یہ کیسا خطہ ہے‘ اس میں بسنے والوں نے کیسا نصیب پایا ہے‘سالہا سال گزر جائیں‘کتنی ہی رتیں بیت جائیں‘کتنے ہی موسم تبدیل ہو جائیں‘کتنے ہی حکمران بدل جائیں‘لیکن عوام کی سیاہ بختی کسی صورت کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ روزِاول سے لمحۂ موجود تک‘ سانحات اور صدمات قوم کا مقدر بنے چلے آرہے ہیں۔ حالات کا ماتم جوں کا توں ہے۔عوام کی مت مارنے سے خواص کا ضمیر مارنے تک کیسی کیسی واردات صبح و شام‘ جا بجا اور ہر سو ‘کس قدر ڈھٹائی سے کھلے عام جاری ہے۔ بوئے سلطانی کے مارے ہوئے سیاستدانوں کا سایہ اس ملک پر کسی آسیب سے کم ثابت نہیں ہوا۔یہ آسیب کیا کچھ نہیں کھا گیا‘نیت سے لے کر معیشت تک‘سماجی انصاف سے لے کر آئین اور قانون تک‘میرٹ سے لے کر گورننس تک ‘روا داری سے وضع داری تک‘تحمل و برداشت سے لے کر بردباری تک‘ سبھی کچھ تو تہ و بالا ہوچکا ہے۔ دورِ ضیاء الحق میں لگائی گئی یہ پنیریاں برق رفتاری سے خاردار جنگلی بیل میں تبدیل ہوتے ہوتے سسٹم کو کس بے رحمی سے اپنی لپیٹ میں لیتی چلی گئیں‘کسی کو پتا ہی نہ چل سکا اور نہ ہی کسی کو کبھی ہوش آیا۔
جنرل آصف نواز جنجوعہ نے جب کراچی میں آپریشن شروع کیا تو سب سے پہلے حاکمِ وقت‘ جناب نواز شریف کو اپنے اقتدار کے لالے پڑ گئے تھے‘ عقوبت خانوں کی دلخراش داستانیں جب منظر ِ عام پر آئیں تو ہر دردِ دل رکھنے والا لرز کر رہ گیا‘نہیں لرزے تو مجبوریوں اور مصلحتوں کے مارے سیاستدان نہیں لرزے‘کیسا کیسا انمول ہیرا اس دور کی ایم کیو ایم کے غضب کا نشانہ نہیں بنا۔ کیسی کیسی قد آور شخصیات کی آواز ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی اور پھر جعلی بیمار اور اب وطن دشمن قوم پرست رہنما کو کس طرح ملک سے فرار کروایا گیا‘اس درد ناک ماضی کو کون بھلا سکتا ہے۔
کراچی کے عوام کو سلام‘ جنہوں نے کئی دہائیوں تک اس عذابِ مسلسل کو جھیلا۔ سیاسی مصلحتیں ہوں یا اقتدار کی بھوک‘ ہر حکمران نے اس ناسور کو گلے سے لگایا اور جو ظلم کمایا‘ وہ آج سب کے سامنے ہے۔ ماضی کے سارے حکمران اس کے شریکِ جرم ہیں‘ جن کا ایک ایک فیصلہ کراچی کے معصوم عوام کے خون کے چھینٹوں سے تر ہے۔ کتنا خون بہایا گیا؟ کتنی ماؤں کی گود اُجاڑی گئی؟ کتنے سہاگ دن دہاڑے خون میں نہلائے گئے؟ کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے؟ کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگایا گیا؟ نواز شریف ہوں یا بے نظیر‘پرویز مشرف ہوں یا آصف علی زرداری‘ کراچی کی بربادی اور تباہی کے ذمہ دار ہیں، سبھی کے ہاتھ کراچی کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔
بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ جس خطے اور وطن کی آزادی کے لیے وہ اتنی جدوجہد اور صعوبتیں برداشت کررہے ہیں ‘آزادی کے بعد اس وطنِ عزیز کی تین چار دہائیاں تو بوئے سلطانی اور ہوسِ زر کے مارے ہی کھا جائیں گے۔بوئے سلطانی اور ہوسِ زر کے ماروں نے اس ملک کی جڑوں کو کب اور کیسے کھوکھلا نہیں کیا۔ بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ تقسیم ِہند کے وقت خاک اور خون کی دردناک داستان یہ سبھی اتنی آسانی سے فراموش کرکے بے حسی کا پہاڑ بنتے چلے جائیں گے؟ سفارش اور سازش کے تحت کوئے اقتدار میں آنے والے میرٹ پر فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ بے نقاب اور بے لباس ہوچکے ہیں۔ برطانیہ میں بیٹھ کرملکی سالمیت اور ملکی ادروں کے وقار کو نشانہ بنانے والے یہ نام نہاد نیتا مکافاتِ عمل کی چکی کے پاٹوں کے درمیان آچکے ہیں۔ بابائے قوم کو کیا خبر تھی کہ پاکستان کی خالق سیاسی جماعت کا نام اس طرح ڈبو دیا جائے گا۔ پاکستان کی تخلیق سے لے کر بقا اور سالمیت کی علامت یہ جماعت ایسے ایسوں کے ہتھے چڑھ جائے گی جو حصولِ اقتدار سے کر طول اقتدار تک‘اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے سے لے کر وسائل کو بھنبھوڑنے تک‘ ملکی سلامتی دائو پر لگانے سے لے کربھارت کے مذموم عزائم کی تکمیل تک‘ سبھی کچھ اتنی ڈھٹائی اور آسانی سے کرسکتے ہیں کہ غیرتِ قومی کا جنازہ ہی نکل جائے۔
حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ ایاز صادق کے خاندانی پس منظر سے لے کر زبان و بیان تک‘ سبھی واقفِ حال حیرت زدہ ہیں کہ ان پر کیا افتاد آن پڑی‘ کیا وہ اپنے قائد نواز شریف کو آئیڈیل بنا چکے ہیں؟ قائد کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش ہو یا دماغی خلل‘ میرے نزدیک یہ دونوں صورتوں میں ناقابلِ برداشت اور وطن دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔ کوئی میر صادق سے منسوب کررہا ہے تو کوئی میر جعفر سے۔ ہزار کوشش اور جتنوں کے باوجود جب الطاف حسین اور نواز شریف جیسے اس ملک کی سالمیت اور ریاستی اداروں کے وقار کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو ایاز صادق کی کیا اوقات؟ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ!
ہمارے ہیرو ایم ایم عالم اورراشد منہاس شہید کے پیروکار حسن صدیقی جیسے جانباز کی لپک اور جھپٹ سے حملہ آور کیسے بچ نکل سکتا تھا۔سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی کا نام بھی پاک فضائیہ کے ان ہیروز میں شامل ہو گیا ہے جو وطنِ عزیز کے نا قابل تسخیر دفاع کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے پائلٹ عسکری حکمت عملی میں سبجیکٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلِ بے پایاں سے ہماری مسلح افواج بالخصوص پاک فضائیہ کے شاہین دنیا بھر کی ایئرفورسز میں ممتاز اور غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ایئر فائٹرز تصور کیے جاتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ کیا ہوا؟کیسے ہوا؟اور ہماری ایئر فورس نے بھارتی جارحیت کا قرض کس طرح چکایا؟ یہ واقفانِ حال یا خود بھارت ہی جانتا ہے۔نہیں جانتے تو عقل کے اندھے ہی نہیں جانتے۔ابھینندن کی حوالگی کو پاکستان کی کمزوری ثابت کرنے کی دھن میں ہوش گنوانے والے نواز شریف ہوں یا ایاز صادق سمیت کوئی اور‘پاک فوج کے وقار پر حملہ ملکی سالمیت پر کھلی جارحیت کے مترادف ہے۔ان حالات میں پاک فوج کی طرف سے برداشت ‘تحمل اور بردباری کے مظاہرے کو کمزوری تصور کرنے والے احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔سات سمندر پار یہ جنت بسانے والے احمق ہوں یا اندرونِ ملک ان کے پیروکار‘ان سبھی پر مزید گفتگوکے لیے الفاظ کے قحط کا سامنا ہے۔اپنے جذبات کے اظہار اوران کی جفائوں کی داستان بیان کرنے کے لیے افتخار عارف کے ان اشعار سہارا لینے پر مجبور ہوں جو حسب ِ حال بھی ہیں۔
یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں‘ وہیں کے نہیں
جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پھر کہیں کے نہیں
وفا سرشت میں ہوتی تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر! ترے لوگ بھی اب ترے نہیں
میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جو سب ترے نظر آتے ہیں‘ سب ترے نہیں
چلتے چلتے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ڈھول کا پول کھل چکا ہے۔ آنے والے وقت میں کب کون نواز شریف کے بیانیے سے لاتعلقی کااعلان کرتا ہے اور (ن) لیگ کیا نئی شکل اختیار کرتی ہے‘ متوقع صورتحال میں کیسے کیسے‘ ایسے ویسے اور ایسے ویسے‘ کیسے کیسے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔خدا خیرکرے میرے آشیانے کی!