"AAC" (space) message & send to 7575

دنیا دُکھوں کا گھر

گوتم بدھ نے ترکِ دنیا کرتے ہوئے یونہی نہیں کہا تھا کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔ دکھوں کی اس بستی میں بسنے والے گوتم بدھ جیسی بے نیازی اور جرأت کا مظاہرہ تو ہرگز نہیں کر سکتے۔ آلام و مصائب ہوں یا دنیا کے دوسرے جھمیلے سبھی دُکھوں کی مختلف شکلیں ہیں۔ حضرتِ انسان تو اس جہانِ فانی میں پہلا سانس لیتے ہی یوں بلک بلک کے روتا ہے گویا احتجاج کر رہا ہو کہ اسے ایسے کھیل کا حصہ کیوں بنایا جا رہا ہے جس میں نہ اس کی مرضی شامل ہے اور نہ ہی اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھا گیا ہے‘ نہ ملک مرضی کا‘ نہ ماں باپ اور بہن بھائی... نہ حالات پسند کے اور نہ ہی وسائل پر کوئی اختیار۔
ناروے‘ کینیڈا سمیت دیگر فلاحی ریاستوں میں پیدا ہونے والوں کے شب و روز اور وسائل کا موازنہ ترقی پذیر ممالک میں پیدا ہونے والے حضرتِ انسان سے کیونکر ممکن ہے۔ وطنِ عزیز کو ہی لے لیجئے۔ اس مٹی پر پیدا ہونے والا ہر بچہ پہلے سانس پر غالباً اس لیے روتا اور بلکتا ہے کہ وہی دو ہاتھ‘ وہی دو ٹانگیں‘ وہی آنکھیں‘ وہی ناک‘ وہی چہرہ‘ وہی دماغ‘ وہی احساسات‘ جو دنیا بھر کے ذی روح دنیا میں ساتھ لے کر آتے ہیں تو پھر میرے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں کہ ایسی جگہ مقدر بنی جہاں پہلا سانس لیتے ہی قرضے کا پہاڑ میرے سر پر آن موجود ہوتا ہے۔ مجھے تو اپنی خبر نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہونا اور میرا کیا بننا ہے۔ اس قرضے سے میرا کیا لینا دینا جو میرے پیدا ہونے سے پہلے لیا گیا؟ میرا کیا قصور جو مجھے کسی فلاحی مملکت میں پیدا کرنے کے بجائے یہاں بھیج دیا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ زندگی کی ہر بازی تو پیدا ہوتے ہی ہار چکا ہوں۔ زندگی کے اس امتحان میں میرا امتحانی پرچہ کس قدر مشکل‘ کٹھن اور دشوار ہے جبکہ فلاحی مملکت میں پیدا ہونے والوں کا امتحانی پرچہ یکسر مختلف کیوں ہے۔ میرا حساب اور زندگی بھر کا عذاب دوسروں کے حالات اور وسائل سے یکسر مختلف کیوں ہیں؟ اس فلسفۂ حیات کے سمندر کی مزید گہرائی میں اترنا قدم اور قلم دونوں کی لغزش کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ لغزش اختلافِ رائے سے شروع ہو کر مزاحمت اور فتووں تک بھی جا سکتی ہے؛ تاہم منیر نیازیؔ کے اس شعر پر ہی اکتفا کرتے ہیں: ؎
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے 
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے 
بات ہو رہی تھی وطن عزیز میں پیدا ہونے اور واجب الادا قرضوں کی۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ اُن بیرونی قرضوں کا حصہ دار اور مقروض ہی پیدا ہوتا ہے جس میں اس کی نہ تو کوئی رضا شامل تھی اور جس سے اسے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہے۔ بیرونی قرضوں کا پہاڑ بنانے والے حکمران اپنی دنیا سنوارنے کے لیے بے تحاشا قرضے تو لیتے ہی رہے لیکن جن منصوبوں کے لیے یہ قرضے حاصل کیے گئے ان منصوبوں کو بھی اپنے مفادات کے گرد ہی گھماتے رہے یعنی ''آم کے آم...گٹھلیوں کے دام‘‘۔ اس حوالے سے چند ہوش اُڑا دینے والے چشم کشا حقائق پیش خدمت ہیں: 
