصاف سرکار کے تمام دعوے اور چیلنجز اس کے اپنے قد سے بڑے ثابت ہوئے؛ تاہم کابینہ کے اجلاس میں پھٹ پڑنے والے وزرا جہاں مہنگائی کے جن کے آگے خود کو بے بس تصور کرتے ہیں‘ وہاں اپنے حلقۂ انتخاب میں جانے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ ایک طرف جن ہے اور دوسری طرف وہ عوام ہیں جس کی آنکھیں ان کے انتظار میں پتھرانے کو ہیں۔ جن سے اگر بچ گئے تو عوام کی جواب طلبی سے کون بچائے گا؟ جبکہ کابینہ میں شامل سبھی مشیر اس خوف سے بے نیاز ہیں۔