1988ء تک وطن عزیز پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کا حجم 13 ارب ڈالر تھا۔ جمہوریت کے علم بردار حکمرانوں نے 1999ء تک یعنی صرف گیارہ برسوں میں اِن قرضوں کا حجم 39 ارب ڈالر تک پہنچا دیا۔ یاد رہے ان گیارہ سالوں کے دوران بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دو، دو مرتبہ وزارتِ عظمی کے بھرپور مزے لے چکے تھے۔ غضب خدا کا‘ صرف دس سالوں میں 26 ارب ڈالر کے قرضے حاصل کر لئے گئے۔ کہاں لگائے اور کہاں اُڑائے؟ یہ سبھی کچھ تو عیاں ہو ہی چکا ہے۔ اسی طرح 1999ء سے 2008ء تک جنرل مشرف کے عرصہ اقتدار میں 39 اَرب ڈالر کا قرضہ 40.6 اَرب ڈالر تک ہی گیا۔ بیرونی قرضوں پر جنرل مشرف کا یہ کنٹرول قابلِ تعریف و تقلید تھا۔ 
2008ء میں میثاقِ جمہوریت کے نام پر بننے والے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں نواز، زرداری بھائی بھائی بن کر شہر اقتدار میں داخل ہوئے... 2008ء سے 2013ء تک زرداری نے اپنا سِکّہ چلایا تو اگلے پانچ سال 2013ء سے 2018ء تک وطن عزیز میں ''نواز راج‘‘ رہا۔ اِن دس سالوں میں یعنی 2008ء سے 2018ء تک مجموعی طور پر بیرونی قرضوں کا حجم 40.6 اَرب ڈالر سے بڑھ کر 96 اَرب ڈالر تک پہنچا دیا گیا۔ انصاف سرکار نے جولائی 2019ء میں بیرونی قرضوں پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان تو کیا لیکن اس اعلان کا حشر نشر بھی ان اعلانات اور اقدامات سے مختلف نہیں ہوا جو انصاف سرکار کنٹینر سے لے کر لمحۂ موجود تک اپنے باقی اعلانات کے ساتھ کرتی چلی آ رہی ہے۔ 
جناب وزیر اعظم نے عوام کو ایک تازہ ترین خوشخبری دی ہے۔ یہ کہ پہلی بار عام آدمی مطمئن نظر آرہا ہے۔ تعجب ہے وہ عام آدمی وزیر اعظم صاحب کو کہاں مل گیا‘ جو مطمئن ہے اور جو ان کی طرزِ حکمرانی پر نازاں اور شاداں نظر آیا ہے۔ جان کی اَمان ہو تو عرض کروں کہ حضور کا اقبال مزید بلند ہو! جس عام آدمی کے مطمئن ہونے کا قومی راز افشا کیا گیا ہے ‘ اس عام آدمی کی حالت اس وقت اس گوتم بدھ سے کم نہیں جس نے دنیا کو دُکھوں کا گھر کہا اور زندگی کے جھمیلوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ترکِ دُنیا کیا۔ عام آدمی کے پاس ان دُکھوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے گوتم کے نقشِ قدم پر چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور یہ بڑھتے ہوئے دُکھ کوئی صہیونی طاقتوں کی سازش نہیں بلکہ انصاف سرکار کی گورننس اور میرٹ کے وہ بھیانک روپ بہروپ ہیں جنہیں حکومتی ترجمان صبح دوپہر شام کارکردگی ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ صبح وفاقی دارالحکومت میں بھاشن دیتے ہیں تو شام کو صوبائی دارالحکومت پہنچ جاتے ہیں۔ درجنوں مائیک سامنے سجائے صفر کارکردگی اور نامعلوم اہلیت کا وہ ڈھول بجاتے ہیں کہ ڈھول بھی پناہ مانگتا ہو گا۔ عام آدمی کہیں ان کی گورننس کا شکار ہے تو کہیں میرٹ کا... کہیں بالواسطہ متاثر ہو رہا ہے تو کہیں بلا واسطہ... بہر حال عام آدمی کی زندگی کچھ اس طرح اجیرن کر دی گئی ہے کہ نہ تو وہ اس طرزِ حکمرانی کی مزید تاب لا سکتا ہے اور نہ ہی گوتم بدھ کی طرح ترکِ دنیا اختیار کر کے اپنی ذمہ داریوں اور جھمیلوں سے آزادی حاصل کر سکتا ہے اور شاعر نے اس کے حالتِ زار کو اشعار میں کچھ یوں ڈھالا ہے: 
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا 
اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے 
ہر طرف آدمی کا شکار آدمی 
روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا 
ہر نئے دن نیا انتظار آدمی 
زندگی کا مقدر سفر در سفر
آخری سانس تک بے قرار آدمی 
دُکھوں کی اس بستی میں وزیر اعظم صاحب کا عام آدمی بھی پوچھتا پھرتا ہے: ؎ 
کہاں لے آئے ہو رہبرو تم
یہاں تو کربلا ہی کربلا ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں